Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

28 - 196
فیشن ایبل لڑکی آکر بیٹھ گئی۔ اتنے میں ہٹو بچو کا غوغہ ہوا اور جسٹس منیر صاحب آئے۔ وہ بھی اس کار میں بیٹھ کر ہوا ہو گئے۔ مولانا عبدالرحیم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عدالت کے اردلی سے کہا کہ یہ لڑکی منیر صاحب کی بیٹی ہیں۔ وہ ہماری سادگی پرسر پیٹ کررہ گیا۔ اس نے کہا کہ مولوی صاحب تمہارا فریق مخالف ہر روز نئی نویلی خوبصورت لڑکی کا انتظام کرکے منیر صاحب کے سینہ کی حرارت اور نفس کی شرارت کو برقرار رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔ مولانا عبدالرحیم اشعرؒ فرماتے ہیں کہ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور سر چکرانے لگا کہ الامان الحفیظ!
	۴…	حضرت مولانا اشعرؒ فرماتے ہیں کہ انکوائری کے دوران صف اول کے راہنما جیل میں تھے۔ ہم لوگ باہر وکیلوں کی تیاری پر مامور تھے۔ کتابوں کا ایک سیٹ تھا جیل بھجواتے تو ہم خالی ہاتھ اور اگر ہمارے پاس ہوں تو وہ خالی ہاتھ ۔ اس لئے یہ انتظام کیا کہ مولانا لال حسینؒ اختر کی زوجہ محترمہؒ نے کراچی کا سفر کیا۔ کراچی دفتر کے ہمسائے سید ادریس شاہؒ صاحب کے گھر میں وہ کتابیں تھیں وہ لیکر لاہور تشریف لائیں۔ اب کتابوں کو جیل بھجوانے کا مرحلہ تھا وہ یوں حل ہوا کہ شیخ حسام الدینؒ کی ٹانگ میں درد ہوا وہ کار میں بیٹھ کر ہسپتال معائنہ کے لئے تشریف لائے۔ ڈگی میں کتابیں رکھیں اور جیل تشریف لے گئے۔
	۵…	خواجہ ناظم الدین، حمید نظامی اور ظفراللہ قادیانی کا بیان بند کمرہ عدالت میں لیا گیا۔ نظامی صاحب نے عدالت میں کہا کہ پنجاب حکومت نے اخبارات کو اشتہارات کی مد میں لاکھوں کی رقم دی اور انہوں نے مرزائیوں کے خلاف تحریک کو پروان چڑھایا۔ حالانکہ مجلس عمل کی ترجما نی روزنامہ آزاد کررہا تھا اور اسے اشتہارات کی مد میں حکومت نے کوئی رقم نہ دی تھی۔ یہ ان کا محض عذر لنگ تھا۔ مجلس عمل کے وکیل مولانا مرتضیٰ احمد خان میکشؒ نے روزنامہ نوائے وقت کا ایک اداریہ پیش کردیا جس میں درج تھا کہ گاہے بگاہے مرزائیت کے خلاف تحریک اس لئے اٹھتی ہے کہ مرزائیوں کے عقائد گمراہ کن اور اشتعال انگیز ہیں۔ انہیں کے باعث تحریک اٹھتی ہے۔ آپ کا عدالت کا بیان اور اداریہ کا بیان دونوں میں فرق ہے۔ کونسا صحیح ہے تو اس پر وہ…!
	۶…	مولانا مظہر علی اظہر سے عدالت نے پوچھا کہ آپ نے قائداعظمؒ کو کافر کہا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر شیخوپورہ کی پیش کی کہ میں نے لیگیوں سے کہا تھاکہ آپ ہمارے رہنماؤں پر الزام تراشی بند کریں۔ ورنہ میں مسٹر جناحؒ کے سول میرج کی کہانی ساتھ لاؤں گا۔ وہ لیگ کے لیڈر تھے اور میں احرار کا۔ تو یہ الیکشنی بیانات ہیں۔ قائداعظمؒ نے کہا کہ میرے مطالبات میں خامی نکالیں۔ آپ میرے ذاتی معاملات میں نقص نہ نکالیں تو بات ختم ہو گئی۔ اس پر منیر نے کہا کہ اب ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سول میرج کے وقت جو بیان دیا تھا وہ واپس نہیں لیا۔ اس لئے میرا موقف ابھی بھی وہی ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ایسے بیانات پر لوگ قتل ہوجاتے ہیں۔ مولانا  مظہر علی اظہر نے کہا کہ ایسے ہوا تو میں سمجھوں گا کہ مسٹر منیر میرے قتل پر لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔ اس پر عدالت میں سناٹا چھا گیا اور منیر کا منہ لٹک گیا۔ دوسرے دن فاطمہ جناحؒ کا عدالت کے نام تار آیا کہ آپ اس قسم کے مباحث اٹھاکر میرے بھائی بانی پاکستان کو رسوا کررہے ہیں۔ یہ قدرت کی طرف سے منیر کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ تھا۔
	۷…	اب مرزائی لابی نے مولانا مظہر علی اظہرؒ کا تعاقب کرنا شروع کردیا۔ فیصل آباد سے میاں محمد عالم بٹالوی احراریؒ مولانا مظہر علی کے با ڈی گارڈ بنادیئے گئے۔ وہ بلا کے ذہین اور بہادر انسان تھے۔ انہوں نے افواہ پھیلا دی کہ اگر مولانا مظہر علی کو کچھ ہوا تو منیر، بشیرالدین اور ظفراللہ کی خیر نہیں۔ اس کی خبر منیر کو پہنچی دوسرے دن عدالت میں منیر نے کہا مسٹر مظہر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter