Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

27 - 196
رمضان شریف کو میری رہائی ہو گئی۔ 			         (تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ئ‘ ص۴۹۰ تا ۴۹۲)
	انکوائری کمیشن:تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کی انکوائری کے لئے حکومت نے عدالتی کمیشن قائم کیا جو مسٹر جسٹس منیر‘ مسٹر جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل تھا۔ انکوائری کمیشن میں جن لوگوں نے شب وروز امت محمدیہ کی طرف سے وکالت کی ان میں مولانا عبدالرحیم اشعرؒ بھی ہیں۔ آپ نے انکوائری کے چشم دید آٹھ واقعات سنائے۔ فقیر نے وہ واقعات مذکورہ کتاب میں شامل کردیئے تھے جو پیش خدمت ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں:
	۱…	۸ جولائی کو مجھے میرے گھر واقع عنایت پور نزد جلال پور پیروالا میں خط ملا جو مولانا محمد علی جالندھریؒ نے لاہور جیل سے تحریر کیا تھا کہ تم ملتان سے دفتر کی کتابیں اور اگر وہ نہ ملیں تو فیصل آباد سے اپنی مرزائیت کی کتابوں کا سیٹ لیکر لاہور پہنچو۔ ملتان آیا تو کتابیں نہ مل سکیں۔ فیصل آباد گیاھو کا عالم تھا ۔ تمام رفقاء پس دیوار زنداں تھے۔ حافظ عبدالرحمن کیمبل پور والے ملے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ تمہارے وارنٹ ہیں۔ مخبری ہوگئی تو دھر لئے جاؤ گے میں تمہاری کتابیں لیکر لاہور آجاؤں گا۔ آپ فورا یہاں سے روانہ ہوجائیں میں لاہور چلا گیا۔ سید رحمت اللہ شا ہ اپنے گھر سندیلیانوالہ سے کتابیں لائے۔ حافظ عبدالرحمن صاحب وہ کتابیںلے کر لاہور پہنچ گئے۔ اب کتابیں ہمارے پاس، ہمیں کوئی ٹھہرانے کے لئے تیار نہ تھا۔ لاہور میں دولتانہ حکومت اور بعد میں فوج کے قیامت خیز مظالم کے سامنے کسی کی نہ جاتی تھی۔ ہم لوگ حیران و پریشان کہ مسافر غریب الدیار لوگوں کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا۔ تحریک کے صف اول کے تمام راہنما لاہور جیل میں تھے۔ دو دن مولانا مظہر علی کے گھر قیام کیا۔ ایک دن حکیم عبدالمجید سیفی مرحوم تشریف لائے۔ فرمایا میں تمہیں تلاش کرتے کرتے ہار گیا۔ تم میرے مہمان ہو چلو کتابیں اٹھاؤ گاڑی میں رکھو  اور میرے ساتھ چلو۔ ہوا یہ کہ حضرت مولانا محمد عبدؒاللہ سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ نے اپنے مرید حکیم عبدالمجید صاحب سیفی کو حکم فرمایا کہ ختم نبوت کی طرف سے انکوائری میں کام کرنے والے آنحضرتﷺ کے مہمان ہیں۔ یہ لوگ دربدر پھر رہے ہیں ان کو تلاش کرو اور اپنے گھر میں معزز مہمانوں کی طرح رکھو۔ کچھ عرصہ بعد خود حضرت قبلہ مولانا محمد عبداللہ صاحبؒ لاہور تشریف لائے۔ حکیم صاحب کے مکان پر قیام فرمایا۔ آپ کے ایک اور مرید مولانا حافظ کریم بخش صاحب پروفیسر تھے۔ ان کا کتب  خانہ ہمیں حوالہ جات کے لئے مل گیا۔
	حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ بھی تشریف لائے۔ اس طرح ایک ٹیم بن گئی جو انکوائری میں حصہ لینے لگی۔ مولانا مظہر علی اظہر اور مولانا مرتضیٰ احمد خاں میکشؒ یہ دونوں مجلس عمل کے وکیل تھے۔
	۲…	ایک دفعہ مولانا مرتضیٰ احمد خاں میکشؒ سے عدالت نے سوال کیا کہ آپ ان کی کیوں وکالت کررہے ہیں؟۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تو مجلس عمل کا وکیل ہوں۔ جس میں نو دینی جماعتیں شامل ہیں۔ نیز یہ کہ مجھے حضرت امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاریؒ سے سیاسی اختلاف ہے۔ مگر مرزائیت کے احتساب کے لئے میں ان کا پوری قوم پراحسان سمجھتا ہوں اگر شاہ صاحبؒ مرزائیت کا احتساب نہ کرتے تو آج پورا ملک مرزائیت کے دام تزویر میں ہوتا۔ یہ سن کر منیر کا منہ لٹک گیا۔
	۳…	ایک دفعہ مجھے (مولانااشعرؒ) مولانا مظہر علی اظہر نے کاغذ لینے کے لئے بھیجا میں باہر نکلا تو عدالت کے عقبی دروازہ پر کھڑی عمدہ شیور لائٹ کار میں ایک خوبرو نوجوان 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter