Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

115 - 196
۷…فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ
وفات… ۱۱‘ اگست ۱۹۸۰ء
	حضرت مولانا محمد حیاتؒ کوٹلہ مغلاں شکر گڑھ ضلع سیال کوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم سکول میں حاصل کی پھر کالج میں داخلہ لیااور ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ قدرت نے غضب کا حافظہ دیا تھا۔ بلاء کے حاضر جواب تھے۔ علاقہ کے اہل نظر نے آپ کو مشورہ دیا اور آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد رشید حضرت مولانا محمد چراغ  ؒ کے پاس گوجرانوالہ میں دینی تعلیم شروع کر دی۔ سکول و کالج کی تعلیم کے باعث عمر کافی ہو گئی تھی۔ حضرت مولانا محمد چراؒغ نے مختصر نصاب تجویز کرکے چند سالوں میں تمام دینی تعلیم مکمل کرا دی اور ساتھ ہی روقادیانیت پر بھرپور تیاری کرا دی۔ حضرت مولانا نے تعلیم سے فراغت پاتے ہی ردقادیانیت کا کام شروع کر دیا تھا جو زندگی کے آخری لمحہ تک جاری رہا۔ قادیان میں محاذ ختم نبوت کے انچارج رہے۔ تاآنکہ ملک تقسیم ہوا۔ مرزا محمود کے قادیان سے فرار کے بعد قادیان کو چھوڑ کر پاکستان تشریف لائے۔ پاکستان میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بانی رکن اور سب سے پہلے مبلغ تھے۔ قادیان میں قیام کے دوران مرزائیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ اس طرح اکابرین امت کی طرف سے ’’فاتح قادیان‘‘ کا لقب حاصل کیا۔
	(ربوہ) چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے لئے مسلم کالونی میں پلاٹ حاصل ہوا تو آپ خبر سنتے ہی ملتان سے ربوہ منتقل ہونے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ کھانا چھوڑ دیا۔ چنے چبانے شروع کر دیئے۔ حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ کے پوچھنے پر جواب دیا کہ میں ریہرسل کر رہا تھا کہ اگر ربوہ میں روٹی نہ ملے تو آیا چنے چبانے کے لائق دانت ہیں یا نہیں؟۔ اس جذبہ و ایثار سے آپ مسلم کالونی ربوہ تشریف لائے۔ گرم سرد‘ دکھ سکھ‘ عسرویسر میں ربوہ کے اس محاذ کو آخری وقت تک سنبھالے رکھا۔ امت محمدیہ کی طرف سے واحد شخص ہیں جنہوں نے قادیان سے لے کر ربوہ تک مرزائیت کا تعاقب ان کے گھر تک پہنچ کر کیا۔
	آپ انتہائی سادہ اور منکسر المزاج تھے۔ قادیان اور ربوہ میں قیام کے دوران آپ سے گفتگو کے لئے جو بھی قادیانی آتا منہ کی کھاتا۔ کچھ عرصہ بعد خلافت ربوہ کو اعلان کرنا پڑا کہ اس ’’بابا‘‘ کے پاس نہ جایا کرو۔ گفتگو میں دشمن کو گھیرے میں لے کر بند کرنا آپ کا وہ امتیاز تھا جس کی اس زمانہ میں مثال ملنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ایک دفعہ ایک مرزائی مناظر نے کہا کہ مولانا آپ نے قادیان چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مرزا بشیر الدین کے فرار کے بعد۔ مرزائی نے کہا کہ نہیں اس وقت بھی قادیان میں ہمارے ۳۱۳ افراد موجود ہیں۔ مولانا نے فرمایا میں نے تو سنا ہے کہ ان کی تعداد ۴۲۰ ہے۔ یہ سنتے ہی مرزائی نے غصہ سے لال پیلا ہو کر کہا۔ ہم آپ کے دیو بند پر پیشاب بھی نہیں کرتے۔ مولانا نے بڑے دھیمے انداز میں جواب دیا کہ میں تو جتنا عرصہ قادیان میں رہا کبھی بھی پیشاب کو نہیں روکا۔ اس پر مرزائی اول فول بکتا ہوا یہ جاوہ جا۔ ایک دفعہ مرزائیوں نے مناظرہ میں شرط رکھ دی کہ مناظر مولوی فاضل ہو گا۔ مولانا مناظرہ کے لئے تشریف لے گئے تو مرزائی مناظر نے مولوی فاضل کی سند مانگی۔مولانا نے فرمایا۔ افسوس کہ آج ہم سے وہ لوگ سند مانگتے ہیں جن کا نبی مختاری کے امتحان میں فیل ہو گیا تھا۔ مولانا نے کچھ اس انداز سے اسے بیان کیا کہ مرزائی مناظر مناظرہ کئے بغیر بھاگ گیا۔
	۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے جو کارہائے نمایاں و گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ اس کا اندازہ منیر انکوائری رپورٹ سے ملتا ہے۔ کہ جہاں کہیں مسٹر جسٹس منیر آپ کی کسی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter