Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

116 - 196
تقریر کا حوالہ دیتا ہے جل بھن کر دیتا ہے۔ گویا مولانا کے طرز عمل نے مرزائیت و مرزائی نواز طبقہ کے خواب و خور حرام کر دیئے تھے۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ملتان دفتر سے حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ‘ حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر ؒ اور جناب سائیں محمد حیات ؒ کے ساتھ گرفتار ہو کر سینٹرل جیل گئے۔ وہاں پر اکابر و اصاغر کے ساتھ بڑی بہادری سے جیل کاٹی۔ جیل میں بی کلاس کی سہولت حاصل ہوگئی تو مزاحاً حضرت مولانا محمد علی جالندھری ؒ سے فرماتے تھے کہ حضرت دیکھ لیں جو یہاں مل رہا ہے۔ دفتر جا کر وہی دینا ہو گا۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ فرماتے کہ مولانا محمد حیات ؒ جو کھانا ہے یہیں کھا لو۔ دفتر میں تو وہی دال روٹی ملے گی۔ جیل کی سزا کاٹنے کے اتنے بہادر تھے کہ وہاں جاکر کر گویا باہر کی دنیا کو بالکل بھول جایا کرتے تھے۔ اتنا بہادر انسان کہ اس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔
	ملتان جیل میں ایک دفعہ درویش منش ایک قیدی نے چنے منگوائے اور عصر کے بعد نمازیوں کے سامنے چادر پر بچھا کر پڑھوانے شرو ع کر دیئے۔ مولانا محمد حیات ؒ نے پوچھا تو جواب ملا اس لئے تاکہ مصیبت کم ہو۔ آپ نے فرمایا۔ آپ پڑھیں میں تو نہیں پڑھتا۔ جو لکھا ہے وہی ہوگا۔ جتنے دن جیل میں رہنا ہے بہرحال رہیں گے۔ رہے اور بڑے بہادری سے رہے۔ ملتان سے لاہور بورسٹل و سنٹرل جیل میں منتقل ہوئے۔ دس ماہ بعد رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پھر مرزائیت کی تردید میں جت گئے۔ غرضیکہ دھن کے پکے تھے۔
	مطالعہ کتب کا اتنا شوق تھا کہ فرائض و سنن کے علاوہ باقی تمام تر وقت مطالعہ میں گزرتا۔ وظائف و نوافل کے زیادہ خوگر نہ تھے۔ وہ تسبیح و دانہ کے آدمی نہ تھے۔ کتابوں کے رسیا تھے۔ آخری عمر میں کمزوری و ناتوانی وضعف بصر کے باوصف بھی یومیہ کئی سو صفحات تک مطالعہ کر جاتے تھے۔ ان کے سرہانے کتاب ضرور ہوتی تھی۔ خواب سے بیدار ہوئے مطالعہ میں لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو حوالہ جات ازبر تھے۔ آپ کو قدرت نے بلا کا حافظ دیا تھا۔ حافظہ و مطالعہ تقویٰ و اخلاص‘ جذبہ ایثار‘ جادو بیانی جیسی صفات و خوبیاں حضرت مولانا میں ایسی تھیں جن کا دشمن بھی اعتراف کرتے تھے۔
	حضرت مولانا محمد علی جالندھری ؒ دیگر اکابر کی طرح آپ کے بڑے قدر دان تھے۔ حضرت مولانا محمد حیات ؒ کی طبیعت میں سخت گیری تھی۔ اپنے مزاج و دھن اور رائے کے پکے تھے۔ بنیادی طور پر مناظر تھے اور مناظر اپنی رائے جلدی سے تبدیل نہیں کرتا۔ اس لئے حضرت مولانا محمد حیاتؒ کبھی کبھار گفتگو و اختلاف رائے میں حضرت مولانا محمد علی جالندھری ؒ سے شدت اختلاف بھی اختیار کر جاتے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں ’’ مجلس کو کیا کرنا چاہئے‘‘ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی رائے تھی کہ ہم لوگ غیر سیاسی ہیں۔ اپنی پالیسی پر کار بند رہیں جس جماعت کو اسلام کا زیادہ خادم سمجھیں ان کو ووٹ دیںجبکہ حضرت مولانا محمد حیات ؒ کی رائے تھی کہ اگر ہماری معاونت سے کچھ علماء اسمبلی میں چلے گئے تو ہمارے مسئلہ کو حل کرانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ پالیسی کے لحاظ سے حضرت مولانا محمد علی جالندھری ؒ کی رائے وزنی تھی۔ جبکہ مسئلہ کو حل کرانے کے نقطہ نظر سے حضرت مولانا محمد حیات ؒ کواپنی رائے پر اصرار تھا۔ دونوں حضرات نے ایک میٹنگ میں اس پر گھنٹوں دلائل دیئے۔ ظہر کے وقت اجلاس کا وقفہ ہوا تو وہی محبت و اخلاص۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے چائے پیالی میں ڈال کر پیش کی۔ حضرت مولانا محمد حیات ؒ  مسکرا اکٹھے۔ اﷲرب العزت ان تمام حضرات پر اپنا کرم فرمائیں کہ اخلاص کے پیکر تھے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter