Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

3 - 196
حسین اخترؒ اور حضرت مولانا محمدحیاتؒ راقم الحروف کے استاذ اور دو‘ حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ اور ابوعبیدہ حضرت مولانا نظام الدینؒ غائبانہ محبتوں کا محور ومرکز ہیں۔وماذالک علی اﷲ بعزیز!		          (لولاک ذی الحجہ۱۴۲۶ھ)
۲۰…حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحبؒ
وفات…۲۸جولائی۱۹۹۵ء
	حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ ایڈیٹر ہفت روزہ المنبر فیصل آباد ایک عبقری انسان تھے۔ قدرت نے ان کے پہلو میں حساس دل رکھا تھا۔ امت مسلمہ کی پریشانی پر وہ پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ اس کے حل کے لئے وہ اس وقت تک بے چین رہتے جب تک وہ اسے حل نہ کرالیتے۔ یا یہ کہ جو کچھ وہ کرسکتے تھے ۔ نہ کرگزرتے۔ فقیر راقم الحروف کا ۱۹۶۷ء میں لائل پور مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے طورپر تقرر ہوا۔ اس زمانہ میں حضرت مولانا تاج محمودؒ‘ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ‘ حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ‘ حضرت مولانا محمدصدیقؒ‘ حضرت مولانا صاحبزادہ افتخار الحسنؒ‘ حضرت مولانا محمدضیاء القاسمیؒ کا طوطی بولتا تھا۔ حضرت مولانا تاج محمودؒ تحریکی اور حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ علمی میدان میں فتنہ قادیانیت کے خلاف سرگرم تھے۔ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ نے تبلیغ کا محاذ سنبھال رکھا تھا۔ حضرت مولانا محمدصدیقؒ تدریس ‘ مناظرہ اور انتخابی سیاست کے شناور تھے۔ حضرت مولانا صاحبزادہ افتخار الحسنؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ دونوں آسمان خطابت کے درخشندہ ستارے تھے۔
	 ان حضرات کا باہمی ربط‘ میل وجول قابل رشک تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دیوبندی‘ بریلوی جنگ کا سیز فائر ہوچکا تھا۔ لیکن ابھی تک تلخی کی گرد نہ بیٹھی تھی۔ اس زمانہ میں حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ اتحاد بین المسلمین کے لئے مقامی اور قومی سطح پر کوشاں تھے۔ حضرت مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن دل ودماغ کے اعتبار سے بہت ہی وسیع المشرب تھے۔ زندگی بھر وہ جامع مسجد جناح کالونی میں دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھتے رہے۔ حضرت مولانا کی یہ خوبی تھی کہ وہ وقت کے بہت پابند تھے۔ صبح سے شام تک ان کا تمام وقت کمپیوٹرائز ہوتا تھا۔ نماز میں تکبیر تحریمہ اور صف اول کی پابندی کے خوگر تھے۔ گرمی‘ سردی‘ معمولی بیماری‘ بارش اور آندھی ان کے نزدیک کوئی عذرات نہ تھے۔ وہ مسجد میں قدم رکھتے۔ جماعت کھڑی ہوجاتی۔ گویا ان کا ایک ایک قدم بھی ضابطہ کا پابند تھا۔
	حضرت مولانانے اپنی زیرادارت ہفت روزہ المنبر کا اجراء کیا۔ تمام تر اشاعتی مشکلات کے باوجود اس کی اشاعت میں تسلسل کو قائم رکھا۔ ان کے رسالہ کے زیادہ تر موضوعات‘ حالات حاضرہ پر قوم کی رہنمائی۔ ان پر بے لاگ تبصرہ وتجزیہ۔ تعلیمی میدان میں امت کی رہنمائی۔ اتحادبین المسلمین‘ مسئلہ ختم نبوت اور منکرین ختم نبوت کا علمی وواقعاتی تعاقب واحتساب تھے۔ یہ اس رسالہ کا طرہ امتیاز تھا۔ حضرت مولاناموصوف دیوبندی‘ بریلوی‘اہل حدیث‘ حنفی نزاعات پر باالکل نہ لکھتے تھے۔ ہاں کبھی ماحول کی تلخی دیکھ کر فریقین سے اصلاح احوال کے لئے ضرور خامہ فرسائی کرتے تھے۔
	اسلامیان فیصل آباد پر مولانا کا یہ عظیم احسان ہے کہ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ‘ حضرت مولانا محمدمنظورنعمانی  ؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ کو آپ نے فیصل آباد میں بلایا۔ ان کے علاوہ دیگر ملکی وغیر ملکی تعلیمی مذہبی شخصیات کو انہوں نے اپنے قائم کردہ ادارہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter