Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

66 - 196
میں جلسہ عروج پر تھا۔ ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ یہ سٹیج تھی۔ اس دور میں سپیکر خال خال جلسوں میں استعمال ہوتا تھا۔ نظم ہورہی تھی۔ حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ مولانا حضور احمد رفقاء سمیت سامعین میں بیٹھ گئے۔ جلسہ کے داعی مولانا حضور احمد کے رشتہ دار دوڑے ہوئے آئے اور مولانا حضور احمد کو سٹیج یعنی چارپائی پر بیٹھنے کے لئے اصرار کیا۔ لیکن مولانا حضور احمد غصہ میں تھے کہ ہمارے رشتہ دار ہوکر دیوبندی کو کیوں بلایا۔ اس لئے سامعین میں بیٹھے رہے۔ حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی کی مولانا حضور احمد سے واقفیت نہ تھی اور نہ ہی صورت حال سے باخبر تھے۔ نظم ختم ہوئی۔ عربی میں خطبہ پڑھا۔ جھوم اٹھے۔ رسیلی تلاوت کی تو سامعین سراپا گوش برآواز ہوگئے۔ اب تقریر شروع کی تو چند منٹوں میں پورا اجتماع ان کی مٹھی میں تھا۔ گرمی کے زمانہ میں ظہر سے عصر تک اڑھائی گھنٹے بیان ہوا۔ تمام تقریر دیوبندی بریلوی نزاع کے تناظر میں تھی۔ مگر کیا مجال ہے کہ پوری گفتگو میں کوئی کمزور بات‘ تیز یا ترش لہجہ اختیار کیا ہو۔ دعا ہوئی۔ مولانا حضور احمد صاحب رفقاء سمیت اٹھے۔ چادر کی گرد جھاڑی اور واپس چل پڑے۔ راستہ میں فرمایا کہ یہ مولوی صاحب تو خوب آدمی ہیں۔ اپنا عقیدہ بھی بیان کیالیکن کہیں اعتراض کے لئے جھول نہیں آنے دیا۔
	 موصوف کی رائے مولانا دوست محمد مدؒنی کے متعلق سن کر : ’’والفضل ماشہدت بہ الا علاء ۰‘‘ کا نقشہ آنکھوں میں گھومنے لگا۔ اس زمانہ میں خانیوال ملتان کی تحصیل تھی۔ تب پورے ضلع میں کوئی قابل ذکر جلسہ آپ کی تقریر کے بغیر نہ ہوتا۔
	خانیوال سے ۱۹۶۲ء میں نواب شاہ سندھ منتقل ہوگئے۔ ریلوے اسٹیشن نواب شاہ کے قریب مسجد کبیر کی بنیاد رکھی۔ فلک بوس‘ خوبصورت اور دیدہ زیب مسجد بنائی۔ اس کے عقب میں ملحقہ رہائش کے لئے مکان بنایا اور اسی سے آپ کا جنازہ اٹھا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً ۸۷سال تھی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  ؒسے آپ کو عشق تھا۔ قاسم العلوم ملتان کے سنگ بنیاد کے لئے جب حضرت مدنی  ؒتشریف لائے تو حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی ہمراہ تھے۔ مولانا دوست محمدؒ نے جمعیت علمائے ہند‘ مجلس احرار اسلام اور جمعیت علمائے اسلام میں سرفروشانہ کام کیا۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ‘ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ‘ حضرت مولانا محمدعبداﷲ درخواستی  ؒاور حضرت مولانا عبدالحق صاحب پر جان چھڑکتے تھے۔ 
	سندھ میں قیام کے دوران قادیانی فتنہ کے اثرات دیکھے تو ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ ہر سال اپنی مسجد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس بڑے اہتمام سے منعقد کراتے۔ ایک کانفرنس پر حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم تشریف لائے تو حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی نے بڑے اہتمام کے ساتھ گھر سے ایک بکس منگوایا۔ اس میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  ؒکی ٹوپی ودیگر تبرکات تھے۔ ان کی زیارت کرائی۔ چناب نگر وملتان کی ختم نبوت کانفرنسوں میں متعدد بار شرکت فرمائی۔ غرض حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی نے بھرپور زندگی گزاری۔
	 تین صاحبزادے اور دو بیٹیاں آپ کے پسماندگان میں شامل ہیں۔ تینوں بیٹے حافظ وقاری وعالم ہیں۔ مولانا محمد ارشد مدنی‘ مولانا اسجد مدنی اور محمدامجد مدنی۔ تینوں دین کی خدمت تعلیم وتعلم‘ درس وتدریس‘ امامت وخطابت سے ترویج اسلام کے لئے ساعی ہیں جو یقینا حضرت مولانا مرحوم کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔ حق تعالیٰ حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی کے حامی وناصر ہوں۔ آمین!  				         (لولاک محرم الحرام ۱۴۲۶ھ)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter