Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

49 - 196
کام میں مشغول رہتے۔ شام کو دینی کتب کی تعلیم حاصل کرتے۔ قیام پاکستان کے کچھ سال بعد حالات ساز گار ہونے پر جامعہ خیرالمدارس ملتان میں داخلہ لیا۔ جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوریؒ کے دارالعلوم ٹنڈوالہ یارچلے جانے کے باعث پوری جماعت کے ساتھیوں سمیت ٹنڈوالہ یار چلے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ٹنڈوالہ یار کو دارالعلوم دیوبند ثانی کہا جاتا تھا۔ وہاں حضرت مولانا بدرعالم میرٹھیؒ‘ حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ ایسے نابغہ روزگار حضرات سے آپ نے دورہ حدیث شریف کی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ خیرالمدارس کے موجودہ صدرو مفتی پیرطریقت حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحب آ پ کے ساتھیوں میں تھے۔ یہ ۱۹۵۱ء کی بات ہے۔ اسی سال دورہ حدیث شریف سے فارغ ہوتے ہی ملتان میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دارالمبلغین میں استاذ محترم فاتح قادیان حضرت مولانا محمدحیاتؒ سے آپ نے ردقادیانیت کا کورس کیا۔ قیام ملتان کے دوران آپ حضرت امیر شریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ‘ حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ‘ حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ کی صحبتوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ چنانچہ حضرت مولانا سیدبدرعالم میرٹھیؒ‘ حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوریؒ اور فاتح قادیان حضرت مولانا محمدحیاتؒ ان تینوں اساتذہ پر آپ کی زندگی بھر دل وجان سے فدا رہے۔ویسے تو تمام اساتذہ سے آپ کا ادب واحترام کا رشتہ تھا۔ لیکن ان تین متذکرہ حضرات کے آپ شیدائی تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمدحیاتؒ فاتح قادیان بھی اپنے دیگر نامورشاگرد حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ‘ حضرت مولانا محمدلقمان علی پوریؒ‘ حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کی طرح حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی  ؒکے بہت قدردان تھے۔ ۱۹۵۲ء میں آپ نے مدرسہ دارالہدیٰ چوکیرہ میں تدریس شروع کی۔ فراغت کو دوسال اور تدریس کو ایک سال بھی مکمل نہ گزرا تھا کہ مشہور زمانہ تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء چلی۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے شعبہ نشرواشاعت نے ’’تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ئ‘‘ کے نام سے سوانو سو صفحے کی کتاب شائع کی۔ اس کتاب کی ترتیب کے وقت حضرت مولانامنظوراحمد چنیوٹی  ؒسے ایک انٹرویو لیا تھاجو پیش خدمت ہے:
	حضرت مولانامنظوراحمد چنیوٹی  ؒفرماتے ہیں کہ: ’’میں تازہ دورہ حدیث سے فارغ ہوا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دارالمبلغین میں فاتح قادیان حضرت مولانا محمدحیاتؒ سے ردقادیانیت کا کورس کیا اور سرگودھا کے علاقہ چوکیرہ کے مدرسہ میں ابتدائی مدرس لگ گیا۔ تحریک چل نکلی تو رفقاء کو لے کر سرگودھا آیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھویؒ اور دوسرے حضرات گرفتار ہوچکے تھے۔ سرگودھا کے دیہات میں لوگوں کو تیار کرنے کا پروگرام میرے ذمہ لگا۔ دورہ کرکے واپس چنیوٹ آیا۔ جامعہ محمدی سے مولانا محمدذاکر کے شاگردوں کی جماعت کے ساتھ چنیوٹ ریلوے اسٹیشن سے جلوس کے ہمراہ گرفتار ہوا۔ ان دنوں چنیوٹ میں سوائے معددوے چند کے مجھے کوئی نہ جانتا تھا۔ مجھے بھی جامعہ محمدی کا ایک مولوی سمجھا گیا۔ جیل میں چندماہ گرفتار رہ کر رفقاء سمیت رہائی ہوئی۔‘‘			    (تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء ص۸۷۵)
	تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء سے رہائی کے بعد چوکیرہ میں حسب سابق کچھ عرصہ پڑھایا۔ ۱۹۵۴ء میں چنیوٹ جامعہ عربیہ میں تشریف لائے۔ ردقادیانیت کے خلاف کام کرنے کی فاتح قادیان حضرت مولانا محمدحیاتؒ نے جو جوت جگائی تھی اس نے کام دیکھایا۔ اس زمانہ میں چنیوٹ دریائے چناب کے اس پار چناب نگر (سابقہ ربوہ) میں مرزا محمود کا کفر عروج پر تھا۔ جامعہ عربیہ چنیوٹ کے طلباء چناب نگر جامعہ احمدیہ کے طلباء سے گفتگو کے لئے جاتے۔ واپسی پر مولاناچنیوٹی  ؒکو رپورٹ سناتے۔ آپ انہیں قادیانیوں کو چاروں شانے چت کرنے کے مزید گر سکھلاکر اگلے دن بھیج دیتے۔ اس زمانہ میں اس چھیڑخانی سے ردقادیانیت میں آپ کو مناظرانہ رسوخ حاصل ہوا۔ اس دور میں قرب وجوار کے علاقہ میں جمعرات وجمعہ کو آپ کے بیانات کا سلسلہ چل نکلا۔ ابتداء میں 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter