Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

3 - 16
***
نماز ِعید میں چند کوتاہیاں
مفتی محمد راشد ڈسکوی
اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کے نام پر یہ دھبا ہے کہ کسی مسلمان کو اس کے ذمے لگے ہوئے فرائض وواجبات کا علم نہ ہو! لیکن یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا انکار کسی صاحب بصیرت سے ممکن نہیں ہے ، اے کاش! نوجوانان اسلام موجودہ دور کی روشِ جدید کے مقابل سینہ سپر ہو کر خالق حقیقی کو پہنچانتے اور اس ذات اقدس کے احکامات کی بجا آوری کے لیے اپنا تن ، من، دھن اور ہر طرح کی صلاحیت استعمال کرتے۔
فرائض اسلام کا سب سے بڑا اہم اور ذی شان فریضہ نماز ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ مجموعہ امت مسلمہ کا شاید دس فیصد طبقہ ہی اس اہم فریضے کی طرف متوجہ ہو گا او راس مختصر مجموعہ میں سے اس مقدس فریضہ کے جملہ مسائل سے واقفیت رکھنے والے بھی گنتی کے ہی افراد ہیں ۔ انہی مسائل نماز میں سے ایک اہم مسئلہ ” نمازوں کی چھوٹی ہوئی رکعات کی ادائیگی کا طریقہ ہے“ نمازی حضرات پانچوں نمازوں میں رہ جانے والی رکعات کو ادا کرنے کا طریقہ تو شاید جانتے ہی ہوں گے، لیکن ” نماز عید“ ( جو سال میں دو بار آتی ہے) کی کوئی رکعت یا تکبیرات زوائد رہ جائیں تو ان کی ادائیگی کیسے کر ے گا؟ اس طریقے کی وضاحت تو ائمہ مساجد کو بھی بیان کرتے نہیں سنا، چہ جائیکہ نمازی حضرات ان مسائل سے کماحقہ واقف ہوں اور اگر کوئی امام صاحب اس مسئلہ کو بیان کرتے بھی سنے گئے تو وہ عید کی نماز سے پہلے بیان کر رہے ہوتے ہیں ، سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ تو ان افراد کے لیے تھا جو کسی عذر کی بنا پر تاخیر سے نماز میں شریک ہو رہے ہوں، نہ کہ ان افراد کے لیے جو پہلے سے مسجد میں موجود ہیں ۔
لہٰذا سوچا گیا کہ نماز عید میں مسبوق (وہ افراد جن سے رکعات یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کی جتنی بھی صورتیں بن سکتی ہوں ان کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے کرام وائمہ مساجد ان صورتوں کو عیدمبارک سے چند روز قبل تفصیل سے بیان کر دیا کریں تاکہ ہمارے بہت سے صوم وصلوٰة کے پابند افراد کی نماز عید خراب ہونے سے بچ سکے۔
اب ذیل میں وہ تمام مذکورہ صورتیں اور اُن کا حکم ملاحظہ فرمائیں۔
کوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیرات زوائد کہہ چکا تھا، تو ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ یہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فوراً تین تکبیرات زوائد کہے، اس کے بعد خاموشی سے امام کی قرأت سنے۔ (ردالمحتار: کتاب الصلاة، باب العیدین،64/3 ،دارالمعرفة بیروت)
کوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلا گیا تھا تو یہ شخص اندازہ کرے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا تو اس آنے والے کو چاہیے کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہے ، لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، بلکہ ہاتھ گھٹنے پر ہی رکھے رہے۔ ہاں! اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں او راگر آنے والا ، رکوع میں چلا گیا او رابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایا تھا یا زیادہ یا کہہ ہی نہیں پایا تھا کہ امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔ (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الصلاة، الباب السابع عشر فی صلاة العیدین،151/1 ،رشیدیہ)
کوئی ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا یا دوسری رکعت میں قرآت شروع کر چکا تھا تو اب یہ آنے والا امام کے ساتھ ہی چلتا رہے، یعنی جس طرح امام کر رہا ہے اسی طرح کرتا رہے، پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب یہ اپنی رہ جانے والی رکعت ادا کرے گا تو اس کی ترتیب یہ ہو گی کہ اول ! کھڑا ہو کر ثنا پڑھے ، پھر سورة الفاتحہ، پھر سورة ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات زوائد کہے، پھر رکوع میں جائے۔ یعنی صورت کے اعتبار سے ” امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جارہی ہے دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی۔ یہ اصح قول ہے۔(ردالمحتار: کتاب الصلاة، باب العیدین،65,64/3، دارالمعرفة بیروت، البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب العیدین،282/2 ،رشیدیہ)
کوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت پہنچا جب امام تکبیرات کہہ کر رکوع میں جاچکا تھا تو اب پھر پہلی رکعت کی طرح اندازہ کرے کہ تکبیرات کہہ کر امام کو رکوع میں پاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر پاسکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو رکوع میں جاکر تکبیرات کہے اور اگر امام رکوع سے اٹھ گیا، یعنی اس مقتدی سے دونوں رکعات رہ گئیں تو یہ دونوں رکعتیں اسی طرح پوری کرے جیسے عام ترتیب میں امام کے پیچھے پڑھتا ہے۔ (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الصلوة ، الباب السابع عشر، فی صلاة العیدین151/1 رشیدیہ، الفتاوی التاتارخانیہ: کتاب الصلاة، الفصل السادس والعشرین، فی صلاة العیدین،73/2 ،قدیمی)
او راگر کوئی شخص ایسے وقت میں پہنچا جب امام سلام پھیر چکا تھا تو اب اکیلا اس نماز عید کو نہیں پڑھ سکتا۔ اس شخص کو چاہیے کہ اب کسی ایسی مسجد یا عید گاہ کو تلاش کرے جہاں ابھی تک نماز نہیں ہوئی،وہاں جاکر نماز ادا کرے اور اگر اس کو کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو پھر اس کے لیے مستحب ہے کہ چاشت کے وقت چار رکعت نوافل ادا کرے۔ (ردالمحتار: کتاب الصلاة، باب العیدین، 68,67/3 ،دارالمعرفة بیروت)
الحاصل! تقریباً یہی صورتیں ہیں جو پیش آسکتی ہیں، اگر علمائے کرام ان مسائل کو اکٹھے یا تھوڑے تھوڑے ،تفصیل سے بیان کر دیا کریں تو ان شاء الله عندالله اپنے اس فریضے سے بھی احسن طریقے سے سبک دوش ہو جائیں گے۔

Flag Counter