Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1430ھ

ہ رسالہ

13 - 15
***
خير خواہی
مولانا کمال الدین المسترشد
خوف ورجا
الله تعالیٰ کی ذات او رتمام صفات پر ایمان لانے کا ہر عاقل وبالغ انسان مکلف ہے اور چوں کہ الله کی صفات میں سے بعض جلالی ہیں اور بعض جمالی اور یہ امر بھی طے شدہ ہے کہ ان صفات کے مظاہر اور آثار بھی موجود ہیں، لہٰذا ان مظاہروآثار کی تصدیق بھی ضروری ہے کہ بغیر اس کے ایمان کالعدم ہے۔ من جملہ ان مظاہر وآثار کے دوزخ وجنت بھی ہیں، جن پر ایمان ، ایمان بالآخرہ کے ضمن میں آتا ہے۔
پس اس بات کا یقین رکھنا ضروری ہے کہ الله جس کو چاہے اس کے گناہوں کو معاف کرکے جنت کے اونچے درجات تک پہنچا سکتا ہے، کیوں کہ وہ ہرشے کی قدرت رکھتا ہے اور غفور الرحیم بھی ہے اور صفات جلالیہ کی بنا پر وہ جس کو عذاب دینا چاہے تو بھی اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ان دونوں قسم کی صفات اور ان کے مظاہر پر ایمان لانے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب ہم رحمت خداوندی کا تصور کریں تو یہ امید پیدا ہو کہ ہمارے گناہ کو معاف کر دے گا اور جب جلالیت کا تصور ہو تو یہ خوف پیدا ہو کہ ہمارے جرائم کی وجہ سے ہمارا مواخذہ ہو گا۔ اسی کا نام ہے خوف ورجا یعنی ڈر بھی ہو اور امید بھی۔
اگر ان صفات میں سے کسی ایک کو یا اس کے مظہر کو نظر انداز کیا جائے تو ایمان باقی نہیں رہتا، جیسا کہ شرح عقائد میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔
الله تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونا کفر ہے، یعنی خوف اتنا زیادہ ہو کہ رحمت کی کوئی امید باقی نہ رہے، یہ کفر ہے ۔چناں چہ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ:” بے شک ناامید نہیں ہوتے الله کے فیض سے، مگروہی لوگ جو کافر ہیں ۔“
اور الله کے عذاب سے بالکل بے خوف وبے پروا ہونا ( بھی) کفر ہے۔
ترجمہ:” سوبے ڈر نہیں ہوتے الله کے داؤ سے، مگر خرابی میں پڑنے والے۔“
یعنی یاتو آخرت سے بالکل لا تعلق ہو کر بے پروا اور بے خوف ہو جائے یا امید اتنی بڑھ جائے کہ خوف ہی ختم کر دے، یہ دونوں صورتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہیں، تاہم نیک عمل کے ساتھ رجا کا پہلو خوف پر غالب ہونا چاہیے کہ یہ علامت محبت ہے او رجو کام محبت وعقیدت کی بنیاد پر کیا جائے اس کا عوض اس عمل سے زیادہ ہوتا ہے، جو محض خوف کی بنا پر اور سزا سے بچنے کے لیے کیا جائے۔ چناں چہ ایک حدیث قدسی میں یہ کلمات وارد ہوئے ہیں :
”میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اب وہ جو چاہے، گمان کرے۔“ (ترمذی ص200 ج2)
اور اسی حکمت کے تحت موت کے وقت حسن ظن اور رجا کی تاکید آئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:
”تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال پر کہ وہ حسن ظن رکھتا ہو الله کے ساتھ۔“( مسلم387 ج2)
البتہ اگر کوئی کام خلاف شرع ہو تو اس کے ارتکاب کی صورت میں خوف ہی محمود ومطلوب ہے، کیوں کہ اسی کی بدولت گناہ کرنے کی جرأت ختم ہو جاتی ہے یا پھر توبہ کرنے کی توفیق ملتی ہے، گویارجا کا زیادہ تر تعلق طاقت سے ہے، تاکہ مزید طاعات وعبادات کی رغبت پیدا ہو اور نیکی کی ہمت تیز تر ہو اور خوف اکثروبیشتر غیر مشروع کاموں کے ساتھ مربوط ہونا چاہیے، تاکہ گناہ کرنے کی نوبت نہ آئے اور کیے ہوئے گناہوں کو بذریعہ توبہ معاف کراسکے۔
تنبیہ
خوف اور خشیت خداوندی، قساوت قلبی او رجہالت کی ضد ہے، نہ کہ شجاعت کی، کیوں کہ ایک فضیلت دوسری فضیلت کی ضد اور مبائن ہر گز نہیں ہو سکتی، دوسرے یہ کہ انبیاء علیہم السلام عظیم شجاعت وبہادری کے باوجود اپنے رب سے نہایت ہی خائف ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا خوف، جہالت اور قسوت کی ضد اور علم کے لوازم میں سے ہے، جس کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے۔
﴿إنما یخشی الله من عبادہ العلماء﴾
رضا برقضا
دارالتکلیف یعنی دنیا میں الله تعالیٰ نے اکثر اشیا کے حصول کو اسباب اور وسائل پر مبنی کیا ہے اور ان اسباب میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کے اختیار کرنے اور بروئے کار لانے کا انسان کو حکم ہے، مثلاً دعا، دوا اور غذا وغیرہ۔ پھر عادت باری تعالیٰ بھی یہی ہے کہ ان اسباب کے اختیار کرنے کے بعد مسبب ( مطلوب) حاصل ہو جاتا ہے، تاہم ضروری نہیں کہ وہ ضرور حاصل ہو، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی علاج، معالجہ کے باوجود مریض کی طبیعت مزید خراب ہو کر موت کا شکار ہو جاتا ہے، کیوں کہ الله نے ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر کیا ہے، اس وقت کے آنے پر تمام اسباب ووسائل ناکام ہو جاتے ہیں، مگر وہ وقت چوں کہ انسان پر مخفی ہے اس لیے اس کو اسباب اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
لہٰذا بندے کی نگاہ ہمہ وقت قضا پر ہونی چاہیے کہ اسباب موثر نہیں، بلکہ ہوتا وہی ہے جو الله نے مقر ر کیا ہے۔
پس اگر اسباب کے بعد وہ چیز ( مطلوب) حاصل ہو تو ایک طبعی خوشی حاصل ہوتی ہے، لیکن مقصد کے فوت ہونے کی صورت میں بھی عقلی خوشی ہونی چاہیے کہ الله کی اس میں ضرور کوئی حکمت ہو گی۔ یہ اگرچہ عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے مگر اس میں بہتری ہوتی ہے، اس کو کہتے ہیں ”رضا برقضا“، جو کہ فرض ہے۔
ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے چند صحابہ سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول الله! ہم مؤمنین مسلمین ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارے ایمان کی علامت کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ مصیبت پر صبر کرتے ہیں اور راحت پر شکر کرتے ہیں اور قضا پر راضی رہتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، بخدا! تم سچے مومن ہو۔ (حاکم)
ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ وہ جنگل میں رہتے تھے اور انہوں نے ایک گدھا پال رکھا تھا، جس پر اسباب لادتے تھے او رایک کتا رکھ چھوڑا تھا، جو مکان کی حفاظت کیا کرتا تھا ۔ایک مرغ پال رکھا تھا، جو اذان دے کر سب کوجگا دیا کرتا تھا۔ الله کی شان کہ ایک دن لومڑی آئی اور مرغ کو پکڑ کر لے گئی۔ ان کی بیوی رونے لگی کہ ہائے مرغ جاتا رہا! شیخ نے فرمایا، ” رؤ مت، اسی میں بہتری ہو گی۔“ اس کے بعد بھیڑیا آیا اور گدھے کو مار گیا۔اس وقت بیوی پھر رنجیدہ ہوئی، شیخ نے کہا اس میں خیر تھی، رونے کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعداچانک کتا مر گیا او ربیوی پھر غمگین ہوئی تو شیخ نے پھر یہی فرمایا کہ غم نہ کرو، اس میں بھلائی تھی۔ غرض صبح ہوئی تو دفعتاً غنیم کا ایک لشکر اس میدان میں لوٹنے کے لیے آپڑا اور جتنے بھی گھروں کا ان کو پتہ چلا سب کو لوٹ لیا اور بجزان بزرگ اور ان کی بیوی کے سب ہی کو گرفتار کرکے باندی غلام بنا کر لے گئے۔
ان لوگوں کے مکانات کا پتہ دشمن کی فوج کو اس طرح چلا کہ کسی کے دروازے کا کتا آہٹ پاکر بھونکنے لگا اور کسی کا گدھا رینگ رہا تھا اور کسی کا مرغ اپنی بانگ بلند کر رہا تھا۔ اس وقت ان بزرگ نے اپنی بیوی سے کہا کہ دیکھا، اس بادیہ نشین قوم کی بربادی کا سبب یہی جانور بن گئے، پس خدا کا کتنا فضل تھا کہ ہمارے تینوں جانور پہلے ہی مر گئے، ورنہ آج ہم بھی گرفتار ہوتے۔ ( تبلیغ دین ص312)
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ اس کی ایک بہترین مثال ہے کہ تکوینی اسرار اور حِکَم پر مطلع ہونا مشکل ہے، لہٰذا اگر انسان کو طبعی طور پر کسی بات پر صدمہ ہو مگر عقلی اعتبار سے ”الخیر فیما وقع“ کے مطابق رضا مندی ہی اس کے حق میں بہتر ہے، کیوں کہ عدم رضا او ربرا بھلا کہنے سے خدا کے فیصلوں میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔
لہٰذا مقصد کے فوت ہو جانے کے ساتھ اپنے ایمان کو ضائع کرنا دانش مندی کے خلاف ہے۔
توکل
لفظ توکل وکالت سے مشتق ہے، جس کے معنی اعتماد وبھروسہ کے ہیں ، جس پر معاملات میں اعتماد کیا جاتا ہے اسے وکیل کہتے ہیں۔ لہٰذا الله پر توکل کے معنی ہوں گے اس پر اعتماد کرکے اپنے کام اس کے سپرد کرنا اور مطمئن ہو کر نتائج اس کے حوالہ کرنا۔
بہ الفاظ دیگر جب یہ یقین حاصل ہو جائے کہ الله یکتا اور فاعل مختار اور تمام صفات کمالیہ میں مستقل ہے او راپنے افعال میں کسی کا محتاج نہیں اور یہ کہ کو ئی اس کے کاموں میں خلل نہیں ڈال سکتا او راس کی سنت جاریہ ہے کہ اسباب کے بعد اثر مرتب کر دیتا ہے، تاہم اس پر کوئی جبر اور زبردستی نہیں کرسکتا اور یہ کہ اسباب ، وسائل اور ذرائع توہیں مگر مؤثر ہرگز نہیں اور پھر اسباب اختیار کرتے وقت بھی اعتماد اور بھروسہ الله ہی پر ہو، نہ کہ اپنی مادی طاقت اوراسباب ظاہری پر تویہ شخص متوکل ہے او را س کی یہ حالت توکل ہے۔
مذکورہ تعریف میں توکل کو تین ارکان پر مبنی کیا گیا ہے، نمبرتوحید،نمبر احالہ، نمبر عمل او رکسب۔ توحید کا مختصر مطلب یہ ہے کہ متوکل کو یہ یقین حاصل ہو کہ الله اپنی صفات کمالیہ میں مستقل او ریکتا ہے، کوئی ان صفات میں اس کا شریک نہیں اور نہ ہی کوئی ان صفات او ران کے آثار ومظاہر میں اس کا مزاحم ہو سکتا ہے۔ دوسرے رکن حال یا احالہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کام خدا کے حوالہ کرکے اپنے قلب کو مطمئن کیا جائے اور غیر الله کی طرف التفات نہ رہے۔
تیسرا رکن عمل یعنی اسباب ظاہری کو اپنی قدرت کے مطابق جمع کرنا اور اختیار کرنا، لہٰذا بعض جاہلوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ توکل محنت ومزدوری او رکسب کے چھوڑ دینے کا نام ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بے کاربن کر بیٹھ جائے، اگر بیمار ہو تو دوا علاج نہ کیا جائے، بے سوچے سمجھے اپنے آپ کو خطرات وہلاکت میں ڈال دیا کرے، کبھی آگ میں گھس جائے اور کہیں شیر کے منھ میں ہاتھ دے دے، تب متوکل کہلائے۔ ایسے متوکلین آج بکثرت موجود ہیں۔ میں نے خود ان کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انہوں نے اس جہالت اور غلطی کی بنا پر رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔ صد افسوس کہ جہالت کا علاج نہایت مشکل ہے، حالاں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا اسوہُ حسنہ ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے اسباب اختیار کرنے سے کب روکا ہے، بلکہ انہوں نے توخود بھی اپنی قدرت واستطاعت کے مطابق اسباب اختیار کیے اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا۔ چناں چہ وہ کبھی دشمن کے خلاف میدان جنگ میں خالی ہاتھ نہیں نکلے، بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کو منظم کیا اور اسلحہ اور دیگر آلات حرب کا انتظام فرمایا، محاذ جنگ پر پہنچ کر مناسب حال ومقام کا نقشہ تیار کیا۔ مختلف مورچے بنا کر صحابہ کرام کو ان پر بٹھایا وغیرہ، یہ سب مادی انتظامات ہی تو تھے۔ ہاں! اتنی بات ضرور ہے کہ اسباب پر فخر او رناز توکل کے خلاف ہے اور یہی فرق ہے مومن اور کافر کے درمیان کہ کافر کے برخلاف مومن مادی اسباب کے اجتماع کے باوجود ان پر یقین نہیں رکھتا ۔
توکل کی فضیلت
جنگ یرموک کے موقع پر جب حضرت عمررضی الله تعالیٰ عنہ کو مزید کمک بھیجنے کے لیے لکھا گیا اور قلت تعداد کی شکایت کی گئی تو تحریر فرمایا:
”میرے پاس تمہارا خط آیا، جس میں تم نے زیادہ فوجی مدد طلب کی ہے، لیکن میں تم کو ایک ایسی ذات کاپتہ دیتا ہوں جو آخرت کے لحاظ سے زیادہ محفوظ ہے۔وہ الله رب العالمین کی ذات ہے۔ لہٰذا تم اس سے مدد طلب کرو۔ محمد صلی الله علیہ وسلم کو بدر میں باجود قلت عدد کے مدد دی گئی، جب میرا یہ خط تم کو پہنچے تو ان پر ٹوٹ پڑو اور مجھ سے اس سلسلے میں کوئی مراجعت نہ کرو۔“ (معارف القرآن ص:167 جلد2 بحوالہ مسند احمد)
اس واقعہ کے راوی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کو یہ خط ملا، ہم نے الله کا نام لے کر کفار کے لشکر کثیر پر یکبارگی حملہ کیا ،جس میں ان کو شکست فاش ہوئی۔
تنبیہ
جہاں بغیر کسبِ سبب کے، کسی کی غیبی مدد کی جائے تو اسے توکل نہیں کہتے، بلکہ وہ نبی کے لیے قبل از نبوت ارہاص اور بعثت کے زمانے میں معجزہ ہے اور ولی کے لیے کرامت اور عام آدمی کے لیے معونت ہے اور یہ سب غیر اختیاری ہیں، جب کہ توکل اختیاری ہے۔
صبر وشکر
عبودیت کے لیے جس طرح اطاعت ضروری ہے کہ اپنے آقا کے ہر حکم کی تعمیل ہو اور کسی چیز میں اپنی مرضی کو اس کے حکم پر مقدم نہ کیا جائے، یعنی جہاں حکم اور خواہش نفس میں تضاد ہو تو حکم پر چلنے کو ترجیح دے کر غلامی کاثبوت دینا اپنا اولین فرض سمجھے۔ اس طرح صبر اور شکر بھی حقیقی بندگی کے اہم رکن ہیں کہ اگر آقا کی طرف سے کوئی عتاب ہو تو اس پر صبر کرے اور یہ سوچے کہ یہ سزا میری کسی کوتاہی کی بنا پر مجھے مل رہی ہے، لہٰذا اس کے ازالہ کی کوشش کرے اور اسے ظلم پر محمول کرنے کی غلطی سے کوسوں دور رہے کہ اس سے آقا ناراض ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں مزید عقاب کا باب کھل ہو جاتا ہے او راگر نعمت ملے تو اسے اپنا کمال نہ سمجھے، بلکہ اسے آقا کا احسان سمجھ کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اپنی مدح کی بجائے مولا کی تعریف سے زبان تر کرنی چاہیے۔
گویا کمال عبودیت کے تین رکن ہوئے، اطاعت، صبر اور شکر اور یہی فرق ہے انسان اور دوسری مخلوقات کے درمیان کہ مجموعی طور پر یہ تینوں خوبیاں کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔ قرآن پاک میں ان تینوں پر بہت زیادہ ثواب اور ترقی درجات کا وعدہ موجود ہے۔ بصورت دیگر خسران عظیم سے اپنا دامن بچانا بہت مشکل ہے، پھر ان تینوں کے درمیان تلازم پایا جاتا ہے کہ الله نے انسان کو جو چیز عطا کی ہے اس کو شرع کے مطابق بروئے کار لانے کا نام اطاعت بھی ہے اور شکر بھی اور ظاہر ہے کہ اس میں نفس کی مرضی کے خلاف بھی چلنا ہو گا تو یہ بعینہ صبر علی الطاعت ہوا، مثلاً الله نے انسان کو مال دیا ہے تو اس کو اپنی مرضی کے خلاف شرع کے مطابق خرچ کرنا طاعت بھی ہے اور شکر بھی اور چوں کہ اس میں مرضی اور نفسانی خواہشات کی مخالفت بھی ہوئی تو یہ صبر کا بھی مصداق ہوا۔
اسی طرح انسانی اعضا کو معصیت کے بجائے طاعات میں استعمال کرنا تینوں کا مصداق ہے، حضور علیہ السلام کے پاؤں مبارک کثرت عبادت کی وجہ سے متورم ہو جاتے تھے اور تہجد میں آپ صلی الله علیہ وسلم گریہ وبکا فرماتے تھے تو اس حال کو دیکھ کر ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے عرض کیا ” یا رسول الله! آپ کے تو اگلے اور پچھلے سب گناہ معاف ہو گئے ہیں، پس آپ اس قدر گریہ وبکا کیوں فرماتے ہیں ؟“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: ”أفلا أکون عبداً شکوراً؟” اے عائشہ! کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔ (ابن حبان)
توبہ
پوری زندگی ہر قسم کی معصیت وخطا سے پاک اور دور رہنا اور خواہشات نفسانی کا اس طرح قلع قمع کرنا کہ کسی طرح گناہ کی نوبت نہ آئے معصومیت کہلاتی ہے، جو بجز انبیا علیہم السلام کے کسی بشر کے بس میں نہیں، الایہ کہ الله تعالیٰ اسے محفوظ رکھے، ورنہ ہر انسان سے کو ئی نہ کوئی گناہ ضرور صادر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دل پر سیاہ دھبّا نمودار ہو کر زنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس کے بعد حکمت اور خیر وبھلائی کی بات دل پر اثر نہیں کرسکتی ۔
یہ معاملہ تو بہت ہی پیچیدہ معلوم ہوتا ہے کہ دل کو کس طرح صیقل کیا جائے ؟ مگر الله عزوجل نے اس کو نہایت سہل فرمایا کہ خالص توبہ کرنے پر وہ نہ صرف یہ کہ گناہ معاف کرتا ہے بلکہ توبہ کرنے والوں سے محبت بھی کرتا ہے، گویا گناہ کی وجہ سے آدمی الله عزوجل سے دور ہو جاتا ہے اور توبہ کرنے سے مقرب او رمحبوب الہٰی بن جاتا ہے ۔
توبہ کے معنی
توبہ کے معنی رجوع کرنے اوربُعد سے قرب کی جانب لوٹ آنے کے ہیں اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ تائب کو اس مضمون کی پوری آگاہی حاصل ہو کہ گناہ سَمّ قاتل او رتباہ کر دینے والیشے ہے اور پھر خوف او رندامت پیدا ہو کر گناہ کی تلافی کرنے کی سچی اور خالص رغبت اتنی پیدا ہو جائے کہ جس گناہ میں مبتلا تھا اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کے لیے اس گناہ سے بچنے اور پرہیز کرنے کا عزم مصمم کر لے اور اس کے ساتھ ہی جہاں تک ہو سکے، گزشتہ تقصیر وکوتاہی کا تدارک کرے۔
توبہ ہر شخص پر واجب ہے …
امام غزالی رحمة الله علیہ نے اس مقام پر ایک عمدہ اور نفیس بحث کی ہے، جس کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ چوں کہ کوئی انسان کسی وقت بھی گناہ سے خالی نہیں ،اس لیے کوئی وقت بھی ایسا نہ ہو گا جس میں کوئی شخص توبہ سے مستغنی ہو، کیوں کہ انسان کسی حال اور کسی رتبہ کا بھی ہو یہ ضروری ہے کہ یا تو اس کے اعضا میں سے کوئی عضو کسی گناہ کا مرتکب ہو رہا ہو گا اور یا قلب کسی مذموم خصلت میں ضرور مبتلا ہو گا کہ جس کی اصلاح کے لیے توبہ کی حاجت ہو گی۔ او راگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی انسان فرشتہ سیرت اور ایسا مہذب بن گیا کہ اس کی کوئی عادت اور کوئی خصلت بھی ایسی نہیں ہے جس کی اصلاح کی ضرورت ہو، تب بھی کوئی وقت تو ایسا ضرور ہو گا جس میں حق تعالیٰ کی یاد سے اس کو غفلت ہو گی اور چوں کہ حق تعالی کا حکم ہے کہ” جب اپنے پرورد گار کو بھولو تو فوراً یاد کر لو “ اس لیے پھر بھی اس حالت سے رجوع کرنے اور غفلت سے یاد کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہوئی اور اسی رجوع کا نام توبہ ہے او راگر یہ بھی مان لیا جائے کہ کوئی شخص خدا کی یاد میں ہر آن مستغرق او رمحو ہے کہ کوئی لحظہ بھی قلب کو غفلت نہیں ہوتی۔ اگرچہ اس درجہ استغراق دشوار بلکہ قریب قریب ناممکن ہے، تاہم اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو ہم کہیں گے کہ انسان جس مقام اور جس مرتبہ میں ہے اس سے عالی وبلند مرتبہ میں پہنچنے سے پہلے پہلے پھر بھی توبہ کا محتاج ہے۔
ہر مقام اور ہر مرتبہ اپنے عالی اور مافوق مقام ومرتبہ کے اعتبار سے ناقص کہلاتا ہے اور ناقص سے باہر نکلنا اور کامل پر پہنچنا ہر شخص پر لازمی ہے۔ پس جب تک بھی اس میں رہے گا تو ضرورتوبہ کا محتاج ہو گا اور جب دوسرے درجہ پر پہنچے گا تو چوں کہ وہ درجہ بھی اپنے مافوق درجہ کے اعتبار سے ناقص ہے اس لیے جب تک اس سے باہر نہ نکلے اور اوپر نہ پہنچے اس وقت تک وہاں بھی توبہ کا حاجت مند ہو گا۔ اسی طرح سلسلہ چڑھتا رہے گا، کہ جوں جوں ترقی کرے گاتوں توں توبہ کا ضرورت مند ہوتا رہے گا ۔ چوں کہ مراتب قرب خدا وندی لامتناہی ہیں،لہٰذا کوئی حالت بھی ایسی نہ نکلے گی جس میں انسان کو نسبتاً ناقص مرتبہ میں رہنے کی وجہ سے توبہ کا ضرورت مند نہ کہا جائے۔
یہی بات ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی معصوم وبے گناہ ذات کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں دن میں سو مرتبہ توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ ( مسلم ص:346 ج2 ونسائی وابوداؤد) ہاں! یہ ضرور ہے کہ عام لوگوں کی توبہ ظاہری گناہوں سے ہوا کرتی ہے اور صالحین کی توبہ باطنی گناہوں اور مذموم اخلاق سے ہوا کرتی ہے۔ متقین کی توبہ شک وشبہات کے ابتلا سے ہوتی ہے اور محبین کی توبہ اس غفلت سے ہوتی ہے، جس نے ذکر الہٰی کو کسی لحظہ میں بھلا دیا تھا ۔ عارفین کی توبہ اس مقام سے ہوتی ہے، جس پر پہنچے ہوئے ہیں، مگر اس کے مافوق پر پہنچنا چاہتے ہیں اور چوں کہ مقامات لامتناہی ہیں ،اس لیے عارف کی توبہ کا کوئی منتہی نہیں اور نہ اس کے خاتمہ کا کوئی وقت متعین ہے ۔ (تبلیغ دین)
ایک اجمالی نظر
انسان کو الله تعالیٰ نے اس روئے زمین کا مالک بنایا ہے، گوکہ یہ ملک مجاز اور عارضی ہے، مگر بہ نسبت دوسری مخلوقات کے انسان کو اس مستعار تصرف اور حکمرانی کا زیادہ حق دیا ہے اور اس حکمت کی بنا پر اس کے مزاج میں الفت وانس جیسے قابل تمدن عناصر ودیعت کر دیے ہیں، مگر اول تو سب کے مزاج ایک جیسے نہیں کہ اگر بعض فرشتہ سیرت ہیں تو بعض دیگر درندہ صفت بھی تو ہیں، اس لیے اس معاشرے کا ہر فرد اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتا یا پھر چوں کہ حالات اور خارجی اسباب کی بنا پر مزاج میں تبدیلی آتی رہتی ہے،اس لیے بنی نوع انسانی کے اخلاق پر نشیب وفراز اور افراط وتفریط کے عناصر کا اکثر غلبہ اور تسلط رہتا ہے، خاص کر موجودہ حالات کی وجہ سے تو انسانی اخلاق درندوں کے اخلاق کے مساوی ہو گئے، وہ تمام خوبیاں جن کی بدولت انسان مکرم اوراشرف المخلوقات کے لقب سے ملقب ہوا تھا، انسانی معاشرہ سے کوسوں دور چلی گئیں۔
انس ومحبت کی بجائے اب انسان نفرتوں کا شکار ہو گیا، جس کی وجہ سے اس کی قدر ختم ہو گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کو تنبیہ کرنے والا بجز اسلامی تعلیمات کے اور کوئی نہیں، تاکہ اس کو شعور دلا کر انجام بد سے مطلع کرے ۔ حکمران اور دانش ور اس سمت ( اصلاح معاشرہ) میں کافی پیش رفت اور تعاون کرسکتے ہیں، مگر ان میں سے اکثریت اپنے عہدہٴ منصبی فرائض سے غافل ہے۔ اصلاح نفس اور تکمیل فرائض کی بجائے ان کی تمام تر سعی آرام اور سامان تعیش کے لیے ہوتی ہے، ملت کی خیر خواہی سے ان کو کوئی سروکار نہیں ۔ جواِن میں سے مخلص اور ملت کے خیر خواہ ہیں وہ نہایت بے بس ہیں، کیوں کہ اس قرب قیامت او رمغربی طرز جمہوریت کے دور میں صحیح معاشرہ تشکیل دینا قریب قریب ناممکن ہے کہ آج فیصلے اکثریت کی رائے پر مبنی ہوتے ہیں اور اکثریت کا میلان تو عیش وعشرت وعریانی او رفحاشی اور اخلاق بہیمہ کی طرف ہے، ان کو اصلاح کی بات نہایت تلخ اور ناگوار لگتی ہے، اس لیے کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزار ہا کوششوں کے باوجود لوگوں کے اخلاق اور عقائد مسخ ہو رہے ہیں اور ماحول بد سے بد تر ہوتا جارہا ہے ۔ گویا انسانی معاشرہ اس وقت ایک وبائی او رنہایت مہلک بیماری کا شکار ہے، تاہم وہ مخلص اور عقل مند حضرات جو ان حالات سے مطمئن نہیں اور وہ ہرحال میں تزکیہ نفس اور اصلاح معاشرہ کیمتلاشی ہوتے ہیں سوان کو جاننا چاہیے کہ موجودہ حالات اور عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم سے بُعد ان کے لیے ایک آزمائش ہے، لہٰذا ان حالات میں انبیاء علیہم السلام ،خصوصاً متمم مکارم اخلاق علیہ الصلوٰة والسلام کے کریمانہ اخلاق سے متخلق ہونا ان کے لیے نہایت لازمی اور باعث صد ثواب ہے کہ انسان کی فضیلت کا راز اسی میں مضمر ہے۔ اور یہ کہ موجودہ پُر فتن دور میں جہاں مذموم اخلاق کی فضا میں الله والوں کے خلاف ہر قسم کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں اور ہر طرف سے مخالف ہوائیں چل رہی ہیں، استقلال کے ساتھ مقابلہ کرنا سونے کو آگ پر تپانے کے مترادف ہے۔
پس جن کے اخلاق طبعاً اور خلقتاً اچھے ہیں تو ان کو اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور ہر اس شے سے گریز کرنا چاہیے جو ان کے اخلاق حسنہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور جن کے اخلاق فطرةٍ نسبتاً زیادہ بہتر نہیں یا بالکل ہی خراب ہیں، مگر وہ اپنی اصلاح کے خواہش مند ہیں، ان کو ایسے اسباب اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جن سے ان کے اخلاق معیار شرع کے مطابق ہو جائیں، کیوں کہ اخلاق اگرچہ فطری اور خلقی ہوتے ہیں، تاہم مزاج میں تبدیلی آسکتی ہے یا پھر خارجی اسباب کی بدولت مزاج میں یا اس کے اثرات میں تغیر آسکتا ہے ۔ چناں چہ حضرت شاہ ولی الله رحمة الله علیہ تحریر فرماتے ہیں:
واضح ہو کہ انسان کے ان دلی خیالات کا، جو اس کو کسی کام پر اکساتے ہیں اور رغبت دلاتے ہیں، ضرور کوئی نہ کوئی سبب ہو گا، کیوں کہ تمام حوادث ( نوپیدا شدہ چیزوں) میں عادت الہٰی یونہی جاری ہے کہ ان کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے ۔ مشاہدہ، تجربہ اور صحیح غور وفکر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے بہت سے اسباب ہیں ۔
من جملہ ان اسباب کے سب سے بڑا سبب انسان کی وہ جِبِلّت ہے جو اس کی خلقت میں رکھی گئی ہے۔ چناں چہ اس کا ذکر ایک حدیث میں اس سے پیشتر آچکا ہے ،وہ حدیث یہ ہے کہ پہاڑ کا ٹل جانا سنو تو چاہے سچ جان لینا، لیکن اگر کسی کی عادت کا بدل جانا سنو تو کبھی سچ نہ جاننا، کیوں کہ وہ شخص پھر اپنی جبلی حالت ( اصلیت) پر لوٹ آئے گا۔“ (مشکوٰ ص:24)
من جملہ ان کے انسان کا مزاج طبعی ہے، جو کھانے پینے وغیرہ جیسی ضروری تدابیر وحالات سے بدلتا رہتا ہے، چناں چہ بھوکا آدمی کھانا طلب کرتا ہے اور پیاسا پانی مانگتا ہے، انسان ایسی غذائیں کھاتا ہے جو قوت کو تقویت پہنچاتی ہیں۔پھر اس کے دل میں مختلفخیالات پیدا ہوتے ہیں اور پھر یہی خیالات اس کو بہت سے ناقابل ذکر افعال کے کرنے پر آمادہ کر دیتے ہیں ۔ بعض اوقات انسان ایسی سخت غذائیں کھاتا ہے، جن سے ا س کا دل بھی سخت ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ قتل تک کی جرات کر بیٹھتا ہے اور بہت سی ان باتوں پر بھی غصہ ہو جاتا ہے جن پر او رلوگ غصہ نہیں ہوتے اور نہ وہ باتیں قابل غصہ نہیں ہوتی ہیں۔
یہی دونوں قسم کے اشخاص جب صیام وقیام سے ریاضت نفس کرنے لگتے ہیں یا بہت بوڑھے ہو جاتے ہیں یا سخت بیمار پڑ جاتے ہیں تو ان کی پہلی حالت بہت حد تک بدل جاتی ہے، یعنی دل نرم ہو جاتا ہے اور نفس سیدھا ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بوڑھے او رجوان کے حالات میں بڑا فرق پایا جاتا ہے ۔ اسی فرق کی بنا پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے روزہ کی حالت میں بوڑھے کو تو بیوی کا بوسہ لینے کی اجازت دے دی،لیکن جو ان کو نہ دی اور من جملہ ان کے کسی چیز کی عادت اور الفت ہے، کیوں کہ جب انسان کسی بات کو کثرت کے ساتھ کرتا ہے اور اسی طرح اس کے لوح دل پراس کی مناسب شکل وصورت منقش ہو جاتی ہے تو دل میں بسا اوقات اسی کے خیال آتے ہیں اور من جملہ ان کی یہ بات ہے کہ کبھی نفس ناطقہ ( روح انسانی) قوت بہیمیہ کی قید سے نکل بھاگتا ہے اور مقام ملاء اعلیٰ سے حسب توفیق کچھ ماہیت نورانی اُڑا لاتا ہے، جو کبھی تو نیک کام سے انس ومحبت اور اطمینان وسکون کا باعث ہوتی ہے او رکبھی کسی اعلیٰ ونیک فعل کا عزم پیدا کر دیتی ہے۔ من جملہ ان کے ایک یہ بات بھی ہے کہ بعض نفوس خسیسہ شیاطین سے متاثر ہو کر ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں تو کبھی اسی ہیئت سے دل میں خیالات پیدا ہوتے ہیں اور برے افعال سر زد ہوتے ہیں ۔( حجة الله البالغہ ص93 ج1)
پس معلوم ہواکہ سب سے بہتر اخلاق وہ ہیں جو انسان کی فطرت اور خلقت میں ودیعت کیے گئے ہوں، کیوں کہ ان اخلاق کے لیے کسی سبب اختیار کرنے یا تکلف کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ بڑی آسانی سے یہ خودبہ خود بغیر کسی ترغیب وترہیب کے صادر ہوتے ہیں، کیوں کہ ایسے شخص کا نفس مطمئنہ یا کم از کم لَوّامہ ہوتاہے او ردوسرے نمبر پر وہ اخلاق ہیں جو معتدل مزاج کے نتائج ہوں، یہ نسبتاً کمزور اخلاق ہیں، کیوں کہ ان کے لیے ہر وقت مزاج کا معتدل رکھنا ضروری ہوتا ہے او ران اسباب سے اجتناب بھی لازمی ہوتا ہے جن سے مزاج کے توازن او راعتدال پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
تیسرے نمبر پر وہ اخلاق ہیں جو جبلّت اورمزاج کے علاوہ ریاضتوں او رخارجی اسباب اور تکلف پر مبنی ہوں۔ یہ اخلاق کی سب سے کمزور او رضعیف قسم ہے کہ اس کے لیے ہمہ وقت حاضر دماغ رہنا پڑتا ہے۔ تھوڑی سی غفلت اور بے توجہی کے نتیجے میں پوری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے لیے ساز گار ماحول، ریاضتیں اور علم اخلاق سے وابستگی حد درجہ لازمی ہے۔
بہرحال اخلاق حسنہ کا سبب کچھ بھی ہو، مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے کہ ان تمام افعال ( چاہے افعال قلب ہوں یا افعال جوارح) سے گریز کیا جائے جو خلاف شرع اور معیوب ہیں اور ان افعال کا التزام کیا جائے جو شرع میں مطلوب ہیں، لہٰذا دنیا کی محبت کو دل سے نکالا جائے۔
دنیا کی محبت آخرت کی محبت کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہے، دوسرے یہ ان افعال سے رکاوٹ بنتی ہے جن پر فلاح ابدی مبنی ہے، تیسرے اس سے بہت سارے مذموم اوصاف معرض وجود میں آتے ہیں، مثلاً بخل، حرص، طمع، حُبّ جاہ وغیرہ، اسی طرح غصہ سے بھی اجتناب کیا جائے کہ اس سے کینہ وحسد وغیرہ مہلک بیماریاں معرض وجود میں آتی ہیں، بہ الفاظ دیگر قوت شہوانیہ اور قوت غضبیہ وعقلیہ تینوں کو افراط وتفریط سے بچایا جائے کہ ہر دو صورتوں میں ان سے تباہی کے سوا کسی خیر وبھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ ان قوتوں میں میانہ روئی اختیار کرکے دل کو فضائل وکمالات کے نور سے منور کیا جائے تاکہ ان کی بدولت انسان اخلاق حسنہ کے زیور سے آراستہ ہو کر انبیا علیہم السلام کے نقش قدم پر چل سکے، جس کے نتیجے میں خلافت کا اصل مقصد پورا کرکے بارگاہ خلاق العلیم میں قرب حاصل کرے، تاکہ خاتمہ بالخیر نصیب ہو۔

Flag Counter