Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

109 - 196
ہوتے چلے گئے۔ آپ کے صاحبزادہ مولانا عبدالعلیمؒ کی روایت کے مطابق ایک ایسا وقت آیا کہ آپ کے پاس مدرسہ کے اخراجات کے لئے ایک پائی تک نہ تھی۔ شدید ضرورت اور رقم کے فقدان کے باوجود آپ پریشان ہونے کی بجائے۔ برگد کے درخت کے نیچے مصلے ڈال کر دو رکعت نماز نفل پڑھی۔ دعا سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ خداتعالیٰ نے غیب سے ایسا انتظام کر دیا کہ آپ کے پاس اتنے پیسے جمع ہونے شروع ہو گئے کہ تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد بھی بچ گئے۔
	اس واقعہ کے بعد آخری دم تک آپ کو خدا وند کریم نے مدرسہ کے مالی سلسلہ میں پریشان نہیں ہونے دیا۔ مدرسہ کے یوم تاسیس سے لے کر آج تک کوئی اپیل نہیں کی گئی۔ کوئی سفیر نہیں رکھا گیا۔ توکل علی اللہ سارے اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔ یہی مدرسہ تجوید القرآن جو ایک جوہڑ نما کھڈہ کے کنارے قائم کیا گیا تھا۔ آج عظیم جامع مسجد مدرسہ کی عظیم عمارت اصلہا ثابت و فرعہا فی السما! کی عملی تفسیر پیش کر رہی ہے۔ اس وقت مدرسہ میں سینکڑوں مسافر ومقامی طالب علم ہیں جو کتب حفظ و ناظرہ اور تجوید پڑھ رہے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے سات قابل اساتذہ مقرر ہیں۔ جو پیر جی مرحوم کی وفات کے بعد آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔
	اسی طرح جامع مسجد میں آپ کے صاحبزادے عبدالحفیظ خطبہ اور درس قرآن دیتے ہیں جس سے اہل علاقہ کے ہزاروں مسلمان فیض یاب ہوتے ہیں۔ جب پیر جیؒ یہاں تشریف لائے تھے تو ماحول اچھا نہیں تھا۔ آپ کے خلوص ‘محبت اور دلجوئی کی وجہ سے لوگ پروانہ وار جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اس وقت آپ کے مرید عقیدت اور ارادت مندوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ جن کو آپ نے قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ تعلق کے اسرار سے واقف کیا۔ مگر آپ کے کمال احتیاط اور کمال کسر نفسی کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ آپ نے کسی کو خلافت نہیں دی تھی۔
	تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ئ‘ ۱۹۷۴ء میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اکابرین علماء سے آپ کا خصوصی لگائو تھا۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسین اخترؒ اور دیگر حضرات آپ کے مدرسہ کے سالانہ جلسہ پر تشریف لایا کرتے تھے۔ طبعاً ملک کی مروجہ جھوٹ ونفاق کی سیاست سے آپ کو نفرت تھی۔ تاہم ملک میں اسلامی نظام کے لئے مخلصانہ مساعی میں آپ پیش پیش تھے۔ جمعیت علمائے اسلام سے آپ کا گہرا ربط تھا۔ حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ‘ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا آپ دل سے احترام کرتے تھے۔ موجودہ تحریک نظام آپ نے دیوانہ وار محنت کی ہر جلسے جلوس میں بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود شرکت فرماتے رہے۔وفات سے سے قبل راولپنڈی میں حضرت مفتی صاحبؒ سے دو دفعہ ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ آپ کی مخلصانہ کوشش اور دلی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو سرخرو فرمائے جو اسلامی نطام کے لئے کوشاں ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام سے تعلق کے باوجود ملک کی تمام دینی جماعتوں کے سربراہ آپ کا بے پناہ احترام کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں آپ کے مدرسہ کے سالانہ اجلاس میں تمام حضرات شریک ہوتے تھے۔ ۱۳۲۸ھ سے لے کر ۱۳۹۷ ھ تک ۶۹سال کی عظیم جدوجہد کے بعد یہ عظیم درویش منش‘ فرشتہ سیرت انسان حضرت پیر جی عبداللطیفؒ ۳ جولائی ۱۹۷۳ء کی رات ساڑھے بارہ بجے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا اﷲ وانا الیہ راجعون!
	 وفات کا واقعہ بھی ایمان پرور ہے۔ ساڑھے دس بجے رات دل کی تکلیف ہوئی۔ فوراً وضو کیا گھر تشریف لے گئے سب سے چھوٹی بچی کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔ گھر والوں کو نصیحت و وصیت فرمائی۔ مگر کسی کو محسوس نہ ہونے دیا کہ آپ کا آخری وقت ہے اور جدائی کی گھڑی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter