Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

71 - 196
بناتی ہے اور خود کو مظلوم ثابت کرتی ہے۔ اس تحریک کا فائدہ یہ ہوا کہ شادن لنڈ میں چالیس قادیانی مسلمان ہوگئے کہ جناب! دنیا میں مسلمانوں سے ہم علیحدہ۔ مرنے کے بعد بھی مسلمانوں میں دفن نہ ہوسکیں تو لعنت ہے اس قادیانیت پر۔ خود اس قادیانی تمن دار کا ایک قریبی عزیز بیٹا یا پوتا ایک مرحلہ پر صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ کے پاس آیا۔ قادیانیت ترک کرنے کا ارادہ کیا۔ صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ نے فقیر کو فون کیا کہ کیا کرنا ہے؟۔ میں نے عرض کیا کہ کوئی سیاسی چال نہ ہو۔ فون بند کیا۔ اس سے اسٹام لکھوایا۔ مرزا قادیانی کے کفر پر دستخط لے کر فارغ کردیا۔ مجھے فون کیا کہ توبہ کرادی۔ میں نے کہا آپ نے جلدی کی۔ معاملہ کو تھوڑا سوچ لیا ہوتا۔ کہنے لگے کہ مرزا قادیانی کو اس نے کافر کہا۔ قادیانیوں کی ذلت ہوئی۔ ان سے اس کی لڑائی ہوئی۔ دشمن کمزور ہوا۔ یہ نہ سہی اس کی اگلی نسل سے قادیانیت کے جراثیم بھی ختم ہوجائیں گے۔ اگر پھر مرتد ہوا۔ ہم زندہ تو پھر دما دم مست قلندر کرنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ میدان بھی ہے۔ سواری بھی ہے۔ شاہسوار بھی ہے۔ 
	غرض خوب آدمی تھے۔ پھر قادیانی مردوں کے اخراج از قبرستان ہائے مسلم کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ پورے ضلع کو صاف کردیا۔ رہے نام اﷲ کا۔ اس قسم کے ان کے مجاہدانہ کارناموں سے تاریخ بھری ہے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے ممتاز رہنمائوں میں سے تھے۔ جرات مند‘ باہمت‘ بہادر انسان تھے۔ ان کا دل آئینہ کی طرح صاف تھا اور زبان نفاق سے پاک تھی۔ جو کہتے تھے کرکے دکھاتے تھے۔ آخر وقت تک مرد غازی اور مجاہد کی طرح ستیزہ کاررہے۔ آخری عمر میں شوگر نے کمزور کردیا۔ دل ودماغ آخر تک متحرک رہے۔ یہی مومن کی شان ہے۔ 
	۲۱فروری ۲۰۰۵ء کو انتقال ہوا۔ ۲۲فروری کو مثالی جنازہ ہوا۔ ضلع بھر کے لوگ قافلہ در قافلہ آئے۔ عدیم النظیر حاضری تھی۔ آپ کے استاذ حضرت مولانا محمدقاسم نے جنازہ پڑھایا۔ آبائی قبرستان میں خلد نشین ہوئے۔ 				(لولاک صفرالخیر۱۴۲۶ھ)
۹۱…حضرت مولاناغلام محمدعلی پوریؒ 
وفات… ۲۲فروری۲۰۰۵ء
	کسی بزرگ ودوست کی وفات کی خبر سننے کے بعد ابتدائی دوتین دنوں میں تعزیتی مضمون یا خاکہ لکھنے کے لئے وقت مل جائے تو بہت موزوں لکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ مل سکے تو تجربہ یہ ہے کہ مضمون میں نہ صرف تاخیر ہوجاتی ہے بلکہ بعد میں لکھے جانے والے مضمون میں ’’وردد‘‘ کی کیفیت قطعاً پیدا نہیں ہوسکتی۔ الّامارحم ربی! آج اسی ذہنی کیفیت سے دوچار ہوں۔ محترم حضرت مولانا صوفی اﷲ وسایا صاحب مرحوم کے جنازے کے لئے پاء بکف تھے کہ علی پور سے مولانا محمداجود حقانی نے اطلاع دی کہ حضرت مولانا غلام محمدصاحب انتقال فرماگئے ہیں۔اناﷲوانا الیہ راجعون!پڑھا اور ڈیرہ غازی خان حضرت صوفی صاحبؒ کے جنازے کے لئے روانہ ہوگئے۔ اسی شام کو واپس آکر علی پور فون کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت مولانا غلام محمدصاحبؒ کا جنازہ بھی ہوگیا ہے۔ اسی روز بہاول پور میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ اس کے لئے عازم ہوئے۔ اگلے روز ختم نبوت رابطہ کمیٹی کا اسلام آباد میں اجلاس بھی تھا اور اس میں شرکت بھی ازبس ضروری تھی۔ حضرت مولانا عزیزالرحمن جالندھری دامت برکاتہم‘ حضرت مولانا محمداکرم طوفانی مدظلہ اور حضرت مولانا محمداسماعیل شجاع آبادی تو بہاول پور سے علی پور تعزیت کرکے رحیم یارخان ختم نبوت کانفرنس میں جاشریک ہوئے۔ جبکہ فقیر اسلام آباد سفر کے باعث تعزیت کے لئے علی پور نہ جاسکا اور نہ ہی تعزیتی مضمون لکھنے کا وقت ملا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter