Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

47 - 196
	۱۵مئی۲۰۰۴ء شام چار بجے حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ انتقال فرماگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون!حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ میانوالی کے ایک غریب گھرانہ کے چشم وچراغ تھے۔ قدرت حق نے کرم کیا۔ آپ نے دینی تعلیم حاصل کی۔ دورہ حدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے کیا۔ جہاں حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی  ؒ‘شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ‘ محدث کبیر حضرت مولانا محمدبدرعالم میرٹھیؒ ایسے اکابر اساتذہ کی صحبتوں نے آپ کو موتی بنادیا۔ میانوالی ضلع میں خانقاہ سراجیہ کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ کسی اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔ تب آپ نے وہاں ڈیرے لگائے۔ ان دنوں خانقاہ سراجیہ کے شیخ ثانی حضرت مولانا محمد عبداﷲ لدھیانویؒ نے خانقاہ کے درودیوار کو معرفت الٰہی کے خزانوں کا دفینہ بنایا ہوا تھا۔ حضرت ثانی  ؒکے ایک مخلص مرید صوفی مستری محمد عبداﷲ صاحب کی صاحبزادی سے حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کا عقد ہوا۔
	 ۱۹۵۱ء میں حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ فیصل آباد تشریف لائے۔ ان دنوں فیصل آباد کے دینی ماحول کے درخشندہ ستارہ حضرت مولانا مفتی محمد یونسؒ تھے۔ جو حضرت علامہ سید محمد انورشاہ کشمیریؒ کے شاگرد تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمد یونسؒ جامع مسجد کچہری بازار کے خطیب اور عبداﷲ پور میں میاں فیملی کے قائم کردہ مدرسہ کے منتظم اور صدر مدرس تھے۔ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ نے وہاں پڑھانا شروع کیا۔ ڈابھیل کا جامعہ بھی حضرت مولانا سید انورشاہ کشمیریؒ کا فیض تھا اور عبداﷲ پور فیصل آباد کا مدرسہ بھی حضرت مولانا مفتی محمد یونسؒ کی وجہ سے ان کا علمی چشمہ فیض تھا۔ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی شخصیت نے ان دونوں چشموں سے کسب فیض کیا۔ ان کی شخصیت ایسی نکھری کہ حضرت مولانا مفتی محمد یونسؒ کے وصال کے بعد جامع مسجد کچہری بازار کے آپ خطیب مقرر ہوگئے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں دلآویز شخصیت اور ذاتی کردار کے باعث فیصل آباد کے دینی حلقہ کے آپ میر کارواں ہوگئے۔
	فیصل آباد میں دیوبندی مکتب فکرکے رہنما اس زمانہ میں حضرت مولانا تاج محمودؒ‘ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ‘ حضرت مولانا حکیم عبدالمجید نابینا بی اے۔ اہل حدیث مکتب فکرکے حضرت مولانا محمد صدیق  ؒ‘ حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف‘ حضرت مولانا محمد اسحق چیمہؒ ‘بریلوی مکتب فکرکے حضرت مولانا صاحبزادہ افتخارالحسنؒ ‘حضرت مولانا صاحبزادہ فضل رسول‘ حضرت مولانا مفتی محمد امین‘شیعہ حضرات کے رہنما مولانا محمد اسماعیل تھے۔ اس زمانہ میں ان حضرات کا طوطی بولتا تھا۔ حضرت مولانا مفتی سیاح الدینؒ کاکاخیل جامعہ اشاعت العلوم کے صدر مدرس تھے۔ (ان دنوں حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کا زمانہ طالب علمی تھا) تمام متذکرہ شخصیات اپنے اپنے مکاتب فکر کی نمائندہ تھیں۔ تب مجلس احراراسلام کے روح رواں فیصل آباد میں حضرت مولانا عبیداﷲ احرارؒ تھے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے بانی رہنما حضرت مولانا تاج محمودؒ‘ حضرت مولانا حکیم عبدالمجید نابینا ختم نبوت کے محاذ پر نیر تاباں تھے۔ کیا وہ سنہری دور تھا کہ ہر طرف ہر مکتبہ فکر کی علمی شخصیات کا باہمی ارتباط قابل رشک تھا۔ تمام دینی وقومی تحریکوں میں ان حضرات کا وجود مینارہ نور کی حیثیت رکھتا تھا۔
	 فیصل آباد قیام کے زمانہ میں تدریس کے علاوہ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی تحریکی زندگی کا آغاز مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے ہوا۔ حضرت مولانا عبیداﷲ احراؒر‘ حضرت مولانا تاج محموؒد‘ حضرت مولانا عبدالمجید ؒنابینا‘ شیخ خیرمحمدؒ‘ میاں محمد عالم بٹالویؒ اور دیگر بہت سارے حضرات سب ایک ہی سٹیج اور پلیٹ فارم سے حفاظت دین وصیانت اسلام کے لئے کوشاں تھے۔ اس دور اور ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے زمانہ کے لائل پور کو تو راقم نے نہیںدیکھا۔ البتہ تحریک ختم نبوت۱۹۷۴ء کے زمانہ میں راقم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت لائل پور (فیصل آباد) کا مبلغ تھا۔ اس تحریک کا آغاز فیصل آباد سے ہوا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ہی اس تحریک میں داعی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter