Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

4 - 196
جامعہ تعلیمات اسلامیہ سرگودھا روڈ فیصل آباد میں بلاکر ان کے خیالات سے اسلامیان فیصل آباد کو بہرہ ورکیا۔ آپ ایک سچے درد مند عالم دین تھے۔ آپ نے قادیانیوں کے خلاف صدائے حق بلند کی۔ لیکن اس میں بھی شائستگی اور دعوت وانذار کے پہلو کو نمایاں رکھا۔ آپ نے ’’قادیانیوں سے پہلا خطاب‘‘ کے نام پر ایک پمفلٹ بھی شائع کیا۔ جو ان کی تقاریر کے نکات پر مشتمل تھا۔
	حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ نے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ تحریک کے یوم اول سے یوم فتح تک مسلسل تین ماہ انہوں نے اپنے اوپر خواب وخور حرام کرکے اس کے لئے کام کیا۔ آپ کی خدمات وشخصیت کے پیش نظر آپ کو آل پارٹیزمرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا رکن رکین بنایا گیا۔ آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوریؒ آپ کی رائے کو بڑے احترام سے سنتے اور اسے دل میں جگہ دیتے تھے۔ مولانابہت زرخیز دماغ کے آدمی تھے۔ مشکل اور آڑے وقت میں حالات کا تجزیہ کرکے ایسی تجاویز لاتے جو حاصل مجلس ہوا کرتی تھیں۔آپ تجاویز کے بادشاہ تھے۔ جس موضوع پر گفتگو کرتے اس کی ایک ایک جزئی تک کی تفصیل سے پردہ اٹھاتے۔ مثلاً اس بات کی تین قسمیں ہیں۔ تیسری قسم چارصورتوں سے خالی نہیں۔ چوتھی صورت کی پانچ وجہیں ہوسکتی ہیں۔ پانچویں وجہ کو آپ گیارہ حصوں پر تقسیم کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی مسئلہ کی تقسیم در تقسیم سے جو آپ نتیجہ نکالتے گویا صورت حال کا عرق کشید دیتے تھے۔ بایں ہمہ گفتگو اتنی مربوط ہوتی تھی کہ اس سے کوئی اکتاہٹ نہ ہوتی تھی۔ ہر بات کو وہ اس طرح چھلنی میں چھان دیتے تھے یا اس کا ایسا الٹراساونڈ کردیتے تھے کہ اس سے بہتر تشخیص وتجویز نہ ہوسکتی تھی۔
	حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ  صحیح معنی میں مزاج شناس اور حکیم تھے۔ ان کی باتیں حکمتوں کے موتی اور ان کے مشورے جواہر پارے ہوتے تھے۔ حضرت مولانا نے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں جس قائدانہ شان سے ملک وقوم‘ عوام وحکمرانوں کی رہنمائی کی وہ آپ کی بالغ نظری کی دلیل ہے۔ آپ نے ملک کے طول وعرض کے دورے کئے۔ عوام میں تحریک کی روح کو پھونکا۔ مرکزی ومقامی ختم نبوت کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ان تمام ترکوششوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی خدمت کی اﷲ رب العزت نے آپ کو توفیق بخشی جو آپ ہی کا حصہ ہے۔حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ نے قادیانی عقائد ونظریات کے اصل کتابوں سے حوالجات کی فائل (محضرنامہ) تیار کیا۔ قادیانی کتب کے فوٹو لے کر قومی اسمبلی کے تمام اراکین تک پہنچائے۔ گویا پوری امت کی طرف سے اس نوعیت کا فریضہ سرانجام دیا کہ تمام ممبران قومی اسمبلی تک قادیانی کتب کے مندرجات کو دیکھنے کی رسائی ہوگئی۔ یہ کام آپ کا بڑا دقیع بھی تھا اور منفرد بھی۔
	 جناب ذوالفقارعلی بھٹو صاحبؒ کے بعد جناب جنرل ضیاء الحق صاحبؒ تشریف لائے۔ آپ نے موقعہ کو غنیمت سمجھا۔ ان تک رسائی حاصل کی اور اپنی اجلی سیرت وبلندی کردار‘ کے باعث جنرل صاحب کے دل میں اتر گئے اور پھر قومی مسائل میں ان کی جس طرح آپ نے دینی رہنمائی کی وہ آپ کا ہی حصہ ہے۔ ۱۹۸۴ء میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے نفاذ کے لئے جنرل محمدضیاء الحق صاحبؒ کو قائل کرنے میں آپ نے بڑا موثر کردار اداکیا۔ اس پر ان کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کا قلب آئینہ کی طرح شفاف تھا۔ جس صاف گوئی سے وہ کام لیتے وہ آپ کا ہی حصہ تھا۔ جس سے ناراض ہوں فوراً چہرہ بتادیتا تھا کہ اس سے قلب میں تکدر ہے۔ جس پر راضی ہوں اس پر مہربانی کی برسات برسادیتے تھے۔
	 حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ بڑے مردم شناس تھے۔ ان میں تکبر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ البتہ وضع دار ضرور تھے۔ پوری زندگی وضع داری میں گزاردی۔ مرحوم بہت ہی خوبیوں 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter