Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

113 - 196
ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔ ان کا سایہ ہمارے سروں پر نہیں رہا۔ ہم یتیم ہو گئے۔ آپ ہماری سر پرستی فرمائیں۔ آپ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے علوم کے وارث ہیں تو ان کی یہ امانت بھی آپ قبول فرمائیں۔ اگر آپ مجلس کی امارت قبول نہیں فرماتے تو یہ دفتر کی چابیاں ہیں۔ دفتر کو اپنے ہاتھ سے بند کر دیں۔ ہم تمام مبلغین گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ کام کے بند ہو جانے کے بعد کل قیامت کے دن آپ ذمہ دار ہوں گے۔
	حضرت مولانا بہاول پوریؒ نے جب حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کا نام لیا تو حضرت بنوریؒ پر گریہ طاری ہو گیا۔ زارو قطار رونے لگے۔ آپ نے کمزوری بڑھاپے اور مصروفیات کے باوجود مجلس کی امارت قبول فرمائی۔ حسن اتفاق کہیے یا خدا کی دین کہ آپ کے امیر منتخب ہونے کے دو ماہ بعد ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کو سانحہ ربوہ پیش آیا۔ پورے ملک میں تحریک چلی۔ آپ نے امیر کی حیثیت سے دیو بندی‘ بریلوی‘ شیعہ اور اہل حدیث‘ تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کا مشترکہ اجلاس ۶ جون ۱۹۷۴ء کو لاہور خدام الدین شیرا نوالہ میں طلب کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خانؒ کی تجویز پر آپ مجلس عمل کے کنویز مقرر ہوئے۔ مجلس عمل کے باضابطہ انتخاب کے لئے فیصل آباد میں ۱۴ جون ۱۹۷۴ء کو اجلاس طلب کیا گیا۔ اجلاس میں تمام رہنمایان ملک و ملت جمع تھے۔ اجلاس کے شروع ہونے سے قبل آپ کمرہ میں تشریف لے گئے۔  تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے۔ کسی ساتھی کو کمرہ میں جانے کی وجہ کا علم نہ ہوا۔ آپ کی صدارت میں اجلاس شروع ہوا۔ جناب آغا شورش کاشمیریؒ کی تجویز پر آپ مجلس عمل کے سربراہ منتخب ہوئے۔ تحریک کامیاب ہونے کے بعد ملتان کی ایک مجلس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ فیصل آباد میں اجلاس شروع ہونے سے قبل میں نے کمرے میں علیحدہ جا کر دو رکعت نماز نفل پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ مولائے کریم! میں مجلس عمل کی صدارت کے لائق نہیں۔ کسی اہل کو یہ امامت سونپ دے۔ لیکن خدا کی شان کہ میری دعا قبول نہ ہوئی۔ بلکہ میں منتخب ہو گیا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مولائے کریم! اس بار عظیم کو اٹھانے کی ہمت و قوت عنایت فرما۔
	اللہ! اللہ!یہ آپ کی شان انکساری تھی کہ لوگ صدارتوں و وزارتوں کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ مگر حضرت مولانا مرحوم کو اس سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا جیسا جلیل القدر دینی و مذہبی رہنما اور منکسر المزاج صدیوں تک پیدا نہیں ہو گا۔
	آپ کی سربراہی میں ۱۹۷۴ء میں تحریک مقدس ختم نبوت کامیاب و کامران ہوئی۔ آپ نے ۱۹۷۴ء کی تحریک کے بعد افریقی ممالک کا دورہ کیا۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے سرکاری آرگن العالم الاسلامی کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک لاکھ مرزائیوں نے اسلام قبول کیا۔ گویا یہ مقدس تحریک جس کی برصغیر میں باضابطہ طور پر بنیاد حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے رکھی تھی۔ اس کی تکمیل آپ کے شاگرد حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے ہاتھوں ہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا بنوریؒ حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے علوم کے امین اور وارث تھے۔ وہ خلوص ‘ تقویٰ میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔
	آپ بیک وقت درالعلوم دیو بند اور تھانہ بھون کے امین تھے۔ روحانی تعلق جہاں حضرت مدنیؒ سے تھا۔ آپ سے بیعت کی تھی۔ سند حدیث کی اجازت ملی تھی۔ وہاں خرقہ خلافت حضرت تھانویؒ نے آپ کو عنایت کیاتھا۔ آپ پچھلے دنوں اسلامی مشاورتی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے اجلاس کی وجہ سے قاہرہ میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے معذوری کا اظہار کیا۔ صرف اکیلے حضرت مولانا مفتی محمودؒ روانہ ہوئے۔ قاہرہ روانگی سے قبل مفتی صاحبؒ حضرت بنوریؒ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter