Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

45 - 196
دو سال تک کانگریس کے اپنے علاقہ میں سیکرٹری جنرل رہے۔ اس کے بعد مجلس احرار میں شمولیت اختیار کی۔ ۱۹۴۶ء میں مجلس احرار کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔ تقسیم کے وقت امن کمیٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ تقسیم کے بعد گوجرانوالہ میں قیام کیا اور مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے خدمات سرانجام دیں۔
	 ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے مثالی خدمات سرانجام دیں۔ ۲۷فروری سے ۱۲مارچ ۱۹۵۳ء تک گوجرانوالہ میں تحریک کی قیادت کی۔ ۱۲مارچ ۱۹۵۳ء کو رات آٹھ بجے گرفتار کرلئے گئے۔ دو ماہ تک شاہی قلعہ لاہور میں نظربند اور زیر تفتیش رہے۔ اس کے بعد سنٹرل جیل لاہور میں امیر شریعت حضرت مولاناسید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ‘ جناب ماسٹر تاج الدین انصاریؒ‘ حضرت مولانا لال حسین اختر  ؒ‘حضرت مولانا عبدالستارخان نیازیؒ‘ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ‘ حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ جیل کاٹی۔
	حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن آزادؒ اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اتحاد بین المسلمین کے لئے عمربھر کوشاں رہے۔ ۱۹۷۴ء سے امن کمیٹی گوجرانوالہ کے صدر تھے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں گوجرانوالہ میں آپ نے مثالی خدمات سرانجام دیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے تازیست امیر رہے۔ تیس سال تک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ممبر رہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم سیاسیات بھی رہے۔ ہفت روزہ اہل حدیث اور ہفت روزہ الاسلام لاہور کے اعزازی ایڈیٹر بھی رہے۔ طبی حلقوں میں آپ کی خدمات بہت اہم تھیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم‘ جناب رفیق تارڑ سے ان کے مراسم تھے۔ حکماء کمیٹی ضلع گوجرانوالہ کے صدر بھی رہے۔ خوب مرنجان مرنج انسان تھے۔ ان کی زندگی جہدمسلسل سے عبارت تھی۔ عمر بھر اسلام کی سربلندی‘ استحکام پاکستان‘ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کوشاں رہے۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بانی رہنمائوں سے آپ کے گہرے برادرانہ تعلقات تھے۔ پون صدی پر مشتمل آپ کی شاندار ملی خدمات تاریخ کا درخشندہ باب ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مساعی کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔
	 حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن آزادؒ ہر دل عزیز رہنما تھے۔ تمام مکاتب فکر میں آپ کا دل وجان سے احترام کیا جاتا تھا۔ مجلس احرار اسلام کی ایک تحریک میں آپ کو ڈکٹیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ نے اس اعزاز کو اپنے نام کا جزو بنالیا اور وہ دینی حلقوں میں ’’مولانا حکیم عبدالرحمن آزاد ڈکٹیٹرؒ‘‘ کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ حق تعالیٰ نے انہیں خوبیوں کا مرقع بنایا تھا۔ جس بات کو حق سمجھا پوری عمر اس کی تبلیغ میں گزار دی۔ ردقادیانیت پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ اچھے سلجھے اور منجھے ہوئے مقرر تھے۔ آپ کے خطاب کو دینی حلقوں میں بڑی توجہ اور رقعت سے سنا جاتا تھا۔ گوجرانوالہ کی سطح پر تمام مکاتب فکر کے رہنمائوں سے ان کے محبت بھرے تعلقات تھے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے آپ کا بیعت وارادت کا تعلق رہا۔
	 مسلکی اختلاف کو وہ اعتدال کے ترازو سے ادھر ادھر نہ ہونے دیتے تھے۔ ان کا مشہور زمانہ ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ ایک حنفی نے اپنی اہلیہ کو تین طلاقیں دے دیں۔ یار لوگوں نے راستہ دکھایا کہ اہل حدیث ہوجائو تو ایک طلاق شمار ہوگی۔ وہ حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن آزادؒ کے پاس گئے اور اپنے اہل حدیث ہونے کا مژدہ سنایا اور کہا کہ میں نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں۔ اس کے ایک ہونے کا فتویٰ دے دیجئے۔آپ نے فرمایا کہ تم نے حنفی ہونے کے زمانہ میں تین طلاقیں دی ہیں۔ وہ تو تین ہی شمار ہوں گی اور بیوی تم پر حرام ہے۔ اب اہل حدیث بننے کے بعد جو اہل حدیث بیوی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter