Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالحجہ1430ھ,

ہ رسالہ

10 - 16
***
شہیدة الحجاب
محترم زبیر خان
یکم جولائی2008ء کو جرمنی کی عدالت میں 32 سالہ خاتون کو سر عام خنجر سے وار کرکے شہید کر دیا گیا ، جب شہیدہ” مرویٰ شیربینی“ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر رہی تھی تو عدالت میں مصنف بھی موجود تھا، سیکورٹی اہلکار اور میڈیا بھی ، سب کے سامنے اس کو اسکارف پہننے کے جرم میں قتل کر دیا گیا۔ اس موقع پر شہیدہ چار ماہ کی حاملہ تھی ، اس کا تین سالہ بیٹا اپنی ماں کو خوف ناک انداز میں قتل ہوتا دیکھ رہا تھا ، شہیدہ کا خاوند علوی عکاظ مدد کے لیے لپکا تو سیکورٹی گارڈ کی گولی کا نشانہ بن گیا۔
عدالت کا کمرہ لمحوں میں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہو گیا اورایک پاک باز خاتون نے حجاب کی خاطر اپنی جان قربان کرکے مغرب کا بھیانک چہرہ بے نقاب کر دیا #
اس سے اب خون کی لت بھی نہیں چھوڑی جاتی
تمغہٴ امن بھی چاہے وہ ظالم گر رکھنا
اس داستان کا آغاز2008ء میں ہوتا ہے، جب شہیدہ مرویٰ شیربینی اپنے کم سن بیٹے کو لے کر پارک میں نکلتی ہے ، جہاں پر اس کے پڑوس میں رہنے والا28 سالہ ایگڑل ڈبلیو اس کو حجاب پہننے پر طنز کا نشانہ بناتا ہے ، جس پر وہ خاتون عدالت سے انصاف طلب کرنے پہنچ جاتی ہے ، عدالت ایگڑل کے رویے کو متشددانہ قرار دیتے ہوئے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیتی ہے ، جس کے بعد یہ واقعہ جرمنی کے اخبارات کی زینت بنتا ہے ، جرمنی کا متشدد گروہ ایگڑل کو اپنا ہیرو بنالیتا ہے اور فیصلے کے خلاف اپیل کرتا ہے ، یکم جولائی کو عدالت کا کمرہ کچھا کھچ بھرا ہوتا ہے، عدالت کے روسٹم پر مرویٰ شیربینی کو طلب کیا جاتا ہے ، وہ ابھی اپنے بیان کا آغاز ہی کرتی ہے کہ متشدد قاتل ایگڑل اس کی طرف لپکتا ہے ، ایک کے بعد وسرا اور دوسرے کے بعد تیسر وار پاک دامن کے جسم پر تیز دہاری دار خنجر سے پورے اٹھارہ وار کرتا ہے ، پہلے ہی وار پر اس کا خاوند اپنی نیک بخت بیوی کو بچانے کے لیے دوڑ لگاتا ہے ، موقع پر موجود سیکورٹی گارڈ جس کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ مرویٰ کی حفاظت کرے الٹا علوی عکاظ کو اپنی گولی کا نشانہ بناتا ہے ، جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر جاتا ہے شہیدہ ممکنہ حد تک درندے سے اپنے بچاؤ کے لیے مزاحمت کرتی ہے ، درندے کا ٹارگٹ شہیدہ کا اسکارف پہنا ہوا سر ہوتا ہے، شہیدہ چھ وار سہنے کے بعد اب صرف اپنے حجاب کو بچانے کے لیے جدوجہد کرتی ہے، ایسے میں قاتل اس کے جسم پر اٹھارواں وار کرکے اسے نڈھال کر دیتا ہے ، جب تک قاتل کو روکنے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے اس وقت تک مرویٰ شیربینی اپنی منزل مراد ”شہادت“ پالیتی ہے، اس کا خاوند خون میں لت پت اور شہیدہ کا کم سن بیٹا باپ کو دیکھ کر زار وقطار رورہا ہوتا ہے #
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے 
لوگ آسان سمجھتے ہیں ، مسلماں ہونا
واقعے کے بعد مغرب اور عرب دنیا کے مسلمانوں میں ایک بھونچال آجاتا ہے ، مغربی میڈیا اس موقع پر پردہ ڈالنے کی ممکنہ حد تک کوشش کرتا ہے ، پاکستانی میڈیا جو آج کل انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا علم بردار بنا ہوا ہے اس تک یہ خبر پہنچی ہی نہیں ہے، اگر سوات میں کسی لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو ہوتی تو یہ خبر عالمی میڈیا پر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی جاتی، اس پرتبصرے ہوتے مگر یہ ایک معصوم مسلمان عورت کا قتل تھا، جو دین اسلام سے تعلق رکھتی تھی، اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتی تھی،، وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتی ہے جس پر پوری دنیا میں عرصہ ٴ حیات تنگ کیا جارہا ہے ، جس کے رہنما اپنی خودی کو بیچ کر امریکا اور مغرب کی غلامی میں چلے گئے ہیں، جو حکومت تو اپنے ہم مذہبوں پر کرتے ہیں مگر زبان امریکا اور مغرب کی بولتے ہیں، جو اس وقت کمزور نہ ہوتے ہوئے بھی مغلوب ہیں ، جن کا بچہ بچہ جرم بے گناہی کی سزابھگت رہا ہے، جس طرح شہیدہ کو قتل کیا گیا ہے اگر اس طرح ان کا کوئی پالتو جانور بھی قتل ہو جاتا تو یورپ کے اندر طوفان آجاتا، جرمنی کے حکمرانوں کے لیے اقتدار بچانا مشکل ہو جاتا ، غفلت کے مرتکب سیکورٹی اہلکار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے ، مگر یہ قتل ایک مسلمان کا قتل تھا جس نے اپنے عقیدہ کی خاطر قربانی دی تھی ، اس پر مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیموں اوراداروں کی خاموشی دوہرے میعار کی آئینہ دار ہے ۔
واقعے کے بعد جرمنی سمیت پورے یورپ اور عرب دنیا میں مظاہروں کا آغاز ہوتا ہے، ایسے ہی ایک مظاہرہ میں خواتین نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، جس پر لکھا تھا کہ ” ہم وہ پہننے کے لیے آزاد ہیں جس کاحکم ہمیں ہمارا مذہب دیتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح تمہارا جو دل چاہتا ہے پہنتے ہو۔“ ایک اور پلے کارڈپر لکھا کہ ” ہمارے خون کا رنگ بھی سرخ ہے اور یہ تمہارے خون سے سستا نہیں۔“
6جولائی کو شہیدہ مرویٰ شیربینی کی میت مصر کے قاہرہ ائیرپورٹ پر اترتی ہے ، عوام کا سمندر شہیدة الحجاب کا استقبال کر رہا ہوتا ہے، اس کے خاندان کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے، شہیدہ کا خاوند جرمنی کے ہسپتال میں ہوش وحواس سے بے گانہ اپنی نیک بخت بیوی کے جنازے کو آخری سہارا دینے سے قاصر ہوتا ہے ، مصری عوام کی توجہ کا مرکز شہیدہ کا تین سالہ بیٹا بنا ہوتا ہے ، شہیدہ مرویٰ شیربینی کو اس کے آبائی علاقے اسکندرہ میں سپرد خاک کیا جاتا ہے ، اس موقع پر ہزاروں شرکاء بلند آواز سے الله کی وحدانیت کااعلان کر رہے ہوتے ہیں ان کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ ہے کہ ” کوئی اور خدا نہیں ہے مگر وہ ایک طاقتور اور بزرگ وبرتر خدا ہے اور جرمن خدا کے دشمن ہیں۔“ (بہ شکریہ تعمیر حیات، لکھنؤ)

Flag Counter