Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

107 - 196
	حضرت مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ کی وفات کے بعد حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ صدر اور حضرت مولانا لال حسین اخترؒ مجلس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس دوران انگلستان کا کامیاب دورہ کیا۔ بیرونی دنیا میں کام ہوا۔ اللہ رب العزت نے بڑی کامیابی عنایت فرمائی۔ مرزائیت کی قلعی کھل گئی۔ ان دنوں قادیانی گرو مرزا ناصر احمد انگلستان کے دورے پر گئے۔ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا۔ مناظرہ کا چیلنج دیا۔ مرزا ناصر احمد دورہ نا مکمل چھوڑ کر واپس آ گئے۔ حضرت مولانا کا چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ حضرت مولانانے فجی آئی لینڈ‘ سعودی عرب‘ ایران اور عراق کا بھی تبلیغی دورہ کیا۔ انگلستان میں مجلس تحفظ نبوت کا دفتر خریدا۔ اسی طرح فجی آئی لینڈ میں جماعت کا قائم کردہ مدرسہ تعلیم القران کام کر رہا ہے۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی وفات کے بعد حضرت مولانا لال حسین اخترؒ جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔ چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس تھی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ مہمان خصوصی کے استقبال کے لئے سٹیج سے اترے۔ سڑک پر اندھیرا تھا۔ گرے سخت چوٹ لگی۔
	یہ۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء کا واقعہ ہے چنیوٹ سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ پھر میو ہسپتال جنرل ہسپتال لاہور رہے۔ ایک دن بیماری کی حالت میں حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے حوالہ پوچھا۔ فی الفور آپ نے کتاب صفحہ‘ سطر ‘ عبارت تک سنا دی۔ حضرت مولانا محمد شریفؒ نے کہا کہ حضرت مولانا! اگر مرزائیوں سے مناظرہ کرنا پڑے تو آپ اسی حالت میں کر سکیں گے؟۔ آپ نے فرمایا کہ میری چار پائی لے جا کر مناظرہ گاہ میں رکھ دی جائے۔ پہلے تو میر ا نام سن کر مرزائی مقابلہ میں نہیں آئیں گے۔ اگر جرأت کی تو منہ کی کھائیں گے۔
	ایک دن حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ پشاور کے دورہ سے واپس آئے۔ ہائی کورٹ پشاور کے کیس کی تفصیلات بتائیں کہ عنقریب اس کی تاریخ نکلنے والی ہے۔ حضرت مولانا پر یہ سنتے ہی گریہ طاری ہوگیا۔ انہیں صدمہ تھا کہ میں نے بہاولپور‘ راولپنڈی اور کیمل پور کی عدالتوں میں مرزائیوں کا کفر ثابت کیا۔ مگر آج بیماری کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ پشاور نہیں جا سکتا۔ ورنہ وہاں بھی جا کر ہائی کورٹ میں حضور سرور کائنات ﷺ کی ختم نبوت کی نمائندگی کرتا اور مرزائیوں کے کفر کو ہائی کورٹ میں ثابت کرکے ہائی کورٹ سے ان کے کفر کا فیصلہ صادر کراتا۔
	انہی دنوں کشمیر اسمبلی میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کو خبر ہوئی تو اتنے خوش ہوئے جس کا بیان کرنا زبان قلم کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بار بار فرماتے  فزت و رب الکعبۃ! رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوں۔ اپنی زندگی مرزائیوں کی اقلیت کا فیصلہ سن کر جا رہا ہوں۔ جس کے لئے میرے اکابر نے اپنی زندگیاں خرچ کر دی تھیں۔ مگر وہ حضرات یہ حسرت اپنے سینوں میں لے کر اس دنیا سے روانہ ہو گئے۔ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ ۶ ماہ تک زیرعلاج رہے۔ چنانچہ ۱۰ جون ۱۹۷۳ء کو لاہور مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں انتقال فرماگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون!
	حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کی یہ آخری خواہش بھی پوری ہوگئی کہ اﷲ تعالیٰ میرا انتقال مجلس کے دفتر میں کریں۔ لاہور میں آپ کے دو جنازے ہوئے جو حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ اور حضرت مولانا عبیداﷲ انورؒ نے پڑھائے۔ خیبرمیل کے ذریعے آپ کے جنازہ کو دین پور شریف لایا گیا۔ لاہور سے مجلس کے علماء اور حضرت مولانا کے عقیدت مند ہزاروں ساتھیوں نے اشکبار آنکھوں سے آپ کو الوداع کیا۔ خانپور میں حضرت مولانا محمدعبداﷲ درخواستیؒ نے استقبال کیا۔ دین پور شریف میں حضرت درخواستیؒ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت قطب العالم مولانا عبدالہادی دین 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter