Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

18 - 196
	 آپ کے بھائی مولانا احمد رفیع نے جنازہ پڑھایا۔ آپ کا جنازہ سرگودھا کی تاریخ کا ایک مثالی جنازہ تھا۔ سرگودھا کے قبرستان میں محواستراحت ہوئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت مرحوم کے خاندان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔		          (لولاک محرم الحرام۱۴۲۲ھ)
 ۶۱…حضرت مولانا رشید احمد پسروریؒ 
وفات…۱۸مارچ ۲۰۰۳ء
	شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ کے جانشین‘ درویش منش عالم دین‘ شاہی مسجد پسرور کے خطیب‘ بزرگ رہنما‘ علم وفضل کا سمندر بیکراں‘ اکابر کی روایات کے امین‘ مخلص داعی الیٰ اﷲ حضرت مولانا رشید احمد پسروریؒ ۱۴محرم الحرام۱۴۲۴ھ مطابق۱۸مارچ۲۰۰۳ء بروز منگل پسرور میں انتقال فرماگئے۔ اناﷲوانا الیہ راجعون!
	حضرت مولانا رشید احمد پسروریؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی مولانا بشیر احمد پسروریؒ سے شاہی مسجد پسرور میں حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد عبداﷲصاحبؒ سے منتہی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ خیرالمدارس میں حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد شریف کشمیریؒ سے دورہ حدیث کیا۔
	 تعلیم سے فراغت کے بعد پسرور کے ایک سکول میں کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کی۔ والد مرحوم کے انتقال کے بعد شاہی مسجد پسرور کی خطابت اور مدرسہ کے اہتمام کو سنبھالا اور پھر خداداد صلاحیتوں کے باعث مرجع عام وخواص ہوگئے۔ پورے علاقہ میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیا۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور عظمت صحابہ کرامؓ کا تحفظ انہیں ورثہ میں ملا تھا۔
	 عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر میں فاتح قادیان استاذ الکل حضرت مولانا محمد حیاتؒ سے ردقادیانیت پر باقاعدہ تیاری کی اور عمر بھر حقانیت اسلام کے لئے سرگرم عمل رہے۔ فرق باطلہ کے رد میں وہ آیت من آیات اﷲ تھے۔ کفر کے مقابلہ میں ان کی للکار حق‘ درّہ عمرؓ کی حیثیت رکھتی تھی۔ تمام دینی جماعتوں اداروں سے والہانہ تعلق تھا۔ جمعیت علمائے اسلام اور انجمن خدام الدین پر دل وجان سے فدا تھے۔حق تعالیٰ نے انہیں خوبیوں کا مرقع بنادیا تھا۔
	 پرویزی حکومت میں جب علماء کی گرفتاریاں ہوئیں تو مولانا رشید احمد نے تین ماہ تک سنت یوسفی ادا کی۔ حکومت نے معافی نامہ لکھوانا چاہا۔ اس زمانہ میں جبکہ اکثر وبیشتر کارکن اسے غنیمت سمجھ کر خلاصی حاصل کرنے میں پیش پیش تھے مولانا موصوف کوہ استقامت بن گئے۔ حکومتی نمائندہ کو ٹکا سا جواب دے کر اکابر دیوبند کی یاد تازہ کردی۔ انہوں نے یہ کہہ کر حکومتی نمائندہ کو لاجواب کردیا کہ :’’معافی کا لفظ ہماری لغت میں نہیں ہے۔‘‘قدرت نے کرم کیا۔ تین ماہ کے بعد حکومت جھک گئی اور موصوف آبرومندانہ طور پر رہا ہوگئے۔
	 حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ اصلاً ’’وہوا‘‘ ڈیرہ غازی خان کے باسی تھے۔ تمام عزیز اور برادری کے لوگ وہاں آباد ہیں۔ سال میں جب کبھی مولانا رشید احمد پسروریؒ کا ڈیرہ غازی خان جانا ہوتا۔ آتے جاتے ملتان دفتر ختم نبوت کو میزبانی کا اعزاز بخشتے۔ وفات سے چند ہفتے قبل دفتر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter