Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1431ھ

ہ رسالہ

13 - 17
***
نیکی ایک پاکیزہ جذبہ ہے
محترم صابر جمال

نسلِ انسانی کی بھلائی کے لیے قانونِ فطرت مسلسل مصروفِ عمل ہے، اس کی بنیاد نیکی جیسے پاکیزہ جذبے پر رکھی گئی ہے، کسی بھی معاشرے کو بُرائی سے پاک رکھنے کے لیے نیکی جیسے عمل کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے اور ضرورت رہے گی، حُسنِ نیت سے اور حُصول ثواب کے لیے کیے جانے والا ہر عمل جس میں ہمدردی شامل ہو، نیکی کے زمرے میں آتا ہے ، نیکی اور بدی انسان ہی کی وجہ سے معاشرے میں فروغ پاتی ہیں ، ہر مذہب ہر معاشرے میں نیکی کا تصور پایا جاتا ہے لیکن اسلام میں نیکی کو بہت زیادہ فوقیت حاصل ہے اور اسلام میں نیکی کے فروغ کے لیے بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، اسلام بدی مٹانے کا درس دیتا ہے اس لیے اسلامی معاشرے کا فرد ہونے کے ناتے نیکی ہماری شان بھی ہے اور ہمارے لیے ڈھال کا کام بھی کرتی ہے کیوں کہ نیکی کے عمل کو دھراتے رہنے سے انسان گناہ کی زد میں آنے سے محفوظ رہتا ہے ، نیکی ایک ایسا عمل ہے جو اپنے اندر خیر اور فلاح سمیٹے ہوئے ہے، نیکی ہمدردی بھی ہے نیکی مسیحائی بھی ہے، نیکی تن بدن کو مہکا دینے والے احساس کا نام ہے نیکی آخرت کی کامیابی کی خواہش کا نام ہے ، انسان کو الله تعالیٰ نے دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے اور پھر اُسے فیصلہ کرنے کی قوت عطا کی ہے، نیکی اور بدی میں فرق کی تمیز عطا کی ہے مگر افسوس کہ آج کا انسان اندر سے اتنا کمزور اور ذہنی طور پر اتنا مفلوج ہو گیا ہے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں اور حد سے بڑھتی ہوئی بے جا خواہشات کے آگے ڈھیر ہو گیا ہے ، نیکی کو بھلا کر بدی کو ترجیح دینے لگا ہے، نیکی کی افادیت کو یکسر نظر انداز کرنے لگا ہے ، آج کے انسان کا دل نیکی جیسے جذبے سے عاری نظر آنے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نیکی جیسے جذبے کا فقدان ہے ، نیکی او ربدی کا معرکہ ہمیشہ سے رہا ہے، بدی ایسا زہر ہے جو جسم میں داخل ہوتے ہی سیدھا دل میں سرایت کرتا ہے اور پھر دل میں ایسی جگہ مضبوط کر لیتا ہے کہ پھر اس دل پر بدی کا نشہ طاری رہنے لگتا ہے لہٰذا برائی کے زہر سے بچنا چاہیے بحیثیت مسلمان یہ ہمارابنیاد فرض ہے۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ ساعتیں دنوں میں، دن ہفتوں میں،ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلنے کا نام زندگی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ زندگی تو ایک وقفے کا نام ہے جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے او رجب مرتا ہے تو اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی جاتی ہے گویا اس اذان سے نماز تک کے وقفے کا نام زندگی ہے او رالله تعالیٰ انسان کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ اُسے اس وقفے کا دورانیہ کس طرح گزارنا ہے اور وہ زندگی گزارنے کے لیے کون سی راہ اختیار کرتا ہے، نیکی کی راہ اختیار کرتا ہے یا برائی کی راہ اختیار کرتا ہے ۔ الله تعالیٰ نے انسان کو دونوں راستوں کی افادیت اور نقصان سے آگاہی کے ذرائع بھی میسر کیے ہیں ،گناہ کا ارتکاب کرنے سے پہلے اگر ہم سوچ لیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا تو یقینا ہم گناہ سے بچنے کی سعی کرتے رہنے پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں کیوں کہ نیکی یا برائی کا عمل غیر اختیاری نہیں ہے، یہ سب ہمارے اختیار میں ہوتا ہے ، اگر ہم نیکی کو رد کرکے برائی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو سمجھ لیں کہ گناہ کا تسلسل ایک تاریک رات کی مانند ہے جسے ہم طول دے رہے ہیں اور یہ رات ختم ہونے کو نہیں آتی مگر ایسا نہیں ہے کیوں کہ ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے مگر ہم اس رات کی صبح سے محروم کیوں ہیں، ہم بھی اس رات کی صبح پاسکتے ہیں۔
وہ اس صورت میں کہ ہم اپنے رب کے حضور دستِ دعا بلند رکھیں اور معافی کی طرف مائل ہو جائیں، انسان خطا کا پتلا ہے اور الله رب العزت غفور اوررحیم ہیں، اگر انسان مسلسل گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا سینہ خوفِ خدا سے عاری ہے اور اس کا نفس اس کے کنٹرول میں نہیں ہے او رایسے شخص کا مقدر صرف اور صرف دنیا اور آخرت کی ناکامی ہے، اس کے برعکس اگر ایک انسان گناہ کرتا ہے اور اسے احساس ہو جاتا ہے اور وہ فوراً توبہ کر لیتا ہے اور اپنے رب سے معافی کا طلب گار رہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے دل میں خوفِ خدا ہے جس کے دل میں خوف خدا موجودہوتا ہے وہ دوبارہ گناہ کرنے کا حوصلہ نہیں کر پاتا اور وہ آہستہ آہستہ اپنے اوپر نیکی کا غلبہ محسوس کرنے لگتا ہے اور پھر اس سے ہرعمل نیکی ہی کی صورت میں صادر ہوتا ہے۔
الله تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرے، الله تعالیٰ نے کتاب مقدس قرآن مجید کے ذریعے اور پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے انسان پر سب کچھ واضح کر دیا ہے کہ کون سا راستہ برائی کی طرف جاتا ہے اور کون سا راستہ نیکی کی طرف جاتا ہے او رراستے کا تعین کرنا بھی انسان کے اوپر چھوڑ دیا ہے اس لیے ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے، وقت کا انتظار کیے بغیر ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمیں کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔الحمدلله ہم مسلمان ہیں یقینا ہمیں نیکی کی راہ ہی اختیار کرنی ہے تو پھر اس کا رِ ثواب میں دیر کیسی؟! کیا پتہ کل ہمیں نیکی کرنے کا موقع ملتا ہے یا نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ نیکی کرنے کا اور الله کی رضا حاصل کرنے کا جو موقع ملتا ہے اُسے ضائع کرکے ہمیں پچھتانا پڑے، بحیثیت مسلمان نیکی کا موقع ملنے اور اُسے کر گزرنے کی تلاش میں رہنا ہی ہمارا خاصہ ہے، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ مسلمان کو اس دن پر رونا چاہیے جس دن اس نے کوئی نیکی نہیں کی ہو ، بحیثیت مسلمان ہمیں نیکی کے عمل کو دھراتے رہنا چاہیے اورجب موقع ملے اس عمل کو کر گزرنا چاہیے۔
آئیے ہم اپنی زندگی کا رخ اور اپنی سوچ کا انداز بدل دیں ، ہماری زندگی جو تباہی اور بربادی کی طرف جارہی ہے اُسے ہم اُس راہ پر گامزن کر دیں جس راہ پر صرف اور صرف نیکی کا تصور سایہ فگن ہو، جہاں سے گزر کر ہم قلبی سکون حاصل کر سکیں او رایسا لالچ، خود غرضی وحرام خوری اورجھوٹ وفریب سے بچ کر اور سب کچھ پالینے کی بے بنیاد خواہشوں کو دل سے مٹا کر ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ہمیں قوت ارادی کی ضرورت ہے کیوں کہ نیکی کا عمل غیر اختیاری نہیں ہوتا اس کے لیے باقاعدہ ارادہ کرنا ہوتا ہے اور پھر اس کے لیے میدانِ عمل میں نکلنا ہوتا ہے مسلسل متحرک او رمسلسل مصروفِ عمل رہنا ہوتا ہے جب آپ نیکی کا ارادہ کر لیں تو پھر فوراً میدانِ عمل میں کود پڑیں، ایسا تب ہی ممکن ہے جب آپ اپنے اندر قوتِ ارادی پیدا کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ منفی خیالات سے چھٹکارا حاصل کریں اور مثبت اقدار اپنائیں اور اپنے دل کو حساس بنائیں تاکہ وہ کسی کا دکھ درد محسوس کرسکے اور آپ کو اچھائی کرنے پر مجبور کر سکے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم نے الله کی عدالت میں جانا ہے، اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے، اچھے اعمال ہی ہمارے لیے خیر اور فلاح کی عدالت بن سکتے ہیں اس لیے ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا ہر عمل نیکی کی صورت میں صادر ہو تاکہ ہم اپنے لیے دنیا وآخرت کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کر سکیں ، نیکی ایک ایسا عمل ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے انسان کا ایمان تروتازہ ہوتا ہے اور جذبہ ایمانی غالب رہتا ہے۔
ہمیں اپنے معاشرے کے سُلجھاؤ کے لیے اپنے دلوں سے برائی جیسی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا، اپنی سوچ میں شر کے بجائے خیر کو، دہشت کے بجائے امن کو، جدیدیت کے بجائے اپنے اسلاف اور صحابہ کرام کی پیروی اور ان کے اقدار کو اپنانے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا اور اپنی سوچ میں جہالت کی تیرگی کے بجائے علم کی روشنی کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا، تب کہیں ہمارے دل نیکی جیسے عمل سے منور ہوں گے اور برائی کی تاریکی کا خاتمہ ہو گا۔
الله تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے کہ بے شک نیکو کاروں کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوتا اور نیکو کاروہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ اپنی زندگی میں نیکی ہی کو ترجیح دیتے ہیں اور برائی جیسی لعنت سے اپنے آپ کو گریزاں رکھتے ہیں، اپنے رب سے دعا گو رہیں کہ وہ نیکی جیسے پاکیزہ جذبے کو ہمیشہ کے لیے ہم سب کے دلوں میں جاں گزیں کر دے۔ آمین

Flag Counter