Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

2 - 196
کے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا۔ ہر وقت دینی کتب کا مطالعہ آپ کی زندگی کا مشغلہ تھا۔ ہندوستان بھر میں آپ نے اہل باطل سے مناظرے کئے۔ دلائل وبراہین سے گفتگو آپ کی پہچان تھی۔
	مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی خانہ ساز نبوت‘ مہدویت‘ مجددیت اور مسیحیت کا تانا بانا تیار کیا تو دیگر مناظرین اسلام کی طرح آپ بھی قادیانیت شکن بن کر میدان میں اترے۔ تردید قادیانیت کے موضوع پر آپ کے تمام رشحات قلم کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ’’احتساب قادیانیت چودھویں جلد‘‘ میںیکجا شائع کیا ہے۔
	آپ کے صاحبزادے ڈاکٹر مفتی کفایت اﷲ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ دو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارا چچا مرنے والا ہے۔ وہ قادیانی ہے۔ آپ ہمارے گائوں چلیں اور اسے سمجھائیں کہ وہ قادیانیت سے توبہ کرلے۔ آپ فوری طور پر ان افراد کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ ان کے چچا کو تبلیغ کی۔ اس پر قادیانیت کے دجل وفریب کو واضح کیا اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اﷲ کے فضل اور آپ کی تبلیغ کی برکت سے وہ شخص اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ ابھی آپ اسے مسلمان کرنے کے بعد اس گھر سے نکلنے بھی نہ پائے تھے کہ اس نومسلم کا انتقال ہوگیا۔ اسی طرح نہ معلوم کتنی مخلوق خدا کو آپ نے ارتداد وزندقہ سے توبہ کراکر حلقہ بگوش اسلام کیا۔
	بہورچھ میں موجود مولانا مرحوم کے ایک نواسہ کے مطابق مولانا مرحوم ہلکے پھلکے جسم کے انسان تھے۔ چہرے پر رب کریم کے کرم سے نورانیت موسلا دھار بارش کی طرح برستی نظر آتی تھی۔ بے پناہ جاذبیت سے ان کی مخلصانہ تبلیغ اسلام اور تحفظ ختم نبوت کے مقدس مشن سے لگائو کی برکات جھلکتی نمایاں نظر آتی تھیں۔ آخر دم تک چلتے پھرتے رہے۔ کبھی معذور نہیں ہوئے۔ ۸۹سال عمر پائی۔ زندگی کے آخری ایام میں اپنے آبائی گائوں بہور چھ آگئے۔ رات کو ہاٹ اٹیک ہوا۔ چند دن کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ ۵جولائی۱۹۸۵ء یوم الجمعہ کو انتقال فرمایا۔ گائوں کے خطیب حضرت مولانا محمدطارق صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہورچھ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ علاقہ میں ’’کوہاٹی بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔
	رب کریم کے کرم کو دیکھیں کہ مولانانظام الدینؒ نے جس فتنہ خبیثہ قادیانیت کا تعاقب ہندوستان میںشروع کیا۔ پاکستان میں ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکات ختم نبوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی‘ حکیم نورالدین‘ مرزا محمود اور مرزا ناصر کو اپنے سامنے ایڑیاں رگڑتے دیکھا۔ قادیانیت کی ذلت‘ رسوائی اور پسپائی اور مجاہدین ختم نبوت کی کامیابیوں وکامرانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر‘ کامیاب زندگی گزار کر رب کریم کے حضور تشریف لے گئے۔
	اخفا واخلاص اور ریا کاری سے دور بھاگنے والے ان بزرگ کے ان مقدس اعمال کو دیکھیں۔ ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی مقدس تحریکات ختم نبوت ہم مسکین لوگوں نے اپنی جوانی میں لڑیں۔ چراغ تلے اندھیرے والی بات ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارے مجاہد‘ جرنیل‘ کامیاب وفاتح قائد جناب ابوعبیدہ مولانا نظام الدین صاحب قریب ہی رہتے ہیں۔ ان کی اس مخلصانہ ریاضت پر اس سے بہتر کیا خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے کہ:عاش غریبا ومات غریبا
	شان بوذریؓ کا ایک عظیم نشان آں مرحوم کی ذات گرامی تھی۔ حضرت مولانا لال حسین اختر  ؒ حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ‘ حضرت مولانا محمدحیاتؒ اور ابوعبیدہ حضرت مولانا نظام الدینؒ کا خمیر ایسا لگتا ہے کہ ایک مٹی سے گوندھا گیا تھا۔ ان چار مناظرین میں سے دو‘ حضرت مولانا لال 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter