Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

112 - 196
	سیدنا فاروق اعظمؓ کی وفات پر کہا گیا تھا کہ مرنے والے پر اس کے بچے یتیم ہوتے ہیں۔ مگر حضرت عمرؓ کی وفات سے محمد عربیﷺ کا دین یتیم ہو گیا ہے۔ بجا طور پر آج حضرت بنوریؒ کی وفات پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی وفات سے دنیائے علم و عمل یتیم ہو گئی ہے۔
	حضرت مولانا سید محمو یوسف بنوریؒ ۶ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۶ء پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ سید آدم بنوریؒ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ والد گرامی مولانا محمد زکریا بنوریؒ اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ تکمیل علوم کے لئے برصغیر کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیو بند میں چلے گئے۔ جہاں آپ نے برصغیر کے نامور عالم دین محدث عصر مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے اکتساب فیض کیا۔ بعدہ جامعہ اسلامیہ ڈاھبیل ضلع سورت میں استاذ الحدیث مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۰ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان اعزاز سے پاس کیا۔ پھر پشاور آ گئے۔ ۱۹۳۵ء میں ڈاھبیل کے علماء کی طرف سے علمی و دینی خدمات کے لئے ڈھاکہ گئے۔ ۱۹۳۷ء میں مصر تشریف لے گئے۔
	حضرت مولانا سید محمو یوسف بنوریؒ وہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے سب سے پہلے دارالعلوم دیو بند کے علماء کا مصر میں تعارف کرایا۔ مصر میں آپ کے علم کا سکہ ماناجاتا تھا۔ مصر کے مشہور عالم دین علامہ طنطاویؒ نے تفسیر طنطاوی لکھی۔ آپ نے اس کی بعض جزئیات پر تعمیری علمی تنقید کی۔ علامہ طنطاویؒ نے ان تنقیدیات و تنقیحات کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد حضرت بنوریؒ کو ہمیشہ استاذی المکرم فضیلۃ الشیخ بحر العلوم و الفیوض سے یاد کیا کرتا تھا۔ آ پ نے قیام مصر کے دوران حنفیت کی عظیم خدمت کی۔ مصر کے علماء آپ کو وکیل حنفیت کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ آپ کے علم وفضل کا مصر میں ایسا چرچا ہوا کہ بعد میں شاید ہی مصر کے علماء کی سرکاری‘ غیر سرکاری کانفرنس ہو جس میں آپ کو دعوت نہ دی گئی ہو ۔ آپ جامعہ ازہر مصر کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے ہر سال تشریف لے جاتے۔ اجلاس میں پر مغز ایمان پر ورجہاد آفرین حقائق افروز مقالہ پڑھتے۔ جسے وہاں کی حکومت بڑے اعزاز واکرام کے ساتھ شائع کرتی۔ آپ نے ترمذی شریف کی عربی مبسوط شرح معارف السنن چھ جلدوں میں کتاب الحج تک لکھی۔ جسے مصر میں خوبصورت گلینر پیپر پر شائع کیا گیا۔ قیام مصر کے دوران ہی آپ نے فیض الباری نصب الرایہ سمت قبلہ اور دوسری عربی گراں قدر تصانیف اپنی نگرانی میں شائع کرائیں۔ ۱۹۵۱ء میں ٹنڈوالہ یار خاں کے مدرسہ میں آپ تشریف لائے۔ کچھ عرصہ بعد کراچی نیو ٹائون میں مدرسہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ جب آپ نے بنیاد رکھی تو یہ جگہ جوہڑ نما کھڈہ تھا۔ لیکن آج اصلھا ثابت وفر عھا فی السمائ! کا مصداق ہے۔ برصغیر کے عظیم دینی اداروں میں یہ مدرسہ شمار ہوتا ہے۔ اس وقت تک ہزاروں علماء اس مدرسہ سے فارغ ہو چکے ہیں۔ جس میں سینکڑوں حضرات ہوں گے۔ جن کا تعلق برما‘ انڈیا‘ انڈونیشیا‘ افریقہ‘ نائیجریا‘ ایران‘ کینیا‘ سینی گال‘ افغانستان ‘ مصر ‘ تھائی لینڈ‘ سنگا پور‘ ملائشیاء اور دوسرے ممالک سے ہے۔
	اس وقت آپ کے مدرسہ میں ۲۵ ممالک کے طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتہ فجی آئی لینڈ کے دس طلباء کرام فجی سے آئے ہیں۔ مارچ ۱۹۷۴ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر منتخب ہوئے۔ مجلس کی جنرل کونسل کا ملتان میں اجلاس تھا۔ حضرت مولانا نے امیر بننے سے معذوری ظاہر کی کہ اپنی مصروفیت اور کمزوری کا عذر کیا۔ حضرت مولانا محمد شریف بہاول پوریؒ  دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ آبدیدہ اور کلو گیر لہجے میں عرض کی۔ حضرت!یہ ختم نبوت کا مقدس مشن اور فریضہ حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے سپرد کیا تھا۔ حضرت شاہ جیؒ نے حضرت مولاناقاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ‘ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کو سونپا تھا۔ وہ ایک ایک کرکے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter