Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

2 - 16
***
پاکیزہ زندگی۔۔۔ پاکیزہ ماحول سے بنتی ہے
مولانا محمد عمر پالن پوری 
تو ایٹم بم انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔ ایٹمی طاقت سے بڑی طاقت الله تعالیٰ نے بنائی ۔زمین، آسمان، سورج، چاند، یہ بڑی طاقتیں ہیں۔ لیکن ان سے بڑی طاقت فرشتے ، فرشتے زمین وآسمان سے بھی بڑی طاقت رکھتے ہیں۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام کی پھونک سے زمین وآسمان ٹوٹتے ہیں تو بتائیے کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کے سردار اور تمام فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام کی کتنی بڑی طاقت ہے تمام فرشتوں سے زیادہ طاقت حضرت جبرئیل علیہ السلام کی او راس سے بڑی طاقت بھی الله تعالیٰ نے بنائی ہے اور وہ طاقت ہے انسان۔
انسان سب سے بڑی طاقت ہے!
انسان کو الله تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے جھکایا تو یہ انسان فرشتوں سے بھی بڑی طاقت ہے ۔ بشرطے کہ یہ انسان خدا کی طاقت کو اپنے ساتھ کر لے۔ خدا کی طاقت انسان کے ساتھ کب ہو گی ؟ جب یہ خدا کی خلافت والے کام کرے، یعنی خدا کی بات مانے، اگر یہ انسان الله تعالیٰ کی بات کو مانے تو پھر یہ انسان فرشتوں سے بھی بڑی طاقت ہے، صرف آدم علیہ السلام کے سامنے فرشتے نہیں جھکے، بلکہ اگر خدا کے حکم کی تعمیل ہم اور تم کریں گے تو فرشتے بعد میں بھی خدمت میں لگے ہوں گے ۔
آدمی مسجد میں نماز کے لیے انتظار کرے تو فرشتے کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ خدا سے یہ کہے کہ اے خدا! اس انسان کو معاف کر، اس پر رحم کر۔ انسان جب الله تعالیٰ کا دین سیکھنے سکھانے کے لیے نکلے تو فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں اور اپنی پرواز کو روک لیتے ہیں او رتمام فرشتے زمین وآسمان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔
اگر کسی مسلمان سے ملنے کے لیے نکلو گے تو فرشتے آپ کو رخصت کریں گے اور واپسی تک مغفرت مانگتے رہیں گے۔
جب الله کی طاقت انسان کے ساتھ ہو گی تو وہ فرشتوں سے بھی زیادہ طاقت والا بنا۔ کیوں کہ خدا کی طاقت اس کے ساتھ ہو گی۔
انسان بے قیمت کب بنتا ہے؟
اگر انسان نے الله کے حکم کو نہ مانا اور نافرمان بنا تو پھر یہ فرشتوں سے تو کیا دوسری تمام مخلوقات کی طاقت سے بھی چھوٹی طاقت، بلکہ کچھ نہیں بنے گا اور بے قیمت ہو جائے گا اور جانوروں سے بھی زیادہ ذلیل وخوار ہو گا۔I
﴿أولئک کالانعام بل ھم اضل﴾․ (سورہ الاعراف آیت:79)
ترجمہ:” جانوروں سے زیادہ بد تر یہ انسان بنے گا۔“
اگر الله کی بات مانتا ہے تو فرشتوں سے بھی آگے اور اگر الله کی بات نہیں مانتا تو جانوروں سے پیچھے اور یہ انسان جب الله کی بات مانے گا تو پھر الله کے خزانوں کے ساتھ کنکشن ہو گا۔ فرشتے صرف بدر میں نہیں اترے۔ فرشتے تو ہر وقت اترتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی الله کی عظمت بیان کی جاتی ہو تو فرشتے وہاں پر جمع ہو جاتے ہیں۔I
فرشتوں نے بھی بات کو مانا او رانسانوں نے بھی بات کو مانا ۔ فرشتے تو دن رات عبادت کرتے ہیں اور ہزاروں سال سے عبادت کرتے ہیں اور انسان صرف ساٹھ ستر سال عبادت کرتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود کسی فرشتے کو جنت کی ایک نعمت نہیں ملے گی اور کسی فرشتے کو جنت کی ایک حور نہیں ملے گی اور اس انسان کو بہت بڑی جنت الله تعالیٰ دیں گے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ فرشتے جو عبادت کرتے ہیں ان کو کوئی مجاہدہ نہیں کرنا پڑتا، نہ تھکن، نہ نیند، نہ بھوک، نہ بیوی، نہ بچے ،نہ پاخانہ، نہ کاروبارنہ گھر کچھ نہیں، ان کا تو کام صرف بات کو ماننا ہے ۔ مجاہدہ نہیں اور انسان جب الله کی بات کو مانے گا تو بغیر مجاہدے کے نہیں مانے گا۔ اسے طبیعت کے خلاف کرنا پڑتا ہے او راسی مجاہدے کی وجہ سے انسان فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔
انسان کی عظمت وترقی کا راز اس کا مجاہدہ ہے!
انسان کی عظمت وترقی کا راز اس کا مجاہدہ ہے۔ الله تعالیٰ نے فرشتوں میں صرف ایک بات رکھی ہے اور وہ ہے بات کا ماننا۔ دوسری بات ان میں ہے ہی نہیں۔ صرف ایک طاقت ہے ، بات کو ماننا۔ نہ ماننے کی طاقت اس میں خدا نے نہیں رکھی۔I
اور انسان میں الله تعالیٰ نے دو طاقتیں رکھی ہیں۔ بات کے ماننے کی بھی طاقت اور بات کے نہ ماننے کی بھی طاقت رکھی ہے ۔ جب یہ انسان الله کی بات کو مانے گا تو یہ نہ ماننے والی طاقت کو دبائے گا اور اس کا نام مجاہدہ ہے اور اس سے یہ الله کے قریب ہو جاتا ہے او ریہاں تک کہ فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے، طبیعت کے خلاف الله کے حکموں پر قدم اٹھانا یہ اس کی ترقی کا راز ہے تو الله پاک ظاہر کے خلاف اس کی مدد فرماتے ہیں ۔ فجر کی نماز نیند کے قربان کیے بغیر آدمی نہیں پڑھ سکتا، زکوٰة مال کے قربان کیے بغیر نہیں دے سکتا۔ کوئی کام بغیر قربانی کے ہو نہیں سکتا۔ جب الله کی بات کو مانے گا تو بغیر قربانی کے اور بغیر مجاہدے کے یہ آدمی الله تعالیٰ کی بات کو مان ہی نہیں سکتا۔ تکلیف اٹھائے بغیر دین کا کام کوئی بھی ہو آدمی نI
ہیں کرسکتا۔ او راس مجاہدے پر الله تعالیٰ نے یہ ساری نعمتوں کا وعدہ کیا ہے، ساری ترقی مجاہدات پر ہے۔
﴿والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا وان الله لمع المحسنین﴾․ (سورہ عنکبوت آیت:29)I
الله کی نسبت پر تکلیفوں کا اٹھانا یہ انسان کی ترقی ہے ۔ خواہ مخواہ کی تکلیف اٹھانے سے کوئی ترقی نہیں ہو گی۔ خواہ مخواہ آدمی سردی برداشت کرے۔ خواہ مخواہ آدمی گرمی برداشت کرے، یہ کوئی ترقی نہیں۔ ترقی تو اس تکلیف سے ہو گی اور ترقی اس تکلیف کے اٹھانے میں ہے جو الله کے حکموں کے مطابق ہو۔ اس کے اندر اس انسان کے لیے ترقی ہے اور ہر آدمی کا الگ الگ مجاہدہ ہوتا ہے۔
ایک صحابی کا قصہ
حضرت عبدالله بن عمرو بن عاص کی شادی ہوئی او رحضرت عبدالله کو عبادت کرتے کرتے خدا سے اتنا تعلق ہو چکا تھا کہ عبادت کو چھوڑنا ان کے لیے مجاہدہ تھا۔ یعنی عبادات، تلاوت، روزہ اور دوسرے مجاہدات کرنے میں بڑا لطف آتا تھا۔ اور اتنا لطف آتا تھا کہ ان کوچھوڑنا یا کم کرنا اس کے لیے سخت مجاہدہ تھا۔ جب شادی ہو گئی بیوی کو چھواتک نہیں اور بیوی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوئی ۔ ان کی بیوی سے ایک دن ان کے باپ نے پوچھا کہ میرے بیٹے کو کیسے پایا؟ کہا بہت اچھے ہیں۔ ساری رات عبادت کرتے ہیں او رکھڑے کھڑے ساری رات گزارتے ہیں۔ اور اس میں اشارہ کیا کہ مجھے چھوا تک نہیں۔ میرے قریب ابھی تک نہیں آئے۔ حضرت عبدالله کے باپ عمر وبن عاص نے جاکر رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میرا بیٹا ایسا کرتا ہے۔
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے بلایا اور پوچھا۔ انہوں نے ساری بات بتا دی ان کا خیال تھا کہ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم اس عمل کو سراہیں گے، لیکن رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس مجاہدے کو کم کرو۔ روزے کم رکھو، رات کو زیادہ مت جاگا کرو اور سویا بھی کرو۔ بیوی کے پاس بھی جایا کرو۔ کھانا بھی کم کھایا کرو۔ اور فرمایا:I
”ان لوقتک علیک حقا، ان لزوجک علیک حقا، ان لعینک علیک حقا، وان لجسدک علیک حقا“․
حضور صلی الله علیہ وسلم ان کے مجاہدے کو کم کرواتے تھے اور یہ کم کرنا ان کے لیے مجاہدہ تھا۔ کیوں کہ عبادت وریاضت میں انہیں اتنا لطف آتا تھا کہ چھوڑنا تو درکنار، کم بھی نہیں کرسکتے تھے۔
تو مجاہدہ ہی ترقی کا راز ہے اور مجاہدہ کی نوعیت بدل جاتی ہے ۔ انسان کی ترقی مجاہدے میں ہے۔
خدا کے اصول کے مطابق مجاہدہ کرنا ہے
مجاہدہ انسان خود تجویز نہ کرے، بلکہ خدا کے اصول کے مطابق مجاہدہ کرے اور یہ جتنے احکامات آئے یہ سب قیامت تک کے لیے اصول ہیں ۔ الله کے دین کا تقاضا اس پر آئے گا ۔ جو دین ،کے کام کو اپنا کام بنائے جس کے ذہن میں یہ بات ہو کہ میں دین کے کام کے لیے پیدا ہوا ہوں اور بھیجا گیا ہوں۔ کیوں کہ نبیوں کا آنا بند ہو چکا ہے اور الله تعالیٰ نے اس امت کو منتخب کیا ہے اور اس کام کے لیے بھیجا ہے، دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس امت کو الله نے دنیا میں بھیجا ہے اور حضرت ربیع ابن عامر کا یہ جملہ ہے۔جو انہوں نے رستم کے دربار میں کھڑے ہو کر کہا: ”الله بعثنا لنخرج العباد من عبادة العباد الی عبادة رب الرحمن، ولنخرج الناس من جورالا دیان الی عدل الاسلام، ومن ضیق الدنیا إلی سعتھا“․
الله نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال دیں اور نفس کی غلامی سے نکال دیں اور الله کی غلامی میں داخل کریں اور مختلف قسم کے مظالم سے نکالیں ا ور اسلام کی صف میں داخل کر دیں اور دنیا کی تنگی سے نکال کر دنیا کی فراخی میں داخل کریں۔ تو ایسے آدمی کے سامنے دین کے تقاضے آئیں گے۔
تبوک، بدر، خندق، احد کے تقاضے اس وجہ سے آئے کہ دین کے کام کو اپنا تقاضا بنایا اور اگر وہ دین کے کام کو اپنا تقاضا نہ بناتے تو نہ بدر کا تقاضا ہوتا ،نہ احد کا اور نہ خندق کا تقاضا ہوتا۔
یہ سارے واقعات اس لیے ہوئے کہ انہوں نے دین کے کام کو اپنا تقاضا بنایا اور اپنا کام بنایا۔ دور صدیقی میں صحابہ نے دین کے کام کو اپنا کام بنایا۔ ان کے سامنے دین کے تقاضے آئے ۔ دور فاروقی میں دین کے تقاضے آئے۔ ہر زمانے میں دین کے تقاضے آئے۔ کیوں کہ انہوں نے دین کے کام کو اپنا کام بنایا ۔اور جو کھانے کمانے کو کام بنائیں پھر دین کے تقاضے ان کے سامنے کہاں آئیں گے۔ بلکہ ان کو تو سمجھ میں بھی نہیں آئیں گے کہ دین کے بھی کوئی تقاضے ہوا کرتے ہیں ۔ تو صحابہ نے دین کے کام کواپنا کام بنایا تو الله کی طرف سے ان کو دین کے تقاضے آئے اور ان تقاضوں میں بعض موقعوں پر صحابہ کو کمانے کا وقت نہیں ملا اور فاقے مقدر میں تھے تو فاقے میں رہے۔
صحابہ کا سب سے زیادہ دین کے تقاضوں کو پورا کرنا!
صحابہ پر دین کے تقاضے اتنے آئے کہ انہوں نے طے کر لیا کہ فاقے برداشت کریں گے، لیکن الله کے دین کے تقاضوں کو نہیں چھوڑیں گے، دین کے تقاضے اتنے تھے کہ سب بھوکے رہتے تھے۔ بھوک کے مارے حضور صلی الله علیہ وسلم نکلے، بھوک کے مارے حضرت ابوبکر صدیق  نکلے، بھوک کے مارے حضرت عمر فاروق نکلے اور سب حضرت ابوایوب انصاری کے باغ میں گئے۔
انہوں نے کھجوریں لا کر سامنے رکھیں۔ بڑے خوش ہوئے اور بکری کا بچہ ذبح کیا اور پکایا۔ گوشت روٹی سامنے رکھا۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے گوشت کی ایک بوٹی روٹی پر رکھ کر یوں فرمایا کہ اسے فاطمہ کے گھر دے آؤ۔ اسے تین دن سے کھانے کو کچھ نہیں ملا ہے۔ بیوی کا حق ادا کرنا رسول پاک صلی الله علیہ وسلم خود بتانے والے تھے او ران کی بیٹی پر تین دن کا فاقہ اورکہیں پر یہ نہیں ملتا کہ حضرت علی سے یوں فرمایا ہو کہ قرآن کی کھلی آیتیں بیوی کا حق ادا کرنے کے لیے ہیں، لیکن علی تونے میری بیٹی کو اتنے فاقے میں رکھا کہ چکی خود پیستی ہے، مشکیزہ پانی کا خود اٹھاتی ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کبھی حضرت علی  سے یوں نہیں کہا ۔ بلکہ فاطمہ ایک خادم لینے کے لیے تشریف لائیں تو بجائے خادم دینے کے رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے تسبیحیں بتا دیں اور خادم نہیں دیا۔ حالاں کہ بہت سے خادم وغلام آئے تھے۔ حضرت علی الله کے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اتنے مصروف تھے کہ انہیں کاروبار کا وقت نہیں ملا۔ سستی کی بنا پر نہیں اور نہ کمزور تھے، حضرت علی  بہت طاقت ور تھے۔ اتنے طاقت ور کہ خیبر کے ایک دروازے کو، جس کو چالیس آدمی اٹھا سکیں، اکیلے حضرت علی نے اٹھا کر پھینک دیا۔ اتنے طاقتور تھے کہ اتنے بھاری دروازے کو اکیلے اٹھا کر پھینکتے ہیں توکیاکاروبار نہیں کرسکتے تھے۔ ضرور کرسکتے تھے، لیکن وقت نہیں تھا کاروبار کرنے کا۔
حضرت نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کاروبار کرنا نہیں جانتے تھے ۔ حضرت خدیجہ کے مال پر تجارت کرکے اور زیادہ نفع کماکر یہ دکھا دیا کہ نبی کاروبار کرنا بھی جانتے تھے ۔ بکریاں چرانا عملاً کیا، چاہے نبوت سے پہلے ہی ہو۔ لیکن کام تو کیا ہے او رکرنا اچھی طرح جانتے تھے۔ مگر تقاضے دین کے اتنے تھے کہ کاروبار کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا اور فاقے گزارتے تھے، لیکن دین کا کام کرتے تھے۔خدا کے دین کے تقاضوں پر کھڑے ہوئے اور مقدر میں فاقہ تھا۔ کاروبار کا وقت نہیں ملا۔ اس فاقے کو برداشت کیا اور خدا کے دین کے تقاضوں کو کاروبار پر قربان نہیں کیا، بلکہ کاروبار کو دین کے تقاضوں پر قربان کیا۔ آج اگر کوئی کہہ دے کہ دین کا کام کرو تو وہ کہتا ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ۔ کیوں کہ میرے کاروبار بہت ، الجھنیں بہت ہیں ، وقت نہیں ملتا۔
حضرت علی سے بھی اگر کوئی کہتا کہ اہلیہ پر فاقہ ہے، کاروبارکر و تو ان کی زبان یہ بتا رہی تھی کہ ٹھیک ہے، لیکن دین کے تقاضے اتنے ہیں کہ مجھ کو کاروبار کرنے کی فرصت نہیں ملی۔
لیکن جب حددرجہ فاقہ پہنچا، حضرت فاطمہ کا فاقہ زیادہ ہوا اور حضرت حسین او رحسن دودھ پیتے، یہاں تک کہ ماں کی چھاتی میں دودھ بھی نہیں ملا اور بکری کا دودھ بھی نہیں ملا تو حضرت علی  مزدوری کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور ایک مٹھی بھر کھجوریں حاصل ہو گئیں۔
شدید ضرورت کے پیش نظر کاروبار کیا۔ باغ میں مزدوری کے لیے گئے۔ باغ والے نے کہا کہ ایک ڈول پر ایک کھجور حضرت علی راضی ہو گئے۔ اور کام کیا۔ مٹھی کھجوروں سے بھری چلے آئے۔ باغ والے نے کہا کہ میرا کام تو نہیں بنا۔ فرمایا تیرا کام بنے یا نہ بنے، میرا کام بن گیا۔
تین دن کے فاقے کے بعد یہ کھجوریں۔ تین دن کا انتظام تو ہو گیا، باغ والے نے کہا کہ اب اگر ڈول کھینچو تو ایک ڈول پر دو کھجوریں دوں گا۔ مزدوری بڑھا دی، لیکن حضرت علی  نے فرمایا کہ نہیں چاہیے۔ ڈبل مزدوری مل رہی ہے لیکن فرمایا کہ نہیں کرتا۔ مقصد دین کا کام تھا۔ کاروبار گھر کی ضرورت کی چیزیں تھیں۔ دین قربانی سے زندہ ہو گا اور دنیا کے اندرامن وامان آئے گا۔ دین داری بغیر جان ومال کی قربانی کے نہیں آسکتی ۔ دین کی بنیاد قربانی ہے۔ آج لوگوں کے ذہن میں دور فاروقی رہتا ہے کہ انہوں نے کسی کو پانچ ہزار، کسی کو دس ہزار، کسی کوبارہ ہزار دیا اور دین کا کام لوگ کرتے تھے۔ تو دور فاروقی پھلوں کا زمانہ ہے۔ دور نبوی صلی الله علیہ وسلم اور دور صدیقی یہ جڑو بنیاد کا زمانہ ہے ۔ جڑ وبنیاد کے زمانے میں مال کو بنیاد بنا کر دین کا کام نہیں کیا۔ بلکہ دین کا کام قربانیاں دینے پر کیا۔ حضرت عمر کے زمانے میں ملک ومال آیا اور حد سے زیادہ آیا۔ اب انہوں نے بیٹھ کر مشورہ کیا کہ اس کا کیا کیا جائے ؟ تو وہ ترتیب مشورہ سے قائم کر دی۔ مال دے کر دین کا کام نہیں کرایا، بلکہ قربانیوں سے دین کا کام کیا تو مال آیا۔ پھر اس ملک ومال کو بھی دن کے تقاضوں پر قربان کیا۔
دین کواگر دنیا کے اندر لانا ہے تو دور نبوی صلی الله علیہ وسلم اور دور صدیقی  نمونہ بنے گا۔ دین کی جڑو بنیاد کا دور، دور نبوی صلی الله علیہ وسلم اور صدیقی دور ہے۔ کہیں ذہن میں یہ سوال نہ ہو کہ مال تو تھا ہی نہیں تو دیتے کہاں سے؟ یہ کہنا بھی غلط ہے۔
کیوں کہ الله تعالیٰ کی طرف سے رسول پاک کو پیش کش ہے کہ مکہ کے پہاڑ کو سونا چاندی اور ہیرے بنا دیں اور الله تعالیٰ کے لیے یہ آسان تھا۔ کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے انکار کیا۔ حالاں کہ آخر الله کی طرف سے ہے اور بالکل حلال کا مال ہے۔ حرام کا بھی نہیں۔ مگر رسول پاک صلی الله علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ اگر مکہ کے پہاڑ سونا چاندی بنے اور پھر لوگوں کو سونا چاندی کاٹ کاٹ کر دے دیں اور دین کا کام لیں تو پھر دین کے اندر وہ طاقت نہیں رہے گی جس سے الله کی طاقت ساتھ ہو۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے یہ منظور نہیں کیا اور فرمایا کہ ایک دن کھانا ملے گا تو کھا کر شکر کروں گا اور دین کا کام کروں گا۔ دوسرے دن اگر کھانا نہ ملے تو صبر کر لوں گا اور دین کا کام کر لوں گا۔
اس لیے کہ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم قیامت تک کے لیے یہ بنیاد قائم کر رہے ہیں کہ اگر یہ سونا چاندی بن جاتا اور کاٹ کاٹ کر لوگوں کو دیتے اور ان سے دین کا کام لیتے توپھر لوگ دین کا کام سونے چاندی کے لیے کرتے، الله کے لیے نہ کرتے۔ پھر دین میں وہ طاقت نہ ہو تی جس کے سامنے قیصر وکسری کی طاقتیں زیر ہو گئیں۔
دین میں طاقت الله کی نسبت سے آتی ہے
دین میں طاقت الله کی نسبت سے آتی ہے۔ اگر سونا چاندی دے کر دین کا کام کروایا تو پھر دین الله کے لیے نہ ہو گا۔ اور دین میں الله کی طاقت نہ ہو گی۔اس بنا پر رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے فاقوں پر، تنگی ترشیوں پر دین کا کام خود بھی کیا اور صحابہ کو بھی ایسی حالت میں کرنے پر کھڑا کر دیا۔
قانونی طور پر کسی کو کچھ دینا نہیں تھا۔ اخلاقی طور پر جتنا ہو سکتا لوگ کرتے تھے۔ کسی غریب کا ذہن مال دار کی طرف نہیں جاتاتھا۔ غریب کہتا ہے کہ پتے چبا کر دین کا کام کروں گا۔ غریب کو کھلانا ضابطے میں تھا۔ اخلاقی طور پر تھا۔ اور اخلاقی طور پر پورا قرآن وحدیث کہتا ہے کہ انفقوا خرچ کرو، خرچ کرو، لیکن قانونی طور پر ایسا نہیں تھا۔
پورے قرآن وحدیث میں دوباتیں ہیں!
پورے قرآن وحدیث میں دو باتیں ہیں کچھ احکامات تو قانونی ہیں اور کچھ احکامات وہ ملیں گے جو اخلاقی ہیں۔ قانونی احکامات کو آج کی اصطلاح میں سمجھو، فتویٰ اور اخلاقی احکامات کو آج کی اصطلاح میں سمجھو تقویٰ، فتویٰ حدود شریعت اور بارڈرہے اور مزاج شریعت۔ شریعت سادگی ہے۔ شریعت کا مزاج تقویٰ کی لائن کا مزاج ہے۔ دنیا کے اندر اگر دین پھیلے گا تو وہ اخلاق سے پھیلے گا، فتویٰ تو حدود شریعت بتائے گا۔
حضرت عمر کے زمانے میں باوجود کہ مال بے انتہا آیا لیکن حضرت عمر نے سادگی پر سب کچھ باقی رکھا۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ بیٹے نے دعوت کی اور گوشت میں گھی ڈالا تو حضرت عمر نے کھانے سے انکار کر دیا کہ میں نہیں کھاؤں گا۔ اس لیے کہ دوسالن جمع ہو گئے ہیں جہاں دو سالن ہوں گے وہاں عمر نہیں ہو گا۔
صدیق اکبر نے ایک دفعہ پانی مانگا، شہد ملا کر دیا گیا تو آپ نے انکار کر دیا ۔ اور رونے لگے کہ جب پانی سے ضرورت پوری ہوتی ہے تو شہد کیوں ملایا گیا؟ یہ تھی تقویٰ والی لائن اور مزاج شریعت۔ ایک دسترخوان پر چار سالن جمع ہو گئے تو حضرت عمر اسے حرام نہیں سمجھتے تھے اور نہ حضرت ابوبکر اسے حرام کہتے تھے اور نہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے، لیکن حرام کی حدود سے نکل کر حلال کے بارڈ پر آجانا یہ اس کے لیے نمونہ ہے جو حرام میں ہوا اور پہلے سے حلال میں ہو وہ حلال کے بارڈر سے نکل کر درمیان میں آجائے۔ فتوی سے ہٹ کر تقوے کی طرف آجائے۔ درمیان میں رہے گا تو حرام کے اندر مبتلا ہونے کا خطرہ نہیں ہو گا او راگر حلال کے بارڈر پر رہا تو خطرہ ہے کہ کہیں حلال کے بارڈر کو کراس کرکے حرام کے اندر چلا جائے رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:” الحلال بین، والحرام بین، وبینھما مشتبھات“․ (حدیث نبوی)
جانور اگر تمہارے کھیت میں چرتا ہے اور درمیان میں چرے تو تمہارے کھیت میں رہے گا او راگر کھیت کے کنارے چلاجائے تو خطرہ ہے کہ کسی دوسرے کے کھیت میں چلا نہ جائے تو وہ دور صدیقی اور دور فاروقی تقویٰ والا دور ہے۔ مزاج شریعت والا دور ہے۔ پیسہ کتنا ہی ہو، لیکن زندگی سادہ اور جب عمر نے انتقال فرمایا تو چھیاسی ہزار کا قرضہ ان پر تھا اور بیٹے کو ادا کرنے کی وصیت کی۔
دور صدیقی اور دور فاروقی مزاج شریعت کو بتاتا ہے ، سادگی کو بتاتا ہے، حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانے میں بے شک مکانات پکے بن گئے ۔ مسجد نبوی پکی بن گئی ۔ کھانا لوگوں کا بڑھیا بن گیا، مگر ان کی زندگی بذات خود سیدھی سادی تھی۔ حضرت علی کوفے میں ہیں او رایک چادر میں ہیں اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں ۔ کسی نے کہا کہ حضرت بڑے بڑے کمبل آئے ہیں اوران میں سے ایک لے لیں۔ فرمایا جو چادرمیں نے لی ہے وہ بھی مدینہ سے آئی ہے ۔ اجتماعی مال کو میں نہیں لوں گا۔ اجتماعی مال کو وہ لوگ لینا بہت برا سمجھتے تھے، جیسے یتیم کا مال ہو۔ 
حضرت عمر کے سامنے ایک بچی آئی تو پوچھا یہ کس کی بچی ہے جو اتنی کمزور ہے ؟ صاحبزادوں نے کہا حضرت! آپ کی بچی ہے ۔ فرمایا کیوں اتنی کمزور ہو گئی؟ کہنے لگے آپ کی وجہ سے ، آپ زیادہ تنگی کرتے ہیں ۔ فرمایا اپنی کمائی سے اس کا علاج کرو۔ اس انتظار میں مت رہنا کہ اجتماعی مال سے دوں گا۔ منع کر دیا۔ حضرت علی وعثمان کے زمانے میں مکان پکے بنے۔ کھانا بڑھیا بنا، کیوں کہ قیامت تک اسلام کو چلنا ہے، بارڈر بھی بتانا ضروری ہے، ورنہ اگر چاروں خلفاء ایک بات پر آجاتے کہ بالکل سادہ زندگی ہونی چاہیے تو نئے نئے خوش حال قسم کے لوگ مسلمان بنتے تو بیچارے پریشان ہو جاتے اور یہ لوگ اسلام سے محروم ہو جاتے، اس لیے بارڈر کا بتانا بھی ضروری تھا۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم یہ ارشاد فرماگئے کہ:
”علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین“․ ( حدیث نبوی)
تم لوگ میری سنت کو مضبوطی سے پکڑواورمیرے بعد خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑو۔
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ اصل زمانہ ہے ۔ سارے نبیوں کا زمانہ بطور تمہید کے ہے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ بطور اصل ہے اور خلفائے راشدین کا زمانہ بطور تتمہ ہے۔
اب قیامت تک جو بھی ہمیں کرنا ہو گا۔ اس کے لیے تمہید تو نبیوں کا دور ہو گا کہ باپ کو کیسے دعوت دیں، جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی ،بیٹے کو کیسے دعوت دیں جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے دی ۔ قوموں کو کیسے دعوت دیں، سارے نبیوں نے بتایا، یہ بطور تمہید کے ہے، جو کوئی بڑا آتا ہے اور آنے والا ہوتا ہے تو چھوٹے پہلے آتے ہیں ۔ کوئی روحانی یا جسمانی لائن کے بڑے کاجب آنا ہوتا ہے تو کتنے مہینوں پہلے اس کا انتظام ہوتا ہے، اس کے بعد وہ بڑا تھوڑے وقت کے لیے آتا ہے او رپھر چلا جایا کرتا ہے اورپھر بعد والے اس کی ترتیب دیا کرتے ہیں۔ایک بہت بڑے نبی آنے والے تھے اور ان کی آمد سے وقت سارے نبیوں کو پیغام بھیجا اور اطلاع دی۔
﴿واذ اخذ الله میثاق النبیین…﴾
یہ معاہدہ لیا گیا کہ نبی آنے والے ہیں کیا تم ان کی بات مانوں گے۔
تمام انبیائے کرام سے ایک معاہدہ لیا گیا تھا!
آخری زمانے میں ایک نبی آنے والے ہیں، کیا تم ان کی بات مانوگے؟ کیا تم ان کا اقرار کرو گے؟ تو سب نے اس کا اقرار کیا اور قیامت تک کے آنے والوں کو بات بتا دی کہ نبیوں کے مقابلے میں آنے والے، بڑے طاقت اور مال والے تباہ و برباد ہوئے اور نبیوں کی بات ماننے والے کمزور قسم کے لوگ کامیاب ہو گئے۔ یہ بات قیامت تک کے لیے بتا دی اور پھر وہ بڑے نبی آگئے اور انہوں نے زمانے کے اندر قیامت تک کے لیے ترتیب قائم فرما دی اور 63 سال کے بعد تشریف لے گئے ۔ آگے خلفائے راشدین کا دور آیا اور اس کو تتمہ کے طور پر رسو لِ پاک صلی الله علیہ وسلم نے بتا دیا۔ اس لیے چاروں خلفاء کا جو دور ہو گا اس میں اصول الگ الگ ہوں گے اور سب کی ضرورت ہے ۔ دور صدیقی ، دور فاروقی یہ تو بتاتا ہے ۔ مزاج شریعت اور تقوے کو اور دور عثمانی اور علی فتوے کو بتاتا ہے ۔ یعنی حدود شریعت کو قیامت تک کے لیے بتا دیا کہ اگر پکا مکان بنانا ہے تو اس کے اندر ریاونمود نہ ہو اور کوئی شرعی اصول کے خلاف نہ ہو تو پکا مکان بنانا جائز ہے،پکی مسجد بنانا جائز ہے، کئی قسم کے کھانے کھانا جائز ہے ۔ بڑھیا کھانا اور بڑھیا کپڑا استعمال میں لانا جائز ہے ۔ لوگوں کو حرام کی حد سے بچانا ہے، انہیں حلال کی حد بتانا ہے، یکدم اگر کسی کو درمیان تقویٰ میں لائیں گے تو وہ تنگ ہو جائے گا۔پریشان ہو جائے گا۔ ہم لوگوں کو تو مزاج شریعت پر رہنا ہے او رجو نئے قسم کے لوگ آئیں گے پہلے ان بیچاروں کو حددو شریعت پر لاؤ اور دھیمے انداز میں، پھر وہ آگے بڑھتے رہیں گے۔ پھر وہ سادگی پر آتے رہیں گے اور سادگی کے بارے میں ہم یکدم سے نہیں کہتے۔ اگر سادگی کے بارے میں یکدم سے کہیں تو پھر برداشت سے باہر ہو گی۔ جب مدینہ کے کھیتوں سے غلہ آیا اور برکت والی کھیتیاں بن گئیں تو رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینے والو! یہ زمین تم واپسی لے لو۔ الله نے برکت دے دی۔ کہنے لگے کہ حضرت !یہ زمینیں تو ہمارے ان بھائیوں کو دیں جو گھر چھوڑ کر مکہ سے آئے ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ جوہری بھری زمین تم ان کو دے رہے ہو تو جو زمین تم نے ان کو پہلے دی تھی وہ واپسی لے لو۔ مدینے والوں نے کہا کہ حضرت! جو معاہدہ منیٰ میں ہم نے آپ سے کیا تھا وہ زمین کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ جنت کے لیے کیا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم تو ہم کو جنت دلوادیں، ہمیں ہری بھری زمینیں نہیں چاہئیں اور ہمیں ہماری دی ہوئی زمینیں بھی نہیں چاہئیں۔ اس طور سے جب یہ عوامل زندہ ہوں گے تو پورے عالم کے اندر امن وامان آئے گا۔
دینی زندگی کے بغیر مسلمان کی حیثیت!
اسلام اور دینی زندگی کے بغیر مسلمان ایسے ہیں جیسے دو کان کے بغیر تاجر۔ آج کا مسلمان دنیا میں ہے، لیکن بغیر اسلام اور دینی زندگی کے ہے، اسلام کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں مل رہا۔ اس بنا پر پوری دنیا الجھی ہوئی ہے۔ وہ اسلامی زندگی پہلے زندگیوں میں آجائے تو پھر دعوت کے قابل ہوں گے۔ آج دنیا پریشان ہے، کسی کی بھی خواہ وہ کتنا بڑا ہو نہ جان محفوظ ہے، نہ مال محفوظ ہے، نہ آبرو محفوظ ہے۔ اور راستہ تلاش کر رہے ہیں، اسی پریشانی کو دور کرنے کے لیے پوری دنیا نجات کا راستہ تلاش کر رہی ہے، وہ راستہ مسلمانوں کے پاس موجود ہے، لیکن کتابوں کے اندر ہے، مسلمانوں کی عملی زندگی میں نہیں ہے۔ وہ بجائے نفوس کے نقوش میں ہے، اس لیے پوری دنیا پریشان ہے، پوری دنیا کی پریشانیوں کا حل او رجہنم کی آگ سے بچنے کا حل رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا پاکیزہ طریقہ ہے۔ جسے صحابہ نے اپنی زندگی کے اندر چالو کر دیا اور امن وامان پوری دنیا کے اندر قائم کر دیا۔
آج بھی اگر پورے عالم کو یہ پاکیزہ طریقہ دکھادیں تو کوئی لڑنے کو تیار نہیں ہو گا اورہمیں کسی سے لڑنا نہیں ۔ ہمارا کوئی اصلی دشمن نہیں ہے۔ ہمارا اصلی دشمن تو شیطان ہے۔
اصلی دشمن ہمارا نفس وشیطان ہے
یہ یہود ونصاریٰ۔ ہندو، عیسائی، سکھ یہ ہمارے اصلی دشمن نہیں ہیں۔ ہمارا اصلی دشمن شیطان ونفس ہیں۔ یہ جتنے غیر مسلم ہیں یہ ہمارے اصلی دشمن نہیں ہیں ۔ بلکہ وقتی طور پر یہ شیطان کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں تو اس لیے ہمارے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ورنہ اصلی دشمن کوئی نہیں، یہ آج بھی اگر اس پاکیزہ طریقے کو قبول کریں تو ہمارے بھائی ہیں۔ وقتی طور پر ہماری اولاد بھی دشمن ہو سکتی ہے۔
﴿یا ایھا الذین آمنوا ان من ازواجکم واولاد کم عدوا لکم﴾․ (سورة تغابن، آیت:14)
ہمارے بچے بھی دشمن بن سکتے ہیں۔ ہماری اولاد بھی قتی طور پر دشمن ہو سکتی ہے۔
لیکن اصل دشمن ہمارا نفس وشیطان ہے۔ اور اسی دشمن کی وجہ سے آج پوری دنیاپریشان ہے۔ اس پاکیزہ طریقہ کی طرف یہ دشمن انسان کو آنے نہیں دیتا او رانسان کو ذلیل خوار اور بے قیمت بناتا ہے اور سب سے بے قیمت آج انسان بن چکا ہے۔ کیوں کہ اس سے انسانیت نکل چکی ہے اور وہ پاکیزہ طریقہ نکل چکا ہے۔ اگر یہ پاکیزہ طریقہ دوبارہ انسان میں آجائے تو پبلک بھی چین سے رہے گی، غریب بھی چین سے رہے گا اور پھر جوق درجوق لوگ اسی پاکیزہ طریقہ کے اندر داخل ہوتے چلے جائیں گے۔
﴿اذا جاء نصر الله والفتح… افواجا﴾
پھر جوق در جوق لوگ اس پاکیزہ دین داخل ہوں گے۔

Flag Counter