Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

70 - 196
کے جلسوں نے تحریک کو پروان چڑھایا۔ تب ربوہ کے قادیانی علی الاعلان دعوے کرتے نہ تھکتے تھے کہ اب مولویوں کا مقابلہ سرمایہ دار‘ زمیندار‘ وڈیرے‘ جاگیردار‘ تمن دار سے ہے۔ قادیانیوں کے لمبے ہاتھ۔ خود بھی مرنے والا علاقے کے رواج کے مطابق اپنے قبیلہ کا سردار تھا۔ ضلعی انتظامیہ ان کے زیر اثر تھی۔ تب ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت کے ایک مرحلہ پر مذہبی امور کے زیر اہتمام قادیانی مسئلہ پر ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ مذہبی امور کے وزیر ملک خدا بخش ٹوانہ تھے۔ جونیجو صاحب نے ان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ڈیرہ غازی خان جاکر مسئلہ کو حل کریں۔ یہ دفع الوقتی تھی۔ یا بعد میں قادیانی دبائو کہ انہوں نے تاریخ مقرر کرکے ملتوی کردی۔ مولانا صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ نے ڈیرہ غازی خان میں جلسہ عام کا اعلان کردیا۔
	 اجتماعی جمعہ ایک گرائونڈ میں ہوا۔ جمعہ کے بعد جلوس نے ایس پی وڈی سی آفس جانا تھا۔ ہزاروں خلق خدا کے جلومیں تمام دینی جماعتوں کے ضلعی سربراہوں کے ہمراہ آپ روانہ ہوئے۔ شہر کے درودیوار جھوم اٹھے۔ آگے مناظراسلام حضرت مولانا عبدالستار تونسوی بھی جلوس میں آشامل ہوئے۔ فقیر راقم ابتدائی جلسوں سے آج کے جلوس تک صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ کے زیر قیادت شریک رہا تھا۔ اس جلسہ میں لاہور سے شیعہ مکتب فکر کے رہنما جناب علی غضنفر کراروی بھی شریک ہوئے۔ جلوس کے شروع ہوتے ہی ممکنہ حالات کو سامنے رکھ کر فقیر نے ان کو دفتر بھیجوادیا کہ آپ آرام کریں۔ جلوس کے بعد اکٹھے ملتان چلیں گے۔ پورے ضلع سے کارکنوں کی نمائندگی موجود تھی۔ بلاشبہ ہزاروں کا جلوس تھا۔ ڈی سی‘ ایس پی نے باہر نکل کر بات چیت کرنا چاہی۔ فقیر نے جاکر صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ کے کندھے پر ہاتھ رکھا کہ مولانا! اب وقت ہے جلوس کی طاقت آپ کی پشت پر ہے۔ انتظامیہ سے قادیانی مردہ کے اخراج کے لئے کل کی تاریخ طے کرالو۔ جلوس پرامن منتشر کردو۔ کل پولیس افسران کے ہمراہ آپ جائیں اورقادیانی مردہ نکلواکر آئیں۔ صوفی صاحبؒ مصر تھے کہ یہ ابھی چلیں۔ جلوس کے ہمراہ جائیں گے۔ لیکن یہ کسی طرح ممکن نہ تھا۔ میری بات سن کر صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ روپڑے کہ حکومت جھوٹے وعدے کرتی ہے۔ مہینہ ہوگیا ہے۔ مجھے سمجھیں کہ میں کربلا میں اکیلا کھڑا ہوں۔ میرے لئے صوفی صاحبؒ کو اس ماحول میں قائل کرنا مشکل ہوگیا۔ میں پیچھے ہٹ آیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا۔ صوفی صاحبؒ بھاری جسم کے تھے۔ حضرت تونسوی صاحب بوڑھے تھے۔ پولیس کی زد میں آگئے۔ خوب لاٹھی چارج ہوا۔ کئی رہنما زخمی ہوگئے۔ ان دنوں فقیر ہلکے جسم کا تھا۔ جان بچی‘ لاکھوں پائے۔ تب بریلوی مکتب فکر کے رہنما جناب محمد خان لغاری بھی زخمی ہوئے۔ سب حضرات کو بیسیوں رفقاء سمیت زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ فقیر افراتفری میں دفتر آیا۔ مولانا کراروی کو ساتھ لیا اور ملتان کے لئے عازم سفر ہوا۔ تھوڑی دیر بعد دفتر پر چھاپہ پڑا اور موجود سب حضرات بھی حوالہ زندان ہوگئے۔
	 پولیس افسران کے وحشیانہ آپریشن سے ایک بار سراسئمیگی پھیل گئی۔ ریڈیو اور اخبارات میں خبر آئی۔ قومی اسمبلی میں تحریک التواء پیش ہوئی۔ ہم نے جلسوں اور مظاہروں کا اعلان کردیا۔ حکومت کی وعدہ خلافی کو کوسا گیا۔ اس دور کے حکمرانوں میں کچھ احساس تھا۔ ٹی وی پر پوری قوم کے سامنے وعدہ خلافی کے الزام کے سامنے ٹھہر نہ سکے۔ پولیس گئی۔ قادیانی تمن دار کی لاش مسجد سے نکال کر ان کی اپنی حویلی میں دبادی گئی۔
	 صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ فاتح شیر گڑھ بن گئے۔ قادیانیوں پر اوس پڑگئی۔ قادیانی غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کے قبرستان علیحدہ۔ غیر مسلموں کے مرگھٹ علیحدہ۔ یہ مال کے کاغذات میں تقسیم وفرق موجود ہے۔ پوری مغربی دنیا میں مسلم‘ غیر مسلم قبرستانوں میںیہ تمیز موجود ہے۔ لیکن جان کر قادیانی خود کومسلمان ثابت کرنے کے لئے اپنے مردے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرکے آئین سے انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قادیانی قیادت جان کر قادیانیوں کے مردے خراب کراکر قوم کو الو 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter