Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

108 - 196
پوریؒ کے علاوہ سینکڑوں علماء اور ہزاروں عقیدت مند شریک ہوئے۔ حضرت درخواستیؒ‘ حضرت مولانا محمدشریف جالندھریؒ‘ حضرت مولانا غلام محمدؒ‘ حاجی منظورالحقؒ لائل پوری نے ہزاروں پرنم آنکھوں کی موجودگی میں آپ کو لحد میں اتارا۔ حضرت مولانا غلام محمد دین پوریؒ کے قدموں اور حضرت مولانا عبیداﷲ سندھیؒ کے پہلو میں دفن ہوئے۔
	حضرت مولانا مرحوم کو اﷲ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ دیا تھا۔ مرزائیت کا لٹریچر ازبر تھا۔ سنسکرت‘ اردو‘ ہندی‘ پنجابی‘ عربی‘ انگلش اور فارسی کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اﷲ رب العزت نے بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ طبیعت ملنسار تھی۔ بہترین مبلغ‘ کامیاب مناظر اور نامور عالم دین کی حیثیت سے دین کی خدمت کرتے رہے۔ کئی کتابیں لکھیں۔ مسیح علیہ السلام مرزا قادیانی کی نظر میں‘ حضرت خواجہ غلام فرید‘ ختم نبوت اور بزرگان امت‘ ترک مرزائیت۔ ان کے علاوہ کئی مضامین‘ مقالے لکھے۔ ترک مرزائیت کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ یہ کتاب خوب مقبول ہوئی۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید انورشاہ کشمیریؒ نے اپنی کتاب ختم نبوت میں اس کے حوالہ جات نقل کئے ہیں۔ حضرت مولانا مرحوم کی تمام کتب ورسائل مجموعہ احتساب قادیانیت جلد اول میں آگئے ہیں۔ 					(لولاک ۱۸جون۱۹۷۵ئ)
۳…پیر جی عبداللطیف صاحب ؒ
وفات… ۳ جولائی ۱۹۷۷ء
	شیخ الطریقت پیر جی عبداللطیف صاحبؒ ۱۳۲۸ھ رائے پور گجراں بھارت میں حضرت مولانا حافظ صالح محمد صاحبؒ کے گھر پیدا ہوئے۔ حافظ مولانا صالح محمد صاحبؒ گجر برادری سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے علاقے میں دینی و دنیاوی ہر قسم کی شہرت کے حامل تھے۔ موصوف امام الفقہ حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ قسام ازلی نے حضرت پیر جیؒ کے لئے عظیم دینی ماحول کا ابتداء ہی سے انتظام فرما دیا تھا۔ والد گرامی حضرت حافظ صالح محمدؒ نے آپ کی تربیت کی۔ بچپن میں آپ کو جامعہ رشیدیہ رائے پور گجراں میں داخل کرا دیا گیا۔ جامعہ رشیدیہ کے بانی حضرت مفتی فقیر اللہؒ اور مولانا فضل محمد صاحبؒ سے آپ نے قرآن مجید‘ فارسی‘ عربی‘ صرف و نحو‘ فقہ کی تعلیم حاصل کی۔
	باطنی تربیت کے لئے آپ کو قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری ؒ سے بیعت کرا دیا گیا۔ حضرت رائے پوریؒ مولانا حافظ صالح محمدؒ کا بے پناہ دلی احترام کرتے تھے۔ اس تعلق خاص کی وجہ سے حضرت اقدسؒ نے پیر جی عبداللطیفؒ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور آپ کو پیر جی کا خطاب دیا۔ حضرت شیخ صاحبؒ کا دیا ہوا یہ خطاب بعد میں آپ کا جزو نام بن گیا۔ پورے ملک میں آپ کو پیر جی کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ بیعت کے کچھ عرصہ بعد حضرت رائے پوریؒ نے پیر جی کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا۔
	تقسیم کے وقت آپ چیچہ وطنی ضلع ساہیوال میں تشریف لائے۔ ایک جوہڑ نما کھڈہ کے کنارہ پر مدرسہ تجوید القرآن کی بنیاد رکھی۔ پہلے یہاں ایک برگد کا درخت تھا۔ جس کے نیچے بھنگی چرسی اور ملنگوں کا ڈیرہ تھا۔ ان لوگوں نے پیر جیؒ کی مخالفت میں طو مار باندھے۔ مگر آپ یمین ویسار کی پرواہ کئے بغیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ بالآخر ایک ایک کرکے وہ لوگ چلے گئے اور آپ کو دین کی خدمت کرنے کے لئے اچھا خاصا صالح ماحول میسر آ گیا۔ آپ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ آپ کی درویشی‘ امانت و دیانت پر لوگوں کو بھرپور اعتماد تھا۔ بغیر اپیل چندہ کے وہ مسجد مکمل ہو گئی مدرسہ کی طرف توجہ دی تو دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے کمرے تعمیر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter