Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

42 - 196
تاریخی دستاویز ہے۔ حضرت قاضی مظہر حسینؒ نے اس دینی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ گورنمنٹ ہائی سکول چکوال سے میٹرک پاس کیا۔ دارالعلوم عزیزیہ بھیرہ میں دینی تعلیم حاصل کی۔ ۳۶/۱۳۳۷ھ میں دورہ حدیث اور تکمیل کے لئے دارالعلوم دیوبند میں رہے۔شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  ؒکے ممتاز تلامذہ میں سے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں قیام کے دوران حضرت مولانا شمس الحق افغانی  ؒ‘مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ  ‘شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی  ؒ‘حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ  ‘شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی  ؒ ایسے اکابر سے آپ نے کسب فیض کیا۔
	حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے ملاقات اور ان کی خدمت میں حاضری اور کسب فیض کا شرف حاصل کیا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی  ؒسے بیعت ہوئے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ واپس آکر دینی خدمات‘ مقدمات‘ گرفتاری کے مراحل سے انگریز دور حکومت میں گزرتے رہے اور بڑی استقامت وعزیمت اور بڑی بہادری سے وقت گزارا۔ مدنی مسجد چکوال اور اس کے ساتھ مدرسہ کی بنیاد رکھی اور مستقل بنیادوں پر یہاں کام شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے علاقہ میں مسجد ومدرسہ نے ایک مثالی ادارہ کی حیثیت اختیار کرلی۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ضلع جہلم میں (تب چکوال ضلع جہلم کی تحصیل تھی) تحریک کے لئے شب وروز ایک کردئیے۔ گرفتار ہوئے۔ اس کی تفصیل مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر ملتان کی طرف سے شائع کردہ کتاب ’’تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ء ص۴۸۲‘۴۸۳‘‘ میں آپ کی اپنی تحریر کردہ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:
	’’۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ہمارا مرکز جہلم تھا۔ ان دنوں میں اپنے گائوں بھیں میں رہتا تھا۔ ۶مارچ ۱۹۵۳ء بروز جمعہ جامع مسجد گنبدوالی جہلم میں حضرت مولانا عبداللطیف صاحبؒ نے ختم نبوت کے موضوع پر ولولہ انگیز تقریر کی اور احتجاجی جلوس کی صورت میں گرفتاری پیش کی۔
	اس کے بعد میرا (قاضی صاحبؒ) پروگرام تھا۔ میں نے بھی ۱۳مارچ کے جمعہ پر جامع مسجد مذکورہ میں تقریر کی اور جلوس نکالا اور گرفتاری پیش کی۔اس کے بعد حضرت مولانا حکیم سید علی شاہ مرحوم ساکن ڈومیلی نے گرفتاری دینی تھی۔ لیکن ان کو جمعہ سے قبل ہی گرفتار کرکے ڈسٹرکٹ جیل جہلم بھیج دیا گیا۔۱۱مارچ کو چکوال سے حافظ حضرت مولانا غلام حبیبؒ  کو گرفتار کرکے ڈسٹرکٹ جیل جہلم بھیج دیا گیا تھا۔جہلم میں دو دن رکھنے کے بعد حضرت مولانا عبداللطیف‘ حضرت مولانا سید علی شاہ‘ حضرت مولانا صادق حسین مرحوم اور راقم الحروف (قاضی صاحبؒ) کو لاہور سنٹرل جیل لایا گیا۔ ہمارے ساتھ اپنے جماعتی رفقاء چکوال کے کارکن بھی تھے۔ جن میں میاں کرم الٰہی مجاہد خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔لاہور سے پھر ہمیں سنٹرل جیل ساہیوال (منٹگمری) منتقل کردیا گیا۔ منٹگمری میں جہلم‘ کیمل پور‘ سرگودھا اور منٹگمری کے نظر بند رکھے گئے تھے۔ ہمارے کمرے کے ساتھ علیحدہ کوٹھڑی میں حضرت مولانا نصیر الدین صاحب شیخ الحدیث غور غشتی بھی تھے جو بہت بڑے مفتی اور برزگ راہنما تھے۔ انہوں نے بڑی جرات وبہادری کے ساتھ تحریک کی قیادت کی تھی اور گرفتار ہوئے تھے۔ سرگودھا کے نظربندوں میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھا بھی تھے۔
	حضرت مولانا غلام حبیب صاحبؒ کو ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں رکھا گیا اور وہ ۹جون ۱۹۵۳ء کو رہا کردئیے گئے۔ منٹگمری جیل سے حضرت مولانا عبداللطیف جہلمی کے ساتھ اور بھی چند رضا کار نظربند تھے۔ جب رہائیاں شروع ہوئیں تو حضرات رہا ہوتے رہے۔ راقم الحروف (حضرت قاضی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter