Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

73 - 196
	 حضرت مولانا غلام محمدصاحبؒ نے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لیا۔ مولانا مرحوم کی بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے اکابر کا دل سے احترام کرتے تھے۔ چھوٹوں کو آگے بڑھانے اور تعارف کرانے میں فیاض طبیعت تھے۔ نامعلوم ان کی حوصلہ افزائی سے کتنے رفقاء آگے بڑھے اور مقام حاصل کیا۔ خود اچھے مقرر تھے۔ نپی تلی جاندار گفتگو کرتے تھے۔ نام ونمود سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ اچھے منتظم تھے۔ خطابت‘ منتظم ہونے پر اخلاص کی گہری چھاپ نے انہیں نکھرا ہوا موتی بنادیا تھا۔ 
	۱۹۸۴ء کی تحریک اور اس کے بعد حضوری باغ روڈ ملتان پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر کی تعمیر میں آپ کی ڈیوٹی مرکزی دفتر میں تھی۔ ان کاموں میں مرحوم کا نہ صرف حصہ بلکہ بہت بڑا حصہ ہے۔ ہمارے مخدوم گرامی مخدوم العلماء مجاہد ملت حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ کے بہت ہی معتمد تھے۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کی رفاقت وطبیعت کا واضح پرتو ان میں نظر آتا تھا۔ حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ‘ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ‘ حضرت مولانا محمدحیاتؒ اور حضرت مولانا عبدالرحمن میانویؒ پر دل وجان سے عاشق تھے۔ بہاول پور میں قیام کے دوران علی پور میں اخبارات کی ایجنسی حاصل کی۔ اپنے چھوٹے بھائی کو اس کا نگران بنایا۔ جس زمانہ میں بہاول پور ہوتے تھے جماعتی حلقہ میں حضرت مولانا غلام محمدبہاول پوری کے نام سے تعارف تھا۔ ملتان مرکزی دفتر کے بعد بہاول پور میں کچھ عرصہ مجلس کا کام کیا۔ علی پور میں اپنے ذاتی کام کی وسعت اور بڑھاپاکے باعث حالات کچھ ایسے بنے کہ مستقل علی پور منتقل ہوگئے۔ ان کے جانے سے اخبارات کے کام میں ترقی ہوئی۔ انہوں نے اڈہ کے قریب مسجد ومدرسہ کی نیو اٹھائی۔ مولانا مرحوم مدرسہ میں منتقل ہوگئے۔ بڑھاپا مستقل سیاپا نے ان کو گھیرا۔ لیکن شیر دل تھے۔ آخر وقت تک معمولات کو ترک نہیں کیا۔ ہر دینی کام میں برابر شریک رہے۔ حضرت مولانا منظورالحسینی نے بھانجوں کے سرپر دست شفقت رکھا۔ اب مین روڈ پر جامعہ حسینیہ کی کوہ قامت عمارت اور شاندار تعلیمی ماحول کا گلشن صدا بہار ہوا‘ تو دونوں حضرات حضرت مولانا غلام محمد جو اب علی پوری کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ اور حضرت مولانا منظوراحمد الحسینی ؒ یکے بعد دیگرے چند دنوں کے فاصلہ سے راہی آخرت ہوگئے۔ 
	حضرت مولانا غلام محمدصاحبؒ کی آخری دنوں بخار ونزلہ سے طبیعت بگڑی۔ ضیق النفس کو بھی گزشہ چند سالوں سے ساتھ لئے پھرتے تھے۔ لیکن ہمت نہ ہاری۔ البتہ کمزور ہوگئے تھے۔ آخری شب سوتے جاگتے رہے۔ ذکر وفکر جاری رہا۔ رات ساڑھے تین بجے سوگئے۔ صبح نماز کے وقت جگایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ آخرت کو سدھار چکے ہیں۔ اﷲ! اﷲ! سکون واطمینان کی یہ گھڑی دنیا میں سوئے اور عالم برزخ میں آنکھ کھولی۔ یا یوں تعبیر کریں کہ سوتے سوتے جنت چلے گئے۔ ۱۲؍ محرم الحرام ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۲؍فروری ۲۰۰۵ء بروز منگل انتقال ہوا۔ اسی روز ہی شام کو جامعہ حسینیہ میں سپردخاک ہوئے۔ 			         (لولاک ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ)
۹۲…حضرت مولاناقاری محمدامینؒ 
وفات… ۱۷جولائی۲۰۰۵ء
	حضرت مولانا قاری محمدامین صاحبؒ ۱۰جمادی الثانی بروز اتوار مطابق۱۷جولائی ۲۰۰۵ء عالم دنیا سے عالم جادوانی کی طرف رحلت فرماگئے۔اناﷲوانا الیہ راجعون! آپ چھچھ ضلع اٹک کے مردم خیز علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اپنے علاقہ کے جیدعلماء کرام سے حاصل کی۔ اﷲ تعالیٰ نے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter