Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

60 - 196
گیارہ بجے جنازہ ہوا۔ مخدوم العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی نے جنازہ پڑھایا۔ شورکوٹ کی تاریخ کا تاریخ ساز جنازہ تھا۔ جامعہ کے متصل عام قبرستان میں آسودہ خاک ہوگئے۔اناﷲوانا الیہ راجعون!
	حضرت مولانا بشیر احمدصاحبؒ کی عمرساٹھ سال کے لگ بھگ تھی۔ ۶۶/۱۹۶۵ء میں دارالعلوم کبیروالا سے دورہ حدیث شریف کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دارالمبلغین میں ۱۹۶۶ء میں ردقادیانیت پر فاتح قادیان حضرت مولانا محمدحیات صاحبؒ سے کورس پڑھا۔ اس کلاس میں فقیر کو بھی حضرت مولانا بشیر احمد صاحبؒ کے ہم درس ہونے کا شرف حاصل ہوا:
ماومجنوں در مکتب عشق ہم سبق بودہ ام 
	حضرت مولانا بشیر احمدصاحبؒ ۱۹۶۷ء کے اواخر میں دارالعلوم کبیروالا میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ دارالعلوم کبیروالا کی طرف سے مسجد اوکانوالی شورکوٹ سٹی جمعہ پڑھانے کے لئے گئے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ۱۹۶۹ء میں لاری اڈہ شورکوٹ سٹی میں جامعہ عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ وسیع وعریض قطعہ اراضی پر دیکھتے دیکھتے عمارتوں کا خوبصورت قلعہ کھڑادیا۔ جو حضرت مولانا مرحوم کے اخلاص اور محنت کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔ جامعہ عثمانیہ کی جامع مسجد وسیع وعریض اب تکمیل کے مراحل میں ہے۔ مدرسہ کی غربت کے باعث اینٹ گارا سے ابتدائی عمارت کی۔ سیم زدہ علاقہ ہے۔ پچیس سال کے عرصہ میں وہ سیم زدہ ہوگئی تو ان کو گراکر مرحلہ وار کنکریٹ کی عمارتوں کا دومنزلہ منصوبہ بنایا۔ خوبصورت درس گاہیں‘ شاندار رہائشی کمرے۔ اساتذہ کی رہائش گاہیں‘ جامعہ ام کلثومؓ للبنات کی شاندار دیدہ زیب تعمیر سے فارغ ہوئے۔ دارالحدیث تعمیر کیا۔ مسجد کے سامنے دوطرفہ قابل رشک عمارتوں کا کام مکمل ہوگیا۔ ایک طرف کی پرانی عمارت گراکر نئی عمارت کے منصوبہ پر کام ہورہا ہے۔ نورانی قاعدہ سے دورہ حدیث شریف تک بنین وبنات کی دونوں جامعات میں تعلیم اور بہت بہتر تعلیم کا سلسلہ شروع ہے۔ ان اداروں کی تعمیر وترقی کے لئے انہوں نے دن رات کا اپنا آرام تج کیا۔ خوب محنتی انسان تھے۔ سعودی عرب وبرطانیہ تک کے اسفار کئے۔ دھن کے پکے تھے۔ حق تعالیٰ نے فتوحات کے ان کے لئے دروازے کھول رکھے تھے اور ہر اعتبار سے اپنے دونوں اداروں کو بام عروج تک پہنچادیا۔ 
	عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تربیت یافتہ تھے۔ اس کے لئے دل وجان سے قدر دان تھے۔ ہمیشہ اس تعلق کو قائم رکھا۔ ملتان‘ چناب نگر اور برمنگھم کی ختم نبوت کانفرنسوں میں شرکت ان کے معمولات کا حصہ تھی۔ فقیر راقم پر بہت مہربان تھے۔ جب جانا ہوتا ذاتی مہمان بناتے۔ گھر لے جاکر عزت افزائی فرماتے۔ گردونواح کے حلقہ میں قادیانیت کے احتساب کے لئے کمربستہ رہتے۔ الیکشن میں متعددبار حصہ لیا اور اپنی سیاسی حیثیت منوائی۔ عظمت صحابہ کرامؓ کے حوالے سے ان کی خدمات تاریخ کا سنہری حصہ ہیں۔ اس کے لئے متعدد بار انہوں نے قیدوبند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ ایک بار کسی جلوس میں شرکاء نے اے سی کے خلاف نعرہ بازی کی۔ وہ جامعہ عثمانیہ میں تلاش پناہ کے لئے آیا۔ حضرت مولانامرحوم نے ایک کمرہ میں اسے پناہ دی۔ حکومت کی فورس آئی اور انہیں باعزت لے گئی۔ لیکن برا ہو بیوروکریسی کا۔ اس نے اس نیکی کو بدی میں بدل دیا اور حضرت مولانا مرحوم پر اے سی کے اغوا کا پرچہ درج کردیا۔ گرفتار ہوئے۔ تب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی ناظم اعلیٰ حضرت مولانا محمدشریف جالندھریؒ تھے۔ حضرت مولانا ظفراحمدقاسم جامعہ خالدبن ولید وہاڑی کے بانی جو حضرت مولانا بشیر احمدؒ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ ان دونوں حضرات نے رات دن ایک کرکے حکومت کو مطمئن کیا۔ تب جاکر رہائی عمل میں آئی۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter