Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

25 - 196
مرحوم کے شاگرد ہیں۔ ا یک وقت تھا کہ مولانا کا طوطی بولتا تھا۔ کراچی سے خیبر تک مولانا کے قادیانیت کے خلاف دورے ہوتے تھے۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشائ!
	حضرت مولاناعبدالرحیم اشعرؒ ۔ ۱۹۴۹ء کے آواخر یا۱۹۵۰ء کے اوائل میں فیصل آباد کے مبلغ بنے۔ تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کے زمانہ میں آپ فیصل آباد تھے۔ تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ء کی داعی جماعت مجلس احرار اسلام پاکستان تھی۔ قدرت نے مجلس احرار کے اکابر مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ‘ ماسٹر تاج الدین انصاریؒ‘ مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ‘ شیخ حسام الدینؒ‘ مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ صاحبزادہ فیض الحسنؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ سے اس تحریک میں جو کام لیا وہ تاریخ احرار کا درخشندہ باب ہے۔ تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء پر کتاب لکھتے وقت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ 
	حضرت مولانا نے اپنے کردار سے متعلق تفصیلات بیان فرمائی تھیں۔ جو اسی کتاب سے پیش خدمت ہیں وہ یہ ہیں:
	’’مولانا عبدالرحیم اشعرؒ فرماتے ہیں کہ تحریک ختم نبوت کے زمانہ میں میں جماعت کی طرف سے فیصل آباد کا مبلغ تھا۔ تحریک ختم نبوت چلی تو مولانا تاج محمود صاحبؒ فیصل آباد کے امیر تھے۔ آپ نے ایک کار اور لاؤڈسپیکر کاانتظام کرکے دیا۔ مولانا قاری عبدالحی عابد ان دنوں مدرسہ اشاعت العلوم فیصل آباد میں زیر تعلیم تھے۔ ان کو قدرت نے بلا کا گلہ دیاتھا۔ یہ میرے ساتھ ہوتے۔ ہم علی الصبح کار پر نکل جاتے سپیکر لگا کر گاؤں گاؤں پھرتے۔ یہ نظمیں پڑھتے، میں تقریریں کرتا۔ ا ٹھارہ بیس دن تک ہم نے ضلع فیصل آباد کا کونہ کونہ چھان مارا۔ پورا ضلع تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کے لئے سراپا تحریک بن گیا۔ اٹھارہ بیس دن بعد ہمیں معلوم ہوا کہ تحریک کے تمام را ہنما مولانا تاج محمودؒ، مولانا عبدالمجید نابیناؒ تمام حضرات گرفتار ہو گئے ہیں۔ پولیس ہمارے تعاقب میں ہے۔ کسی بھی وقت گاڑی اور سپیکر ضبط کرکے ہمیں گرفتار کرلیا جائے گا تو ہم نے گاڑی چھوڑ دی۔ فیصل آباد جامع مسجد کی بجلی اور پانی کے کنکشن منقطع کردیئے گئے تھے۔ 
	حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ فرماتے ہیں کہ میں رات کو جامع مسجد کچہری بازار سے ملحقہ ایک مکان میں ایک تبلیغی جماعت کے ساتھی کے گھر جا کر رہا۔ صبح جمعہ تھا۔ معلوم ہوا کہ مولانا مفتی سیاح الدین کاکا خیل سے تشریف لا چکے ہیں۔ جمعہ پڑھائیں گے۔وہ وقت پر پولیس و ملٹری کی ناکہ بندی کے باعث جامع مسجد میں نہ آسکے۔ میں نے تقریر کی۔ قدرت کا کرم ایسے ہوا کہ تقریر نے شہر میں آگ لگا دی۔ پولیس و ملٹری حرکت میں آگئی۔ میں جمعہ سے فارغ ہو کر مسجد کے شمالی دروازہ کے قریب جنازہ گاہ میں بیٹھا تھا کہ ایک احراری دوست نے مجھے وہاں سے نکال لیا۔ میں آخری آدمی تھا جو مسجد سے نکلا۔ اس کے بعد مسجد کے دروازے بند کرکے ایک ایک آدمی کی پہچان کی گئی کہ تقریر کرنے والے مولوی صاحب کہاں ہیں۔ میں نے ایک میلی کچیلی کمبل اوڑھ رکھی تھی۔ لباس بھی بوسیدہ و میلا تھا۔ مجھے انہوں نے درخور اعتنا نہ سمجھا اور یوں نکل کر مسجد اہل حدیث امین بازار پہنچا۔ شیخ خیر محمد چمڑہ منڈی وا لے تحریک کے خزانچی تھے۔ مجھے کرایہ دیا اور شہر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ مسجد کے عقبی دروازہ سے کوتوالی تھانہ کے سامنے سے امین پور بازار کو کراس کرکے منشی محلہ سے ہوتے ہوئے جھنگ بازار تانگہ لیا اور جوالانگر پل کی طرف نکل گیا۔ میرے ساتھ رحمت اللہ شاہ تھے جو سندیلیانوالہ کے تھے۔ اشاعت العلوم میں طالب علم تھے۔ ہم ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ملتان کی طرف چل پڑے۔ دو نوجوان ملے پوچھا کہ نواب پور جار ہے ہو۔ ہم نے اثبات میں جواب دیا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter