Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

24 - 196
					       (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص ۸۰) 
	۶…	تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں تحریک کے رہنما ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو کراچی دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت سے گرفتار ہوئے۔ چنانچہ زعیم احرار حضرت ماسٹر تاج الدین انصاریؒ رقم طراز ہیں:’’ہم سب دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی میں آکر دراز ہو گئے۔ دفتر سے گرفتار ہونے وا لے ہم آٹھ ارکان تھے۔ حضرت مولانا ابوالحسناتؒ‘ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ‘ حضرت صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ‘ جناب عبدالرحیم جوہرؒ‘ جناب نیاز لدھیانویؒ‘ مولانا لال حسین اخترؒ‘ اسد نواز ایڈیٹر حکومت اور ماسٹرتاج الدین انصاریؒ ۔(تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء  ص ۲۸۸‘ ۲۸۹)
	۷…	 مجلس تحفظ ختم نبوت جنوری ۱۹۴۹ء میں قائم ہوئی۔ اس نام سے تبلیغی کام شروع ہوا۔ دفاتر قائم ہونے لگے۔ البتہ انتخاب تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کے بعد ۱۶ ربیع الثانی ۱۳۷۴ھ مطابق ۱۳ دسمبر ۱۹۵۴ء کو ہوا۔
	۸…	اس روز ہی ’’مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان‘‘ کا میثاق رکنیت تیار ہوا۔ جس میں ابتدائی تاسیسی ارکان مجلس تحفظ ختم نبوت کے ۱۷ حضرات کے دستخط ہوئے جس کی ترتیب یہ تھی: ’’مولانا سید عطااللہ شاہ بخاریؒ، مولانا محمد علی جالندہریؒ، مولانا لا ل حسین اخترؒ، مولانا عبدالرحمن میانویؒ، مولانا شیخ احمدؒ بورے وا لا، مولانا سعید احمدؒ جھگی والا جتوئی، مولانا محمد شریفؒ بہاول پوری، مولانا تاج محمودؒ، مولانا محمد رمضانؒ میانوالی، مولانا مجاہدالحسینی، مولانا نذیر حسینؒ پنوں عاقل، مولانا علائو الدین مدظلہ ڈیرہ اسماعیل خان ، مولانا محمد شریف جالندہریؒ، ملک عبدالغفور انوریؒملتان، مولانا غلام قادرؒ جھنگ، حافظ محمد شریفؒ ملتان، ماسٹر اختر حسینؒ ملتان۔‘‘
	معافی چاہتا ہوں حکایت لذیذ دراز ہو گئی۔ غرض ۱۹۴۹ء میں فراغت کے بعد مختلف محاذوں سے چکر کاٹ کر حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ نے حضرت امیر شریعت کے حکم پر ختم نبوت کی پہلی تربیتی کلاس میں باضابطہ داخلہ لے کر تعلیم شروع کردی۔
	حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کا خدام الدین لاہور ۳۰ جولائی ۱۹۸۲ء میں ایک انٹرویو شائع ہوا۔ اس کے ص ۱۶ پر مولانافرماتے ہیں:’’چونکہ حضرت امیر شریعتؒ سے تعلق تھا ا ن کے کہنے پر ۱۹۴۹ء میں ہم پانچ آدمیوں مولانا محمد لقمانؒ علی پوری، مولانا غلام محمد ، مولانا قاضی عبداللطیفؒ‘ مولانا قائم الدینؒ اور مجھ(عبدالرحیم اشعرؒ) کو (فاتح قادیان) مولانا محمد حیاتؒ کے سپرد کیاگیا۔‘‘
	حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ فرماتے تھے کہ اس کور س میں باقی ساتھی تو پڑھائی کے لئے مکمل وقت دیتے تھے مجھے تعلیم کے علاوہ تیاری کھانا وغیرہ کے امور کے لئے بھی وقت دینا پڑتا تھا۔ ساتھیوں کو باقاعدہ سبق لکھوایا جاتا تھا۔ جب وہ ہنٹس تیار کرتے تھے تو میں ان کو نقل کرلیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی کہ ان پانچوں حضرات سے کم وقت تعلیم کے لئے مولانا اشعرؒ کو ملتا تھا لیکن اکابر اساتذہ و رفقاء کی خدمت کے صدقے میں اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ ردقادیانیت کا کام مولانا اشعر سے لیا۔ مولانا کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ بیک وقت وہ فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ اور مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ کے شاگرد تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ان کی روایات کے امین و وارث قرار پائے۔ چنانچہ دفتر مرکزیہ ملتان، ڈھاکہ، علامہ بنوری ٹاون کراچی، خدام الدین لاہور اور ملک بھر میں مجلس کے زیر اہتمام تحفظ ختم نبوت رد قادیانیت کورس مدارس میں مولانا عبدالرحیم اشعرؒ پڑھاتے تھے۔ اس وقت مجلس میں کام کرنیوالے اکثر حضرات مبلغین کرام مولانا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter