Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

30 - 196
جگہ قادیانیوں سے کامیاب مناظرے ہوئے۔ میانوالی میں مناظر اسلام مولانا لال حسینؒ اختر کے معین مناظر تھے۔ اس دوران میں آپ جامعہ فاروقیہ عارف والا میں مجلس کی طرف سے خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے جو ان کی صحت کے آخری سالوں تک جاری رہا۔ کم و بیش تیس سال آپ نے جامعہ فاروقیہ عارف والا میں بطور خطیب کے مجلس کی طرف سے ذمہ داری سنبھالی۔ 
	حضرت مولانا لال حسینؒ اختر کے بیرونی سفر کے موقعہ پر مجلس کے قائمقام ناظم اعلیٰ بنے۔ مولانا لال حسینؒ اختر کے زمانہ امارت میں مجلس کے ناظم اعلیٰ رہے۔ حضرت شیخ بنوریؒ کے زمانہ میں مجلس کے ناظم تبلیغ رہے۔ غالباً حضرت مفتی احمد الرحمن صاحبؒ کے وصال کے بعد عارضی طورپر کچھ وقت کے لئے نائب امیر رہے۔ غرض قدرت نے آپ کو بہت ہی قبولیت سے نوازا۔ اپنی صحت کے زمانہ میں مجلس کی مرکزی لائبریری کے امین تھے۔ دیانتداری کی بات ہے کہ مجلس کی لائبریری۔ ریکارڈ کے حصول‘ کتب کی جمع و ترتیب آپ کا وہ سنہری کارنامہ ہے جو آپ کا صدقہ جاریہ ہے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنی تمام ذاتی کتب مجلس کی لائبریری کیلئے وقف کردیں۔ کتابوں کو نہ صرف جمع کرنے کا شوق تھا بلکہ کتابوں کے مطالعہ کے بھی دھنی تھے۔ کتاب پڑھتے پڑھتے سوجاتے اور جاگتے ہی کتاب کا مطالعہ شروع کردیتے۔ صحت کے زمانہ میں بلا شبہ سینکڑوں صفحات مطالعہ کامعمول تھا۔ قدرت نے بلا کا حافظہ دیا تھا۔ حوالہ تلاش کرنے میں دیر نہ لگاتے تھے۔ چنانچہ مناظروں، عدالتوںمیں آپ کے یہ جوہر خوب دیکھنے میں آئے۔ استاذالمناظرین حضرت مولانا لال حسینؒ اختر کا حافظہ بھی بلا کا تھا۔ منہ سے حوالہ مانگتے دیر لگتی تھی۔ فوراً مولانالال حسینؒ اختر حوالہ بتادیتے تھے۔ مولانا عبدالرحیم اشعر کا مزاج جداگانہ تھا۔ جب کوئی حوالہ طلب کرتا۔ آپ کے دماغ کا کمپیوٹر کام شروع کردیتا۔ ایک کتاب کو ہاتھ لگاتے‘ چھوڑ دیتے۔ دوسری کی طرف دیکھتے تیسری پر نظر ڈالتے۔ چوتھی کو اٹھاتے ورق الٹتے اور حوالہ نکال کر دے دیتے اور یہ کام ایسے منٹوںمیں پھرتی سے ہوتا گویا جیسے کمپیوٹر فائلیں بدل رہا ہو۔ مولانا کتب شناسی میں بھی ماہر تھے۔ جلد اور کتاب کا حلیہ دیکھ کر بتادیتے کہ یہ فلاں کتاب ہے۔ حافظہ کا یہ عا لم تھا کہ لائبریری کی ہر کتاب کے متعلق معلوم ہوتا کہ فلاں فن‘ فلاں الماری کے فلاں تختہ پر موجود ہے۔ وہاں سے نکال لیں۔ چنانچہ ننانوے فیصد یہ صحیح ہوتا۔کتاب سے آپ کو عشق تھا۔ عمدہ مضبوط جلد بنوانے کا ذوق تھا۔ ایک ورقہ اشتہار‘ چند صفحاتی پمفلٹ مل جاتا اسے بھی کور کرالیتے تھے۔ مولانا اشعرؒ کے اس ذوق نے مجلس کی کئی مواقع پر کئی مشکلات کو حل کیا۔
	آپ نے اپنے گائوں عنایت پورمیں مدرسہ طالب العلوم قائم کیا۔ جامع مسجد بنوائی جو ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ مدرسہ میں اس وقت بھی مقیم و مسافر طلبہ قرآن مجید کے حفظ و ناظرہ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
	تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ئ: میں آپ نے ملک کے طول و عرض کے سفر کئے۔ کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ لیکن زیادہ تر اسلام آباد میں شیخ الاسلام حضرت بنوریؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی زیر سرپرستی۔ اپنے استاذ فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ کی معیت میں قادیانیوں پر جرح کے لئے حوالہ جات مہیا کرنا ’’موقف ملت ا سلامیہ‘‘ کے لئے مواد مہیا کرنے میں مولانا اشعرؒ کا کردار مثالی رہا۔
	قادیانیوں کے خلاف جتنے مقدمات عدالتوںمیں چلے۔ لوئر کورٹ سے ہائیکورٹ تک وفاقی شرعی عدالت۔ جنوبی افریقہ ان تمام میں مولانا نے مجلس کی طرف سے پوری امت کا فرض کفایہ ادا کیا۔ جنوبی افریقہ کے کیس سے واپسی پر آپ کا ایک انٹرویو اخبار جہاں کراچی میں شائع ہوا۔ اس سے آپ کو حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒکی خدمات کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter