Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

69 - 196
خان اور کوئٹہ کی مجلس کی علیحدہ رپورٹ شائع ہوتی تھی۔ جو مرکزی روئیداد کے علاوہ ہوتی تھی۔ داجل اور پہاڑی علاقوں میں اونٹوں پر سفرکرنا اور پیدل چلنا‘ ان سب متذکرہ حضرات کے ساتھ سال بھر میں ایک دو پورے ضلع کے تبلیغی اسفار کا ہونا‘ ایک معمول تھا۔ مولانا صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ کی شبانہ روز محنت کو اﷲ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ ایک وقت میں وہ ڈیرہ غازی خان کی دینی پہچان بن گئے۔ کوئی دینی ادارہ یا جماعت ان کے مشورہ کے بغیر نہ چلتی تھی۔ علماء میں ان کی مثال ستاروں میں چاند کی سی تھی۔ رنگ سانولا‘ قد متوسط‘ جسم بھاری۔ گفتگو میں ربط کے قائل نہ تھے۔ ہمیشہ عشق ومستی کی زبان بولتے۔ جو بات کرتے جذبہ سے کرتے۔ دل سے نکلتی تھی اور دلوں پر پڑتی تھی۔ خدمت خلق کاجذبہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیا۔ غریب‘ مسکین‘ پسے ہوئے پسماندہ لوگ آتے اور آپ ان کے تھانوں اور کچہریوں کے کام کرواتے تھے۔ مقدر کے دھنی تھے۔ جہاں جاتے کام کراکر واپس لوٹتے تھے۔ سیدھی لٹھ چلانے کے عادی تھے۔ بل‘ فریب اور لگی لپٹی کے قائل نہ تھے۔ ان کے جذبہ عشق ومستی نے ان پر فتوحات کے دروازے کھول دئیے۔ ضلعی وڈویژنل انتظامیہ کا ان کے موقف کو مانے بغیر چارہ نہ ہوتا تھا۔ دوست پرور تھے۔ جس سے دوستی ہوگئی اسے عمر بھر نبھاتے تھے۔ جس افسر سے ایک بار ملنا ہوجاتا وہ زندگی بھر آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔ آپ ان تعلقات سے غریب لوگوں کے کام نکلواتے۔ خدمت خلق اور جذبہ صادق نے آپ کو علاقہ کا ہر دل عزیز بلکہ بے تاج بادشاہ بنادیا تھا۔ متوکل علی اﷲ تھے اور یہی ان کا سرمایہ تھا۔ دوست ان پر جان چھڑکتے تھے۔ گھر سے پیدل نکلے۔ سواری کرائی۔ راستہ میں دوست مل گیا۔ تیل ڈلوایا‘ چل پڑے۔ ہفتہ بھر میں ضلع بھر کا دورہ مکمل کرکے آگئے۔ جو ملا کرایہ ادا کردیا۔ خالی جیب گھر سے جاتے اور اسی طرح واپس آجاتے تھے۔ جس پولیس افسر سے دوستی ہوئی تو پولیس کی گاڑی‘ پولیس کی نگرانی‘ پولیس ڈرائیور۔ یوں علاقہ میں تبلیغی دورے کرتے تھے۔ آپ کی ایسی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ بڑے سے بڑے سردار آپ کے نام سے خم کھاتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان کے درودیوار پر آپ کی جراتوں وبہادری کے نشان ثبت ہیں۔

	 ایک بار کمپنی باغ کے جلسہ عام میں ایک وزیر سرمایہ دار تقریر میں دین دار طبقہ کو رگید رہے تھے۔ مولانا صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ کو اطلاع ہوئی۔ اکیلے جادھمکے۔ اتفاق سے نماز کا وقت تھا۔ قریبی مسجد پیارے والی میں آذان دی۔ لوگ آپ کی آواز سے مانوس تھے۔ ان کے کان کھڑے ہوئے۔ آذان کے اختتام پر اعلان کیا کہ آئو لوگو! نماز کی طرف۔ حاضرین یکدم اٹھے۔ مسجد بھرگئی۔ جلسہ اجڑگیا۔ وزیر صاحب کی تقریر ختم ہوگئی۔ رعونت اقتدار رخصت ہوگئی۔ صوفی صاحبؒ نے سپیکر پر نماز پڑھائی۔ دعا میں پوری تقریر کا جواب ہوگیا۔ یوں اکیلے آپ کی جرات نے اقتدار کو چاروں شانے چت کردیا۔ اس طرح کے واقعات شب وروز ان کی زندگی کا عام معمول تھا۔ آپ کی گدائے فقیر‘ صدائے بے نواء پر لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح جمع ہوجاتے تھے۔ علاقہ بھر میں آپ کے نام کی گونج تھی۔ آپ کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ بڑے بڑے سورمائوں کے آپ کے نام سے پتے پانی ہوجاتے تھے۔
	 ایک بار ٹبی قیصرانی کے قریب بستی شیرخان میں میرمند قادیانی زمیندار کو مسجد کے کونہ میں دفن کردیا گیا۔ آپ کو پتہ چلا تو سینہ سپر ہوگئے۔ علاقہ کے تمام مکاتب فکر کو جمع کیا۔ آگ پانی کو جمع کرکے قادیانیوں کے مقابل لاکھڑا کیا۔ خانقاہ عالیہ تونسہ شریف کے خاندان کے چشم وچراغ خواجہ عبدمناف کو ساتھ ملایا۔ مذہب وسیاست کے سربرآوردہ حضرات کو یکجا کرکے تحریک کی نیو اٹھائی۔ جلسے ہوئے۔ ٹبی قیصرانی کے جلسہ میں قادیانیوں نے آدمی بھیج کر پتھرائو کیا۔ آپ شیر غراں کی طرح ڈٹ گئے۔ جلسہ کامیاب ہوا۔ ٹبی سے تحریک تونسہ شریف تک پھیل گئی۔ دن رات 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter