Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

5 - 196
کے مالک تھے۔ سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی دعوت پر آپ ضرور تشریف لاتے۔ ان کے خطاب کو بڑے احترام سے سنا جاتا۔ گھن گرج‘ جوش وخروش‘ ترنم وشاعری سے ان کا خطاب خالی ہوتا تھا۔ سادہ بے تکلف گفتگو کرتے تھے اور دل موہ لیتے تھے۔
	حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کے رسالہ المنبر کے احتساب نے چناب نگر کے قادیانیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ المنبر کا ہر شمارہ قادیانیوں کے پائوں کے نیچے زمین کو لوہے کے توے سے زیادہ گرم کردیتا تھا۔ قادیانی تگنی کا ناچ ناچنے لگ جاتے اور اول فول پر اترآتے تھے۔ لیکن حکیم صاحبؒ نے کبھی ان کے اول فول کی پرواہ نہ کی۔ اپنا فرض ادا کئے گئے۔ دیانتداری کی بات ہے کہ حضرت مولانا محمدحسین بٹالویؒ اور حضرت مولاناثناء اﷲ امرتسریؒ کے بعد قلمی طور پر اہل حدیث مکتب فکر سے حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کی خدمات تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں۔ حکیم صاحبؒ تمام مکاتب فکر کے رہنمائوں کے قدردان تھے۔ خود فقیر راقم الحروف چشم دید گواہ ہے کہ حضرت حکیم صاحبؒ نے جس طرح حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوریؒ‘ حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ‘ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ‘ حضرت مولانا مفتی محمدشفیعؒ‘ حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی ؒ‘ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا دل وجان سے احترام کیا اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔
	حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ ایک صاف دل ودماغ‘ اجلی سیرت اور بلند کردار انسان تھے۔ دھان پان جسم تھا۔ لکھنوی مزاج تھا۔ گفتگو میں احتیاط۔ ہربول تول کر بولتے اور ہر قدم پھونک کر رکھتے اور سوچ کر اٹھاتے تھے۔ ان کی مربوط گفتگو دل لبھانے والی ہوتی تھی۔ شہد سے میٹھی رسیلی گفتگو کرتے تھے۔ تکلف سے کوسوں دور ہونے کے باوجود اجلا لباس آپ کی وضع داری کی علامت یا شخصیت کی پہچان تھا۔ قراقلی ٹوپی‘ سفید لمبی داڑھی‘ نورانی چہرہ‘ سفید لباس‘ چلتے تھے تو علم کا وقار قائم ہوجاتا تھا۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائیں۔ کیا خوبیوں کے مالک تھے۔
	 مجالس میں اختلاف رائے کے جلال کو بھی فقیر نے دیکھا۔ لیکن اس میں اپنے موقف کی حقانیت ضرور ہوتی تھی۔ کس مسلمان کی دلآزاری نہ ہوتی تھی۔ آج مخاصمت ومجادلہ کے دور میں ان لوگوں کو تلاش کرنا مشکل اور بہت مشکل ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی آخرت کی مشکلات آسان فرمائے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں آسانیاں اور راحتیں دی تھیں۔ انہوں نے محنت کرکے رزق حلال کمایا اور مخلوق خدا اور امت مصطفی کی خدمت کی۔ وہ دین کے سپاہی اور ملک کے پہرہ دار تھے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرائض سے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اﷲ تعالیٰ آپ کی مساعی کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمائیں۔ آمین! 	        (لولاک شوال المکرم۱۴۲۵ھ)
۴۳…صوفی عنایت علی دنیاپوریؒ
وفات…دسمبر۲۰۰۰ء
	عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت دنیا پورضلع لودھراں کے امیر اور معروف سماجی شخصیت محترم صوفی عنایت علی صاحب دسمبر۲۰۰۰ء مطابق رمضان المبارک۱۴۲۱ھ اﷲ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون!
	محترم صوفی عنایت علی صاحب ہوشیارپور کی راجپورت برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد دنیا پور چک نمبر۶ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ موصوف نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ پھر فیصل آباد چلے گئے۔ وہاں ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter