Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

114 - 196
سے ہدایات لینے کے لئے حاضر ہوئے۔ آپ اسلامی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئے۔
	 ۱۵ اکتوبر ہفتہ کے روز صبح ساڑھے آٹھ بجے آپ کو دل کا دورہ پڑا۔ ڈاکٹروں نے آپ کا معائنہ کیا۔ پانچ گھنٹے بعد دوسرا دورہ پڑا۔ جو کافی شدید اور تکلیف دہ تھا۔ آپ نڈھال ہوگئے۔ مگر قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ کو ملٹری کمبائنڈ ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ ۱۷ اکتوبربروز پیر تیسرا دل کا دوہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ راولپنڈی میں نماز جنازہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ نے پڑھائی اور اسی رات دس بجے مدرسہ اسلامیہ  بنوری ٹائون کراچی میں آپ کا دوسرا جنازہ مولانا ڈاکٹر عبدالحئی خلیفہ مجاز حضرت تھانویؒ نے پڑھایا۔ ہزاروں علمائ‘ مشائخ‘ عوام اور عقیدت مند حضرات نے آپ کو آہوں‘ سسکیوں اور کلمہ طیبہ کی گونجتی ہوئی فضا میں رحمت خدا وندی کے سپردکیا۔ 		(لولاک ۲۱اکتوبر۱۹۷۷ئ)
۶…حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ملتانی  ؒ
وفات…۲۰ مئی ۱۹۷۸ء
	مدرسہ عربیہ قاسم العلوم ملتان کے مہتمم وشیخ التفسیر حضرت مولانا محمد شفیع مرحوم کافی عرصہ سے بیمار رہنے کے بعد ۲۰ مئی ۱۹۷۸ء کو ملتان میں انتقال کر گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
	 موصوف جامع امینیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے۔ حضرت علامہ مفتی کفایت اللہؒ کے مایہ ناز شاگرد تھے۔ تقسیم سے قبل حسین آگاہی کی سراجاں مسجد میں مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے مدرسہ کی بنیاد رکھی تو مفتی صاحب مرحوم اس مدرسہ کے مدرس مقرر ہوئے۔ کافی عرصہ تک بڑے اخلاص سے کام کرتے رہے۔ بعد میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  ؒنے مدرسہ قاسم العلوم ملتان کی سنگ بنیاد رکھی تو حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ اس کے مہتمم مقرر ہوئے۔ مولانا مفتی محمودؒ قائد جمعیت کو ملتان لانے کا فریضہ بھی محمد شفیع مرحوم نے سر انجام دیا۔ پچھلے چند سالوں سے اپنی علالت و بڑھاپے کی بنیاد پر حضرت  مولانامفتی محمودؒ  کو مدرسہ کا مہتمم مقرر کر دیا۔ مدرسہ قاسم العلوم میں ساری زندگی تفسیر قرآن پڑھاتے رہے۔ طالب علموں میں ان کا جلالین شریف کا درس انتہائی مقبول تھا۔ دور دور سے طالب علم جلالین پڑھنے کے لئے مفتی صاحبؒ کے پاس حاضر ہوتے۔ املی والی مسجد میں سالہا سال تک آپ نے خطابت کے فرائض سرانجام دیئے۔ انتہائی درویش منش انسان تھے۔
	مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیت علماء اسلام سے آپ کی محبت عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ ہمیشہ اپنے مدرسہ قاسم العلوم کا جلسہ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ سے تاریخ طے کرنے کے بعد مقرر کرتے۔ حضرت مولانا مرحوم کی وفات پر مفتی محمد شفیع مرحوم کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ایوب خان مرحوم کے زمانہ میں خاندانی منصوبہ بندی کا چکر چلا۔ مفتی محمد شفیع مرحوم کے درس قرآن اور خطبہ جمعہ میں جب اس کا ذکر آتا جذباتی حد تک چلے جاتے۔ یہ ان کی ایمانی غیرت وحمیت تھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے اکابر کی جوتیاں سیدھی کرنے کے باعث عنایت فرمائی تھی۔ آپ کے باقیات الصالحات میں سے مدرسہ قاسم العلوم‘ جامع مسجد املی والی‘ ہزاروں شاگرد ملک کے کونہ کونہ میں پھلے ہوئے ہیں۔ 				(لولاک ۲۹مئی۱۹۷۸ئ)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter