Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

72 - 196
	پاسپورٹ میں خانہ مذہب کی بحالی کی مہم نے دن رات ایسا سرگرداں رکھا کہ مہلت نہ مل سکی۔ ۳؍اپریل کو تعزیتی کانفرنس علی پور جامعہ حسینیہ میں رکھی گئی۔ اس کے لئے بھی وقت نہ نکال سکا۔سو آج ادائے فرض وادائیگی قرض کے لئے بسم اﷲ کرتا ہوں۔
	حضرت مولانا غلام محمدصاحبؒ بلوچ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آبائواجداد ڈیرہ غازی خان سے سکونت ترک کرکے فتح پور کمال نزد ظاہرپیر ضلع رحیم یارخان میں آکر آباد ہوئے۔ حضرت مولانا غلام محمدصاحبؒ ۱۹۳۳ء میں پیدا ہوئے۔ ذرا ہوش سنبھالا تو کچھ سکول کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد خانپور میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمدعبداﷲ درخواستی صاحبؒ کے مدرسہ مخزن العلوم میں داخلہ لیا۔ جہاں حضرت مولانا سید محمدانورشاہ کشمیریؒ کے شاگرد حضرت مولانا واحد بخش صاحبؒ(کوٹ مٹھن والے) اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی کے شاگرد حضرت مولانا محمدابراہیم تونسویؒ اورحضرت درخواستی صاحبؒ سے آپ نے دورہ حدیث کیا۔ آپ کے ساتھ فارغ ہونے والوں میں حضرت مولانا محمدلقمان علی پوریؒ بھی تھے۔
	 فراغت کے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدرالمبلغین حضرت مولانا محمدحیاتؒ فاتح قادیان سے ردقادیانیت پر تیاری کی۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی کام کی توفیق نصیب ہوئی۔ ستمبر۱۹۵۴ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنمائوں اور مبلغین کا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اجلاس ہوا۔ اس میں بھی آپ شریک تھے۔ ملتان‘ خانیوال اور پھر بہاول پور میں آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ رہے۔ حضرت مولانا غلام محمدصاحبؒ گورے‘ چٹے‘ کھلے چہرہ‘ دراز قد‘ متوسط جسم کے حامل تھے۔ مزاج میں پھرتیلا پن‘ طبیعت میں مشن سے والہانہ لگائو اور محنت کا بھرپور جذبہ تھا۔ جوانی میں کسی رورعایت کے روادار نہ تھے۔ جس بات کو حق جانا اس پر ڈٹ گئے۔ جس بدی کو دیکھا اسے چاروں شانوں چت کرنے کے لئے جت گئے۔ جب تک آپ بہاول پور میں مجلس کے مبلغ رہے قادیانیوں کے پوری ریاست بہاول پور میں قدم نہ ٹکنے دئیے۔ ان کے قیام بہاول پور کے دوران میں عظیم الشان اور مثالی تین روزہ سالانہ ختم نبوت کانفرنسیں ہوتی رہیں۔ اس زمانہ میں ایک روزہ کانفرنسوں کا رواج نہ تھا۔ ملک بھر کی دینی قیادت ان میں شریک ہوتی تھی۔ آج کل لوگ میلوں‘ ٹھیلوں میں جس ذوق سے جاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ شوق سے لوگ ان کانفرنسوں میں شرکت کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ ہرخطیب کا اپنا انداز ہوتا تھا۔ آج کل کی طرح نقالی وتصنع کا تصور تک نہ تھا۔ ہر خطیب اپنے انداز میںآتا اور اپنے مخصوص لہجہ میں خطاب کرتا۔ بات دل سے نکلتی اور دلوں پر اترتی‘ دماغوں پر اثر کرتی۔ چہارسو دینی ماحول اور ترویج دین واشاعت اسلام کا سماں ہوتا تھا۔ ہر خطیب تبلیغ اسلام کے نقطہ نظر سے اپنا فرض ادا کرتا۔ لوگوں کی ذہن سازی ہوتی تھی۔ دینی فضا بنتی تھی۔ سامعین جھولیاں بھرکر دل روشن ودماغ معطر کرکے جاتے تھے۔ ترنم وخوش الحانی بعض جلیل القدر خطباء کی خطابت کا طرہ امتیاز ہوتا تھا۔ اکثر وبیشتر خطباء کھڑے ہوکر گفتگو کرتے تھے۔ سادہ مگر صاف لباس ہوتا تھا۔ ان کے قدم قدم پر عمل وفضل کے وقار کی چھاپ ہوتی تھی۔ آج کل کی طرح تصنع‘ نقالی‘ قصہ خوانی‘ مک مکائو‘ گوّیاپن‘ میک اپ کا تصور نہ ہوتا تھا۔ جہاں ایک جلسہ ہوجاتا تھا وہاں سنت رسولﷺ اور احیائے دین کی فضا قائم ہوجاتی تھی۔ بہاول پور کی دینی فضا والیان ریاست کی دین داری‘ حضرت مولانا غلام محمدگھوٹویؒ‘ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ‘ حضرت مولانامحمدادریس کاندھلویؒ‘ حضرت علامہ شمس الحق افغانی  ؒ‘حضرت علامہ احمدسعید کاظمیؒ‘ حضرت مولانا محمدصادق بہاول پوریؒ‘ حضرت علامہ محمدناظم ندویؒ کے قیام بہاول پور کی برکات اور جامعہ عباسیہ میں ان حضرات کی تدریس کا نتیجہ تھیں۔ اس فضاء کو بہاول پور میں برقرار رکھنے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے حضرت مولانا غلام محمد مرحوم کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter