Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

16 - 17
***
صورت اور حقیقت
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی 

صورت اور حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے
ایک چیز کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت ، ان دونوں میں بہت بڑی مشابہت کے باوجود بہت بڑا فرق بھی ہوتا ہے ، آپ روزہ مرہ کی زندگی میں صورت او رحقیقت اور ان کے فرق سے خوب واقف ہیں ۔ میں اس کی دو مثالیں دیتا ہوں، آپ نے مٹی کے پھل دیکھے ہوں گے جو بالکل اصلی پھل معلوم ہوتے ہیں، لیکن صورت وحقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اصل آم کوئی اور چیز ہے اور مٹی کا نقلی آم کوئی اور چیز ، مٹی کے آم میں نہ اصلی آم کا ذائقہ ہے، نہ خوشبو، نہ رس، نہ نرمی، نہ اس کی خاصیتیں، صرف آم کی شکل ہے او راس کا رنگ وروغن، اس لیے اس کو آم کہیں گے، مگر مٹی کا آم، یہ مٹی کا آم دیکھنے بھرکا ہے، نہ کھانے کا ،نہ سونگھنے کا ،نہ ذائقہ ،نہ خوشبو۔
آپ مردہ عجائب خانہ میں گئے ہوں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہاں سب درندے اور سب جانور موجود ہیں ، شیر بھی ہے اور ہاتھی بھی ،تیندوا بھی اور چیتا بھی، مگر بے حقیقت، بھُس بھری ہوئی کھالیں، جن میں نہ کوئی جان ہے ،نہ طاقت شیر ہے، مگر نہ اس کی آواز ہے، نہ غصہ، نہ طاقت ہے، نہ ہیبت۔
حقیقت کے مقابلہ میں صورت کی شکست
اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صورت کبھی حقیقت کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ، صورت سے حقیقت کے خواص کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے، صورت کبھی حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی، صورت کبھی حقیقت کا بوجھ سنبھال نہیں سکتی، جب صورت کسی حقیقت کے مقابلے میں آئے گی، اس کو شکست کھانا پڑے گی، جب صورت پر کسی حقیقت کا بوجھ ڈالا جائے گا صورت کی پوری عمارت زمین پر آرہے گی۔
صورت اور حقیقت کا یہ فرق ہر جگہ نمایاں ہو گا۔ ہر جگہ صورت کو حقیقت کے سامنے پسپا ہونا پڑے گا۔ یہاں تک کہ عظیم سے عظیم اور مہیب سے مہیب صورت اگر حقیر سے حقیر حقیقت کے مقابلہ میں آئے گی تو اس کو مغلوب ہونا پڑے گا۔ اس لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی حقیقت ہر بڑی سے بڑی صورت کے مقابلہ میں زیادہ طاقت رکھتی ہے ، حقیقت ایک طاقت ہے، ایک ٹھوس وجود ہے ، صورت ایک خیال ہے ، دیکھیے! ایک چھوٹا سا بچہ اپنے کمزور ہاتھ کے اشارہ سے ایک بھُس بھرے مردہ شیر کو دھکا دے سکتا ہے ، اس کو زمین پر گرا سکتا ہے، اس لیے کہ بچہ خواہ کتنا ہی کمزور سہی ایک حقیقت رکھتا ہے، شیر اس وقت صرف صورت ہی صورت ہے ، بچہ کی حقیقت شیر کی صورت پر آسانی سے غالب آجاتی ہے۔
نفس کا دھوکا
یہ عالم حقائق کا مجموعہ ہے، الله تعالیٰ نے ہر چیز میں ایک حقیقت رکھی ہے، مال کی بھی ایک حقیقت ہے اس کی محبت طبعی اور اس کی خواہش فطری ہے اگر حقیقت نہ ہوتی تو اس کے متعلق احکام کیوں ہوتے ۔ اس میں کشش کیوں ہوتی ؟ اولاد ایک حقیقت ہے اس سے طبعی محبت اور فطری تعلق ہوتاہے ، اگر اولاد ایک حقیقت نہ ہوتی تو شریعت میں اس کی پرورش ونگہداشت کے احکام وفضائل کیوں ہوتے؟ اسی طرح طبعی ضروریات او رخواہشات کی بھی ایک حقیقت ہے، ان حقیقتوں پر ایک بالاتر، قوی تر حقیقت ہی غالب آسکتی ہے، کوئی صورت غالب نہیں آسکتی۔ یہ حقائق کتنے باطل آمیز سہی، ان پر فتح حاصل کرنے کے لیے اسلام وایمان کی حقیقت درکار ہے، اسلام کی صورت کتنی ہی مقدس سہی، ان پر فتح حاصل نہیں کرسکتی ، اس لیے کہ ادھر حقیقتیں ہیں، ادھر صرف صورت ، آج ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ صورت اسلام ادنیٰ ادنیٰ حقائق پر غالب نہیں آرہی کہ صورت نماز ہم سے ادنیٰ ترغیبات چھڑانے سے قاصر ہے، ادنی عادات پر غالب آنے سے عاجز ہے ، ہم کو موسم کی ادنیٰ سختی اورحقیر ترین خواہش کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا نہیں کرتی۔ آپ کا یہ کلمہ جو کبھی گردن کٹوا دینے کی طاقت رکھتا تھا، جو مال اور اولاد کو الله کی راہ میں بے تکلف قربان کرادینے کی قوت رکھتا تھا ، جو وطن چھڑا دینے او رتختہ دار پر چڑھادینے کی قوت رکھتا تھا، آج وہ ان سردیوں میں صبح کی نماز کے لیے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جو کلمہ زندگی بھر کی منھ لگی شراب کو شریعت کے حکم پر ہمیشہ کے لیے چھڑا سکتا تھا، آج اگر ضرورت پڑ جائے تو آپ کی ادنیٰ مرغوب چیز یا معمولی عادت بھی نہیں چھڑا سکتا، اس لیے کہ وہ کلمہ کی حقیقت تھی، جس کے کارنامے آپ تاریخ اسلام میں پڑھتے ہیں ، یہ کلمہ کی صورت ہے جس کی بے اثری آپ دن رات دیکھتے ہیں، ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ صحابہٴ کرام کی تاریخ کو اپنے اوپر اوڑھنا چاہتے ہیں ، اس کو اپنے اوپر منطبق کرنا چاہتے ہیں ، جب وہ منطبق نہیں ہوتی ، جب وہ لباس ہمارے اوپر راست نہیں آتا، جب جگہ جگہ جھول پڑ جاتے ہیں تو ہم شکایت کرتے ہیں ، تعجب کرتے ہیں کہ کلمہ وہ بھی پڑھتے تھے ہم بھی پڑھتے ہیں ، نماز وہ بھی پڑھتے تھے ہم بھی پڑھتے ہیں، پھر کیوں اسی طرح کے واقعات ظہور میں نہیں آتے؟ کیوں اسی طرح کے نتائج وثمرات برآمد نہیں ہوتے؟ 
دوستو اور بزرگو! اپنے نفس کو دھوکہ نہ دو ، وہاں کلمہ کی حقیقت تھی، ایمان کی حقیقت تھی، یہاں کلمہ کی صورت ہے ، ایمان کی صورت ہے ، نماز کی صورت ہے ، جس طرح املیکے بیج سے آم کے پھل کی توقع فضول ہے، اسی طرح صورت سے حقیقت کے خواص کی امید بے کار ہے اور فریب نفس۔
حقیقت اسلام
حضرت خبیب کا واقعہ آپ نے سنا ہے، پھانسی کے تختہ پر ان کو چڑھایا گیا، چاروں طرف سے نیزوں کی نوکوں نے ان کو کو چنا شروع کیا، برچھیوں نے ان کے جسم کو چھلنی کر دیا، وہ صبر واستقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے ، عین اس حالت میں ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ تمہاری جگہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہوں ؟ وہ تڑپ کر جواب دیتے ہیں کہ میں تو اس پر بھی راضی نہیں کہ مجھے چھوڑ دیا جائے اور حضور کے تلوے میں کوئی کانٹا بھی چبھے۔ 
حضرات! کیا یہ صورت اسلام تھی جس نے ان کو تختہ دار پر ثابت قدم رکھا اور ان کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے؟ نہیں ، وہ اسلام کی حقیقت تھی، جوان کے ہر زخم پر مرہم رکھتی تھی ، جو ہر نیزے کی چبھن پر ان کے سامنے جنت کا نقشہ لاتی تھی اور انہیں دکھاتی تھی کہ یہ تمہاری اس تکلیف کا صلہ ہے، بس چند لمحوں کا معاملہ ہے، یہ جنت تمہاری منتظر ہے ، یہ خدا کی رحمت تمہاری منتظر ہے ، اگر تم نے اس فانی جسم کی اس فانی تکلیف کو گوارا کر لیا تو غیر فانی زندگی کی غیر فانی راحت ہمارا حصہ ہے، یہ عشق ومحبت کی حقیقت تھی ، جب ان سے کہا گیا کہ کیا تم کو یہ منظور ہے کہ تمہاری جگہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہوں؟ تو حضور کی صورت حقیقت بن کر ان کے سامنے آگئی اور ان کو گوارا نہیں ہوا کہ اس جسم اقدس کو ایک کانٹے کی بھی تکلیف ہو۔
یہ چند پاک اور بلند حقائق تھے، جو دردو تکلیف کی حقیقت پر غالب آئے، صورت اسلام میں اس حقیقی دردوتکلیف کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ پہلے تھی نہ اب ہے ، صورت اسلام تو تکلیف کے تصورات اور خیالات کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔
آپ نے سنا ہے کہ حضرت صہیب!رومی ہجرت کرکے جانے لگے تو کفار مکہ نے ان کو راستہ میں روکا اور کہا کہ صہیب! تم جاسکتے ہو، مگر یہ مال نہیں لے جاسکتے، جو تم نے ہمارے شہرمیں پیدا کیا ہے ، اب حقیقت ِ اسلام کا حقیقتِ مال سے مقابلہ؟؟ حقیقتِ اسلام اپنی مقابل حقیقت پر غالب آئی، صورتِ اسلام ہوتی تو وہ حقیقت مال کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔
آپ نے سنا ہے کہ حضرت ابو سلمہ جب ہجرت کرکے جانے لگے تو کفار ان کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ تم جاسکتے ہو، مگر ہماری لڑکی ام سلمہ کو نہیں لے جاسکتے، اب حقیقتِ اسلام کا ایک حقیقت سے مقابلہ تھا، وہ حقیقت کیا تھی ؟ بیوی کی محبت، جو ایک حقیقت تھی، لیکن اسلام کی حقیقت مومن کے دل میں ہر حقیقت سے زیادہ طاقتور اور گہری ہوتی ہے، انہوں نے بیوی کو الله کے حوالہ کیا اور تن تنہا چل دیے، کیا صورتِ اسلام میں اتنی طاقت ہے کہ آدمی بیوی کو چھوڑ دے ؟ ہم نے تو دیکھا ہے کہ لوگوں نے بیوی اور بچوں کے لیے کفر تک اختیار کر لیا اور صورتِ اسلام کی ذرا پروا نہیں کی ہے۔
آپ نے سنا ہے کہ حضرت ابو طلحہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے باغ میں ایک چھوٹی سے چڑیا آگئی اور اس کو پھر جانے کا راستہ نہ ملا، حضرت ابو طلحہ کی توجہ ہٹ گئی، نماز کے کے بعد انہوں نے پورا باغ صدقہ کر دیا۔ اس لیے کہ حقیقتِ نماز اس شرکت کو گورا نہیں کرسکتی تھی ، باغ کی بھی ایک حقیقت ہے، اس کی سر سبزی ، اس کی فصل، اس کی قیمت ایک حقیقتہے ، اس حقیقت کا مقابلہ صورت نماز نہیں کرسکتی تھی ، اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت حقیقتِ صلوٰة ہی میں ہے، آج ہماری آپ کی نماز ادنیٰ ادنیٰ حقیقتوں کا مقابلہ اس لیے نہیں کرسکتی کہ وہ حقیقت سے خالی اور ایک صورت ہے۔
آپ نے سنا ہو گا کہ یرموک کے میدان میں چند ہزار مسلمان تھے اور کئی لاکھ رومی، ایک عیسائی ( جو مسلمانوں کے جھنڈے کے نیچے لڑ رہا تھا) کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ رومیوں کی تعداد کا کچھ ٹھکانا ہے ؟ حضرت خالد  نے کہا خاموش! خدا کی قسم اگر میرے گھوڑے اشقرکے سُم درست ہوتے تو میں رومیوں کو پیغام بھیجتا کہ اتنی ہی تعداد اور میدان میں لے آئیں۔
حضرات! حضرت خالد کو یہ اطمینان واعتماد کیوں تھا اور وہ رومیوں کی تعداد کو بے حقیقت کیوں سمجھتے تھے ؟ اس لیے کہ وہ حقیقت اسلام رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس کے مقابل صرف رومیوں کی صورتیں ہیں ، جو ہر طرح کی حقیقت سے خالی ہیں، یہ لاکھوں صورتیں اسلام کی حقیقت کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں۔
ہم یقینا کلمہ پڑھتے ہیں ہم میں سے بہت سے لوگ کلمہ کے معنی سے بھی واقف ہیں ، لیکن حقیقت کلمہ کوئی اور چیز ہے، وہ ان الفاظ اور معنی سے بہت بلند ہے، کلمہ کی یہ حقیقت صحابہ کرام کو حاصل تھی، جب وہ کہتے تھے ”لا الہ الا الله“ تو واقعتا سمجھتے تھے کہ الله کے سوا کوئی محبت وخوف کے لائق نہیں، الله کے سوا کوئی امیدوتوقع کے قابل نہیں، الله کے سوا کسی کی ہستی کوئی ہستی نہیں، کیا یہ سب حقیقتیں ہم سب کے دل میں اتری ہوئی ہیں، ہمارے دماغ کے اندر بسی ہوئی ہیں ، ہماری زندگی کے اندر جڑ پکڑے ہوئے ہیں؟ اگر ہم ان حقیقتوں سے واقف بھی ہوتے تو لا الہ الا الله کہتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا کہ ہم کتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں، جس کو اس حقیقت کا ذرا بھی احساس ہے اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہ کتنا بڑا دعویٰ کر رہا ہے #
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را
ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت برحق ہے۔ جنت ودوزخ برحق ہیں، مرنے کے بعد یقینا زندہ ہونا ہے، لیکن کیا سب کو ایمان کی وہ حقیقت حاصل ہے، جو صحابہ کو حاصل تھی؟ اس حقیقت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابی کھجور کھاتے کھاتے پھینک دیتا ہے او رکہتا ہے کہ ان کے ختم ہونے کا انتظار کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے اور فوراً بڑھ کر شہادت حاصل کرتا ہے ، اس لیے کہ جنت اس کے لیے ایک حقیقت تھی اور وہ حقیقت اس کے سامنے تھی۔ اس کی حقیقت جس کو حاصل تھی وہ قسم کھا کر کہتا تھا کہ مجھے اُحد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ یرموک کے میدان میں ایک صحابی ابو عبیدہ کے پاس آتے ہیں او رکہتے ہیں کہ امیر! میں سفر کے لیے تیار ہوں، کوئی پیغام تو نہیں کہنا ہے ؟ وہ کہتے ہیں، ہاں! رسول الله صلی الله وعلیہ سلم کی خدمت میں ہمارا سلام عرض کرنا او رکہنا کہ آپ نے ہم سے جو وعدے فرمائے تھے وہ سب پورے ہو رہے ہیں ۔ یہ ہے یقین کی حقیقت ، اس حقیقت پر کون سی قوت غالب آسکتی ہے اور ایسی حقیقت رکھنے والی جماعت پر کون سی جماعت غالب آسکتی ہے ؟
ہماری خطا
آپ تاریخ اسلام میں مسلمانوں کی ناکامی کی تلخ داستانیں پڑھتے ہیں ، یہ حقیقت کی شکست کے واقعات نہیں، یہ سب صورت کی شکست وہزیمت کے واقعات ہیں، صورت نے ہم کو ہر معرکہ میں رسوا وذلیل کیا ہے، لیکن خطا ہماری تھی ، ہم نے غریب صورت پر حقیقت کابوجھ رکھنا چاہا، وہ اس بوجھ کو سہار نہ سکی۔ خود بھی گری اور عمارت کو بھی زمین پر لے آئی۔
حقیقتِ اسلام مدتوں سے میدان میں آئی ہی نہیں
عرصہٴ دراز سے صورت اسلام معرکہ آزما ہے او رشکست پر شکست کھارہی ہے او رحقیقتِ اسلام مفت میں بد نام اور دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہو رہی ہے ، دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم اسلام کو شکست دے رہے ہیں ، اس کو خبر نہیں کہ حقیقتِ اسلام تو مدت سے میدان میں آئی ہی نہیں، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی صرف صورت ہے، نہ کہ اسلام کی حقیقت۔
یورپ کی قوموں کے مقابلہ میں ترکی میدان میں آیا، لیکن اسلام کی ایک نڈھال صورت لے کر، یہ نحیف ونزار صورت مقابلہ میں ٹھہرنہ سکی، فلسطین میں تمام عرب قومیں اور سلطنتیں مل کر یہودیوں کے مقابلہ میں آئیں، لیکن حقیقتِ اسلام ، شوق شہادت، جذبہٴ جہاد او رایمانی کیفیات سے اکثر عاری، عربی قومیت کے نشہ میں سرشار، صرف اسلام کے نام ونسبت سے آراستہ ، نتیجہ یہ ہوا کہ اس بے روح صورت نے یہودیوں کی جنگی قوت وتنظیم واسلحہ کی حقیقت سے مات کھائی، اس لیے کہ صورت حقیقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، یہودی ایک حقیقت رکھتے تھے، اگرچہ سرتاپامادی ، عرب صرف ایک صورت رکھتے تھے ، اگرچہ مقدس ، لیکن صورت صورت ہے اور حقیقت حقیقت ہے۔
رحمت ونصرت، تائید واعانت کے وعدے حقیقت سے متعلق ہیں
اسلام کی صورت الله کے یہاں ایک درجہ رکھتی ہے، اس لیے کہ اس میں مدتوں اسلام کی حقیقت بسی ہوئی رہی ہے اور یہ اسلام کی حقیقت کا قالب ہے ، اسلام کی صورت بھی الله کو پیاری ہے، اس لیے کہ اس کے محبوبوں کی پسندیدہ صورت ہے ، اسلام کی صورت بھی الله کی ایک بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ اس صورت سے حقیقتِ اسلام کی طرف منتقل ہونا نسبتہً آسان ہے، جہاں صورت بھی نہیں وہاں حقیقت تک پہنچنا بہت مشکل ہے ، لیکن دوستو! الله تعالیٰ کی رحمت ونصرت کے وعدے دنیا میں او رمغفرت ونجات او رترقی درجات کے وعدے آخرت میں سب حقیقت سے متعلق ہیں، نہ کہ صورت سے ، حدیث میں ہے﴿ ان الله لا ینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم ٰ﴾ الله تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا ہے وہ تمہارے دلوں او راعمال کو دیکھتا ہے ، جو لوگ صرف صورت کے حامل تھے اورحقیقت سے یکسر خالی تھے، ان کو وہ ان لکڑیوں سے تشبیہ دیتا ہے جو کسی سہارے رکھی ہوئی ہیں، وہ فرماتا ہے:
﴿واذارأیتھم تعجبک اجسامھم وان یقولوا تسمع لقولھم کأنھم خشب مسندة یحسبون کل صیحة علیھم﴾․
اگر تم ان کو دیکھو تو تم کو ان کے جسم بڑے بھلے معلوم ہوں گے وہ بات کریں گے تو تم کان لگا کر سنو گے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ لکڑیاں ہیں، جو سہارے سے رکھی ہوئی ہیں ، ہر آواز کو وہ اپنے خلاف ہی سمجھتے ہیں۔
دین کے اقتدار او رامن واطمینان کا وعدہ
دنیا میں بھی فتح ونصرت وتائید واعانت کے وعدے حقیقت ایمان ہی کے ساتھ مشروط ہیں ، صاف فرماتا ہے:﴿ولاتھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین﴾․
سست وغمگین نہ ہو، تم ہی سر بلند ہو اگر تم ( حقیقتاً) صاحب ایمان ہو۔
ظاہرہے کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں ہی کو ہے، لیکن پھر بھی شرط لگائی ہے کہ اگر تم میں حقیقت ایمان پائی جاتی ہے تو پھر تمہاری سر بلندی میں شک نہیں۔
دوسری آیت میں بھی صفت ایمان ہی پر اپنی مدد کا وعدہ فرمایا:﴿انا لننصر رسلنا والذین اٰمنوا فی الحیوٰة الدنیا ویوم یقوم الاشھاد﴾․ 
ہم ضرور ضرور اپنے پیغمبروں کی مدد کریں گے او ران لوگوں کی جو صفت ایمان سے متصف ہیں، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ،جب الله کے گواہ کھڑے ہوں گے۔
اسی حقیقت ایمان پر خلافت ارضی، دین کے اقتدار اور امن واطمینان کا وعدہ فرمایا ہے:
﴿وعد الله الذین اٰمنوا منکم وعملوا الصلحٰت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امناً﴾․
ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے عمل صالح ہیں الله کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین کی خلافت سے سرفراز کرے گا، جیسے ان لوگوں کو سرفراز کیا ،جوان سے پہلے تھے او ران کے دین کو، جو الله کا پسندیدہ ہے، اقتدار عطا فرمائے گا اور ان کے خوف کو امن سے بد ل دے گا۔
لیکن باوجود اس کے کہ یہ سارے وعدے ایمان وعمل صالح کی بنیاد پر تھے، پھر یہ شرط فرمائی کہ یہ ضروری ہے کہ ا ن میں اسلام کی حقیقت (توحید کامل) پائی جائے۔
﴿یعبدوننی لا یشرکون بی شیئاً﴾․ (النور) اس شرط سے کہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔
امت کی سب سے بڑی خدمت
پس اس وقت سب سے بڑا کام او رامت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کے عموم اور سواد اعظم کو صورت سے حقیقت کی طرف سفر کرنے کی دعوت دی جائے ، صورت اسلام میں روح اسلام اور حقیت اسلام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ، اس وقت امت کی سب سے بڑی احتیاج یہی ہے، اسی سے اس کے سب حالات اور اس کے نتیجہ میں دنیا کے حالات بدلیں گے، دنیا کے حالات اس امت کے حالات کے اور اس امت کے حالات اس حقیقت کے تابع ہیں ، یہ امت حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں زمین کا نمک ہے ، دیگ کا مزا نمک کے تابع ہے او رنمک کا مزا اس کی نمکینی پر موقوف ہے، اگر نمک کی نمکینی ختم ہو جائے تو وہ نمک کس کام کا؟ اور پھر کھانے کو خوش ذائقہ بنانے والی چیز کہاں سے آئے گی؟ آج ساری زندگی بے کیف اور بے روح ہے، اس لیے کہ اس امت کی بڑی تعداد حقیقت سے عاری اور روح سے خالی ہے ، پھر زندگی میں روح اور حقیقت کہاں سے آئے گی؟
دوسری قوموں کی زندگی کی جڑیں خشک ہو چکی ہیں
دنیا کی اور قومیں بھی ہیں، جو ہزاروں برس سے اپنے مذہب کی حقیقت اور روح سے خالی ہو چکی ہیں او ران میں صرف چند بے روح رسمیں اور چند بے حقیقت صورتیں رہ گئی ہیں ، لیکن ان قوموں کی دینی وروحانی زندگی ختم ہو چکی ہے ، ان کی زندگی کے سوتے خشک ہو چکے ہیں ۔آج دنیا کی کوئی طاقت، کوئی شخصیت، کوئی اصلاح ان میں دینی زندگی اور حقیقی روح پیدا نہیں کرسکتی، ایک نئی قوم کا بن جانا ان قوموں کی دوبارہ زندگی سے آسان ہے، جن لوگوں نے ان قوموں میں از سر نو دینی زندگی اور اخلاقی روح پیدا کرنے کی انتہائی جدوجہد کی ، وہ زمانہ حال کے وسائل اور سہولتوں کے باوجود سخت ناکام رہے ، اس لیے کہ درحقیقت ان میں ایمان ویقین او ردینی روح پیدا کرنے کا سرچشمہ عرصہ ہوا خشک ہو چکا ہے ، زندگی کا سرا اور سر رشتہ کٹ چکا ہے، جب کسی درخت کی جڑ خشک ہو چکی ہو اور اس کی رگیں زمین چھوڑ چکی ہوں تو اس کی پتیوں کو پانی دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔
مسلمانوں کے لیے حقیقت کی طرف ترقی کرنے کی ضرورت
لیکن اس امن کی زندگی کا سرچشمہ موجود ہے، اس امت کی زندگی کا سرا موجود ہے اور یہ امت اس سے وابستہ ہے ، وہ ہے الله اور اس کے رسول پرایمان، آخرت اور حساب کتاب کا یقین، لا الہ الا الله محمد رسول الله کا اقرار۔ اس امت کا اس گئی گزری حالت میں بھی الله اور اس کے رسول سے جو تعلق ہے وہ دوسری قوموں کے خواص کو بھی نصیب نہیں، اس انحطاط کے زمانہ میں بھی جتنی حقیقت اس میں پائی جاتی ہے وہ دوسری قوموں میں مفقود ہے ، اس کی کتاب آسمانی ( قرآن مجید) محفوظ ہے اور اس کے ہاتھوں میں ہے ، اس کے پیغمبر کی سیرت اور زندگی جو آج بھی ہزاروں لاکھوں دلوں کو گرمادینے اور زمانہ کے خلاف لڑا دینے کی طاقت رکھتی ہے مکمل طریقہ پر موجود ہے اور آنکھوں کے سامنے ہے ۔ صحابہٴ کرام کی زندگی اور ان کی زندگی کا انقلاب اور ان کی کوششوں سے دنیا کا انقلاب نظر کے سامنے موجود ہے۔ یہ سب زندگی کے سرچشمے ہیں ، یہ سب حرارت اور روشنی کے مرکز ہیں۔ صرف اس کی ضرورت ہے کہ اس امت میں صورت سے حقیقت کی طرف ترقی کی ضرورت کا عام احساس پیدا ہو ، زندگی کے ان مرکزوں سے تعلق پیدا ہو اورمادی ومعاشی انہماک سے اس کو ان مرکزوں سے اکتساب فیض کی فرصت ملے اور وہ اپنی اصلی زندگی کے چند دن گزار کر اپنی زندگی میں انقلاب او راپنی پوری زندگی میں ایمان واحتساب اور الله کے وعدوں پر یقین اور اس کی رضا کے شوق میں کام کی روح پیدا کرے۔
ہماری دعوت صرف یہ ہے کہ :﴿ یا ایھا الذین اٰمنوآ اٰمنوا﴾ اے مسلمانو! صورت اسلام سے حقیقت ایمان کی طرف ترقی کرو۔
ہمارے مستقل ہفتہ وار اجتماعات جن کی ہم شہر شہر اور قصبہ قصبہ دعوت دیتے ہیں، اسی لیے ہیں کہ ہر آبادی میں ایسے مرکز قائم ہوں جہاں مسلمان جمع ہو کر اپنی زندگی کا بھولا ہوا سبق یاد کریں ، جہاں سے انہیں حقیقت اسلام کا پیغام ملے، جہاں سے ان کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی کا سراغ لگے، جہاں سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم اور اصلی اسلامی زندگی کے واقعات اور دین کی بنیادی واصولی دعوت کے ذریعہ ان میں دینی جذبات واحساسات بیدار ہوں اوران میں دینی انقلاب کی خواہش پیدا ہو ، اگر یہ مرکز اور اس طرح کے اجتماعات نہ ہوئے تو بڑے پیمانے پر اور طاقت ور اور مؤثر طریقہ پر امت کی اکثریت میں حقیقت اسلام اور روح اسلام پیدا ہونے کی کیا توقع ہے؟
پھر ہم مسلمانوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ کچھ دن حقیقت اسلام کو حاصل کرنے اور اس کو اپنے میں راسخ کرنے کے لیے اپنے اوقات فارغ کریں اور اس ماحول سے نکل کر جس میں حقیقت اسلام پنپنے اور ایمانی کیفیات ابھرنے نہیں پاتیں، ایک ایسے ماحول میں وقت گزاریں جہاں اصلی زندگی کی جھلک موجود ہو، جہاں علم وذکر، دعوت وتبلیغ، خدمت وایثار، تواضع وخلق، محنت وجفاکشی کی زندگی ہو، ہم اس وقت مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے جماعتوں کی شکل میں نکلنے کی دعوت دیتے ہیں، اگر مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کو جزو زندگی بنا لے اور اس کا رواج پڑ جائے تو ہم کو الله کی ذات سے امید ہے کہ کروڑوں مسلمانوں تک حقیقت اسلام کا یہ پیغام پہنچ جائے گا اور لاکھوں مسلمانوں کی زندگی میں دینی روح، ایمان واسلام کی حقیقت اوراس کی صفات وکیفیات پیدا ہو جائیں گی۔
حقیقت اسلام دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے
حضرات! ہم اس سے بالکل مایوس نہیں ہیں کہ اس زمانہ میں حقیقتِ اسلام پیدا نہیں ہو سکتی، ہم کسی ایسے زمانہ اور انقلاب کے قائل نہیں جس میں حقیقت اسلام دوبارہ پیدا نہیں کی جاسکتی ، آپ پیچھے مڑ کر دیکھیے ، تاریخ کے سمندر میں آپ کو حقیقت اسلام کے جزیرے بکھرے ہوئے نظر آئیں گے، بارہا حقیقت اسلام ابھری اور ایمانی کیفیات پیدا ہوئیں، وہی الله اور رسول پر یقین واعتماد، وہی شہادت کا ذوق ، جنت کا شوق ، وہی دنیا پر آخرت کی ترجیح۔ جب کبھی او رجہاں کہیں حقیقتِ اسلام پیدا ہو گئی اس نے ظاہری قرائن وقیاسات کے خلاف حالات پر اور مخالف طاقتوں پر فتح پائی ہے، تمام گزرے ہوئے واقعات کو دہرادیا ہے اور قرن اول کی یاد تازہ کر دی ہے۔
حقیقت اسلام میں آج بھی طاقت ہے 
حقیقتِ اسلام اور حقیقت ایمان میں آج بھی وہی طاقت ہے جو ابتدائے اسلام میں تھی، آج بھی اس سے وہ تمام واقعات ظاہر ہوسکتے ہیں جو اس سے پہلے ظاہر ہوئے ہیں۔آج بھی اس کے سامنے دریا پایاب ہو سکتے ہیں۔ سمندر میں گھوڑے ڈالے جاسکتے ہیں، درندے جنگل چھو ڑ کر جاسکتے ہیں، بھڑکتی ہوئی آگ گلزار بن سکتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ حقیقت ابراہیمی موجود ہو #
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

Flag Counter