Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

26 - 196
	اتنے میں ملٹری کاٹرک آگیا۔ پوچھا کون ہو۔ ہم نے کہا مزدور ہیں۔ کہاں جارہے ہو ۔ ہم نے کہا مزدوری کرکے اپنے گاؤں نواب پور جارہے ہیں۔ وہ مطمئن ہو کر چلے گئے۔ ہم چلتے رہے۔ رسالیوالہ اسٹیشن پر ٹرین کا ٹائم تھا۔ شہر اور اسٹیشن پر پولیس و ملٹری میری گرفتاری کے لئے بل کھا رہی تھی۔ فیصل آباد کے لئے ٹرین آئی تو رحمت اﷲ شاہ واپس ہو گئے۔ ملتان کی ٹرین آئی۔ میں سوار ہو گیا۔ خانیوال آیا اسٹیشن پر دو چار لقمے زہر مار کر نے کے لئے کنٹین پر گیا تو دیکھا کہ عبداللہ ہوٹل چنیوٹ بازار فیصل آباد کا منیجر پھر رہا ہے۔ یہ پولیس کا مخبر تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی اسٹیشن پر لیٹنے میں عافیت سمجھی۔ ٹرین چلی تو لپک کر گارڈ کے ڈبہ میں سوار ہو گیا۔ ملتان سٹی اتر کر ریلوے لائن میں ٹرین کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ عبداللہ ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ ٹرین چھاؤنی کے لئے چلی تو میں بستر اٹھا کر پیدل سفرکرکے خیرالمدارس پہنچ گیا۔ ان دنوں جماعت (ختم نبوت) کا دفتر قدیر آباد ہوتا تھا۔ پیغام بھجوایا۔ تیسرے روز بلاوا آگیا۔ دفتر پہنچا تو مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے بورے والا، وہاڑی، عارف والا وغیرہ کے پروگرام بنا کر رقعہ پکڑا دیا کہ شاہ جیؒ کے حوالے سے لوگوں کو تحریک کے جاری رکھنے پر تیار کرو۔ اتنے میں پولیس نے دفتر کا محاصرہ کرلیا۔ 
	مولانا محمد شریف جالندھریؒ، مولانا محمد حیاتؒ فاتح قادیان، مولانا غلام محمد، سائیں محمد حیاتؒ دفتر میں موجود تھے۔ مولانا غلام محمد تو جل دے کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پروگرام پر روانہ ہو گئے۔ وہاں سے گرفتار ہو کر پھر جیل میں آملے۔ ہم چاروں گرفتار کرلئے گئے۔ پولیس نے مجلس کا سیف توڑا ۔ واہی تباہی بکتے پولیس ہمیں تھانہ صدر لے گئی۔ مولانا محمد حیات صاحبؒ فاتح قادیان جیل کاٹنے میں بڑے بہادر اور جری تھے۔ پولیس کو کہا کہ بازار سے اپنے خرچہ سے کھانا لاؤ یا جیل پہنچاؤ۔ ہم اپنا کھانا نہ کھائیں گے۔ پولیس نے کھانا کھلایا اور عصر کے قریب سنٹرل جیل ملتان پہنچا دیئے گئے۔ جیل میں گئے تو مولانا محمد علی جالندھریؒ مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، سید نورالحسن شاہ بخاریؒ، مولانا سعید احمد جھگی والاؒ، مولانا سلطان محمودؒ، مولانا قائم الدین علی پوریؒ اور دوسرے حضرات موجود تھے۔ ہمارے جاتے ہی جیل کے تمام بزرگوں نے شفقتوں سے نوازا۔ مولانا نذیر احمد، باقر علی اور دوسرے جماعت اسلامی کے رفقاء بھی آگئے تو مولانا احمد علی لاہوریؒ نے حضرت قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کو کہہ کر پچیس عدد معرا قرآن مجید کے نسخے منگوائے اور درس قرآن جاری کردیا۔ پچیس دن بعد قاضی احسان احمدؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت لاہوریؒ، مولانا سید نورالحسن شاہ بخاریؒ کو ڈسٹرکٹ جیل منتقل کردیا گیا۔ وہاں پر مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ اور حضرت لاہوریؒ کو کھانے کی اشیاء میں زہر دیا گیا۔ دو چار لقمے کھاتے ہی قاضی صاحبؒ کی طبیعت غیر ہو گئی۔ سخت قے آئی۔ حضرت لاہوریؒ کا بھی یہی حال تھا۔ جیل کا ڈاکٹر آیا تو آتے ہی قے پر پانی ڈال کر اسے بہا دیا تاکہ زہر کا ثبوت باقی نہ رہے۔ جیل میں ا س سانحہ کی خبر نے آگ لگادی۔ جیل کے تمام قیدی دیواروں و درختوں پر چڑھ کر سراپا احتجاج بن گئے۔ عملہ تشدد کرتا۔ درمیان میں مولانا محمد علی جالندھریؒ کا تجربہ کام آیا اور ان کے کہنے پر احتجاج ختم ہوا اور سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ کچھ عرصہ بعد مولانا محمد شریف جالندھریؒ، مولانا محمد حیاتؒ، ملک عبدالغفور انوریؒ ‘سائیں محمد حیاتؒ اور میں (عبدالرحیم اشعرؒ) لاہور بوسٹرل جیل منتقل کردیئے گئے۔ وہاں پر مولانا خدا بخش ملتانی، سید امین شاہ مخدوم پوری، مولانا زرین احمد خاںؒ موجود تھے۔ میانوالی سے حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب مدظلہ (امیر مرکزیہ) صوفی ایاز خاںؒ آئے ہوئے تھے۔ قاری رحیم بخشؒ پانی پتی نے تراویح جیل میں پڑھانی شروع کی تو ہر روز اڑھائی صد تحریک کے راہنماء مقتدی ہوتے۔ میرے متعلق پولیس نے متعلقہ آبائی تھانہ جلال پور پیروالا سے رپورٹ مانگی تو انہوں نے غیر اہم لکھ دیا یوں تین ماہ بعد ۲۷ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter