Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

29 - 196
علی میں کیا سن رہا ہوں۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کردی۔ اب مولانا صاحب کے تعاقب سے مرزائی تھرا اٹھے اور معاملہ ختم ہو گیا۔
	۸…	۱۹۵۳ء لاہور کے ضمنی مارشل لاء کے زمانہ میں عیسائی گیبن بلدیہ لاہور کا انچارج تھا۔ منیر نے اپنی رپورٹ کے ص ۱۵۹ پر تسلیم کیا ہے کہ ’’ایک پراسرار جیپ پر فوجی وردی میں ملبوس لوگوں نے اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی‘‘ اس پر مرزائی سوار تھے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ اخبار بے باک سہارن پور کی رپورٹ کے مطابق شہداء کو بلدیہ کے ٹرکوں پر لاد کر کچھ کو راوی کے کنارے پٹرول ڈال کر نذر آتش کیا گیا اور کچھ کو پتوکی کی اونچی کناروں والی نہر کے اونچے کناروںمیں دفن کردیا گیا۔ فیاحسرتا۔	         (تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء ص ۵۵۳ تا ۵۵۶)
	کراچی میں تقرری:تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کی انکوائری ختم ہوئی تو تحریک کے رہنما رہا ہو گئے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کا باضابطہ انتخاب ہو ا تو دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت بندر روڈ کراچی میں مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کا مبلغ بنا کر بھیج دیا گیا۔ مولانا نے جا کر دفتر کھولا۔ رفقاء کو منظم کیا۔ ابتدا میں کام میں دشواری ہوئی تو مولانا عبدالرحیم اشعر نے حضرت جالندہریؒ کو خط لکھا کہ حسب منشاء کام نہیں ہورہا میں تقریباً فارغ رہتا ہوں تو حضرت جالندہریؒ نے جواب تحریر کیا کہ: ’’آپ کا دفتر کھول کر رکھنا بھی کام ہے۔ تحریک ختم نبوت کے حالات کے بعد ختم نبوت کا دفتر کھولنا دشمن کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔ اپنے آپ کو بے کار نہ سمجھیں۔ دفتر کھلا رہے۔ کام جاری رکھیں۔ اﷲ تعالیٰ مدد کریں گے۔‘‘ اس خط سے آپ کو حوصلہ ملا۔ اس زمانہ میں حضرت جالندہریؒ کے حکم پر آپ کبھی کبھار کراچی حضرت شیّخ الاسلام مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے درس حدیث میں شریک ہوتے۔ کام شروع ہوا رفقاء مل گئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مولانا اشعرؒ کی مخلصانہ محنت کو قبول فرمایا۔ حضرت حاجی لال حسین صاحبؒ چکوال کے باشندہ تھے۔ حکومت کے اہم سرکاری ملازم تھے۔ ملازمت کراچی میں کرتے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ 
	حضرت مولانا اشعرؒ فرماتے تھے کہ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کراچی تشریف لائے۔ حاجی لال حسین صاحب کے ہاں ناشتہ تھا۔ حضرت مولانا ہزارویؒ نے حاجی صاحب کی اعلیٰ ملازمت کی ٹھاٹھ با ٹھ‘ شاہانہ کوٹھی۔ حاجی صاحب کی دین سے وابستگی دیکھی تو مولانا عبدالرحیم اشعرؒ سے فرمایا کہ جب ایسے کسی شخص سے آپ کا تعارف ہوتو فوراً بڑے حضرات‘ حضرت امیر شریعتؒ، حضرت بنوریؒ، حضرت قاضی صاحبؒ، حضرت جالندہریؒ سے ان کا تعارف کرادیں اور بزرگوں سے تعلق جوڑوا دیں۔ اس لئے کہ اگر آپ ان کے آئیڈیل ہوگئے تو آپ سے کوئی معمولی لغزش ہوئی تو یہ دین سے دور ہو جائیں گے۔ بڑے حضرات سے ان کا تعلق ہوگا تو آپ کی معمولی لغزش بھی دب جائیگی اور دین سے ان کا تعلق بھی باقی رہے گا۔ چنانچہ مولانا اشعرؒ نے ان اکابر سے حاجی لال حسین صاحب کا آنا جانا شروع کرایا۔ حاجی صاحب مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر مقرر ہوئے۔ عمر بھر امیر رہے۔ مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ حضرت قاضی صاحبؒ سے تو  ان کا دوستانہ ہو گیا۔ گزشتہ چند سالوں میں ان کا انتقال ہوا۔
	حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ  تقریباً ۱۹۶۶ء تک کراچی میں بحیثیت مبلغ کے کام کرتے رہے۔ ملتان تغلق روڈ پر مجلس کا دفتر مرکزی ملکیتی مکمل ہوا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت قاصی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال ہوا۔ تو مولانا عبدالرحیم مرکزی مبلغ کے طورپر ملتان تشریف لائے۔ مرکزی مبلغ اور ناظم کتب خانہ کے طورپر کام کرتے رہے۔ آپ کا حلقہ تبلیغ اب پوراملک ہوگیا۔ کئی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter