Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

65 - 196
پہنچی وہیں پے خاک جہاں کا خمیر تھا
	حضرت مولانا منظور احمد الحسینی  ؒدنیا میں چلتے پھرتے جنتی انسان تھے۔ مقدر کے دھنی تھے۔ عجم سے اٹھے یورپ پر چھائے اور عرب میں آسودہ خاک ہوگئے۔ مدتوں حضرت مولانا منظور احمد الحسینی  ؒ کا تذکرہ رہے گا۔ زندگی ہو تو آپ جیسی اور موت ہوتو آپ کی موت جیسی۔ عمر بصد مشکل پینتالیس پچاس سال ہوگی۔ لیکن کام صدیوں کا کرگئے اور صدیوں ہی آپ آنے والی نسل کے یاد کرنے کے قابل انسان تھے۔ حق تعالیٰ حضرت مولانا منظور احمد الحسینی  ؒ کے حامی وناصر ہوں۔ مقدر دیکھو کل قیامت کے دن وہ صاحب ختم نبوتﷺ کے ساتھ مدینہ طیبہ سے اٹھنے والے گروہ سعید میں شامل ہوں گے۔زندہ بادحضرت الحسینی  ؒ!         (لولاک محرم الحرام۱۴۲۶ھ)
۸۸…حضرت مولانادوست محمدمدؒنی 
وفات… ۱۴جنوری۲۰۰۵ء
	بزرگ عالم دین حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی ۱۴جنوری ۲۰۰۵ء کو نواب شاہ میں انتقال کرگئے۔اناﷲوانا الیہ راجعون!
	حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی ملکانی بلوچ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۱۷ء میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کے والد جناب گل محمد خان متوسط درجہ کے زمیندار تھے۔ حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی نے ابتدائی تعلیم حضرت خواجہ سلیمان تونسویؒ کے قائم کردہ مدرسہ سلیمانیہ تونسہ شریف میں حاصل کی۔ مدرسہ نعمانیہ ملتان میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے ہاں بھی عرصہ تک پڑھتے رہے۔ حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحبؒ بانی جامعہ قاسم العلوم مفتی ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ کے شاگرد رشید تھے۔ غالباً اپنے استاذ کی ترغیب سے حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی چلے گئے۔ یہ ۱۹۴۰ء کی بات ہے۔ حضرت مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ دورہ حدیث شریف کے لئے دیوبند حاضری دی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  ؒ سے شاگردی وبیعت کا شرف حاصل کیا۔ تب سے مولانا دوست محمدؒ نے اپنے نام کے ساتھ مدنی کا لاحقہ لگانا شروع کردیا۔ 
	 ۱۹۴۴ء کے اواخر میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ملتان وخانیوال کے درمیان شام کوٹ کی بستی سیداں میں امامت وتدریس کے لئے خدمات سرانجام دیں۔ کچھ عرصہ بعد خانیوال کی مسجد لوکوشیڈ میں خطیب مقرر ہوگئے۔ یہ زمانہ آپ کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔ درمیانہ قد‘ گندھا ہوا جسم‘ سفید کالی داڑھی‘ تقریر کے لئے جاتے تو ہاتھ میں عصاء اور عربی کالے رنگ کا عربی چغہ استعمال کرتے۔ رسیلی آواز‘ دلائل گرم اور الفاظ نرم آپ کی خطابت کی پہچان تھی۔ گھنٹوں کھڑے ہوکر بلاتکان بولنا اور سامعین کو دم بخود کرنا یہ آپ کی شان تھی۔
	 راقم ابھی مڈل کلاس میں پڑھتا تھا۔ تب نورپور نورنگہ کے قریب ایک بستی میں آپ کے بیان کا اعلان ہوا۔ آپ کے داعی ومیزبان کے رشتہ دار مولانا حضور احمد  بریلوی مکتب فکر کے عالم دین ہمارے گائوں میں خطیب تھے۔ انہوں نے سناکہ ہمارے رشتہ دار نے ایک دیوبندی عالم بلایا ہے تو بل کھاکر رہ گئے۔ اس زمانہ میں دیوبندی اور بریلوی مسئلہ عروج پر تھا۔ مولانا حضور احمد نے ٹھان لی کہ اس گائوں میں جاکر حضرت مولانا دوست محمد مدؒنی کی تقریر میں اعتراض کرکے ان کو زچ کرنا ہے۔ مولانا حضور احمد دوچار خدام کے ساتھ چل پڑے۔ فقیر بھی تماش بین کے طور پر اس گروہ میں شامل تھا۔ چھ سات میل پیدل سفر کرکے وہاں پہنچے۔ درختوں کے جھنڈ کے گھنے سایہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter