Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

31 - 196
	بیرونی ممالک کے سفر:۱۳۸۸ھ میں مولانا عبدالرحیم اشعرؒ نے ڈھاکہ کا ایک ماہ کا سفر کیا۔ ۱۹۷۵ء میں ڈیڑھ دو ماہ کا سفر انڈونیشیا کا ہوا۔ جنوبی افریقہ دوبار تشریف لے گئے۔ حج کے بھی دو سفر ہوئے۔ یوں برصغیر اور افریقی براعظموں تک مولانا کی آواز حق سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندگان کو فائدہ کا سامان کردیا۔ مولانا کی خوش بختی پر نظر کریں کہ پنجاب کے ایک غریب پسماندہ علاقہ کے متو سط غریب گھرانہ سے تعلق رکھنے والے شخص کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے قدرت نے کہاں کہاں تک پہنچایا۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشائ!
	حضرت مولانا مرحوم جس طرح پڑھنے کے دھنی تھے لکھنے کے لئے اتنا وقت نہ مل سکا۔ دراصل وہ ایک تحریکی دور تھا۔ اس وقت تصنیف و تالیف کی ان کو کہاں فرصت تھی۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے شعبہ نشرواشاعت میں جان تو پڑی حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی تشریف آوری پر۔ حضرت لدھیانویؒ اتنے بڑے مؤلف و مصنف تھے کہ ان کے سامنے کسی دوسرے کا چراغ نہ جلتا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ حوالہ جات میں مدد اور مختلف موضوعات پر لکھنے کے لئے مولانا عبدالرحیم اشعرؒ آپ کو توجہ دلاتے رہتے تھے۔ اس کے باوجود ’’مرزا غلام احمد قادیانی کی آسان پہچان‘‘ اور’’ بیرونی ممالک میں قادیانی تبلیغ کی حقیقت‘‘ اور ’’ قادیانیت علامہ اقبال کی نظر میں‘‘ وغیرہ دو تین رسائل مولانا عبدالرحیم اشعرؒ نے بھی تصنیف کئے۔
	حضرت مولانا مرحوم ہنس مکھ، دلنواز دوست اور ایک ا چھے انسان تھے۔ تکبر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ طبیعت سادہ اور بہت ہی سادہ تھی۔ کھانے پینے، لباس و وضع قطع میں کوئی تکلف نہ برتتے تھے۔ آپ کو قدرت نے ایک وجیہہ چہرہ دیا۔ بسطۃً فی العلم والجسم! کا مصداق تھے۔ بڑے حضرات کے ساتھ کام کرنے کے قدرت نے مواقع دیئے تھے۔ چنانچہ ان اکابر کی روایات کے امین ہو گئے تھے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ وہ مجلس پر دل و جان سے فدا تھے۔ جماعتی حلقہ احباب میں مولانا کا بے حد احترام تھا۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے بیعت کا تعلق تھا۔ ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ سے تعلق قائم کیا تھا۔ مولانا اشعرؒ کی خوبی تھی کہ پوری صحت کی زندگی میں یومیہ بلاناغہ قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ حزب الاعظم کی منزل بھی یومیہ پڑھنے کا معمول تھا۔ ایک اچھے انسان کی تمام خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ اکابرین سے محبت عشق کی حد تک کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے آپ کو خوبیوں و محاسن سے ڈھیروں حصہ نصیب کیا تھا۔ مقدر والے انسان تھے۔
	۱۹۵۴ء کراچی جب تشریف لے گئے چھریرے بدن اور گٹھے ہوئے جسم کے جوان تھے۔ کراچی کی مرطوب ہوا نے ان کو موٹاپے کا روگ دیا۔ پنجاب آئے تو ملک بھر کے دوروں پر شب و روز رہے۔ اس سے موٹاپا رک تو گیا۔ لیکن کم نہ ہوا۔ آخری دس سالوں سے شوگر نے اپنے لوازمات سمیت آن گھیرا۔ سوائے آخری چند دنوں کے سوا کسی کے محتاج نہ ہوئے۔
	 ۲۲ مئی ۲۰۰۳ء جمعرات واصل بحق ہوئے۔ شام ساڑھے چھ بجے جامعہ خیرالمدارس کے شیخ الحدیث اور مولانا عبدالرحیم کے ابتدائی دورہ حدیث کے ساتھی حضرت مولانا محمد صدیق صاحب کی اقتداء میں ہزاروں علماء اور عوام کی کثیر تعداد نے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ مغرب کے بعد گویا شب جمعہ کے آغاز میں ان کو رحمت حق کے سپرد کردیا گیا۔ منوں مٹی کے نیچے پون صدی دین کی خدمت کرنے والے مجاہد‘ مناظر‘ عالم دین‘ حق گو‘ محبتیں تقسیم کرنے والی عظیم شخصیت کی سنہری تاریخ کا ایک باب ختم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ فقیر‘ مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کی وفات والے دن سندھ سے واپس بہاول پور آیا تھا۔ بہاول نگر جانا تھا کہ اطلاع ہو گئی۔ جنازہ اور دیدار اور آخری الوداعی ملاقات نصیب ہو گئی۔ حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندہری مدظلہ، 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter