Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۱ھ - اگست ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 10
سوز دروں مغربی دانشور کے مضمون پر چند تحفظات !
سوز دروں مغربی دانشور کے مضمون پر چند تحفظات

ہمارے معاصر مؤرخین سرگرداں ہیں کہ استشراقیت Oreintalism کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے؟ یہ نظریہ ٴ فکر ونظر بسیط ارض پر کب رونما ہوا؟ اس خوشنما باغ کا پہلا باغبان کون تھا؟ مختلف قسم کے اندازے اس نظریہ کو تاریخی تسلسل کی کڑیوں کے ساتھ جوڑنے میں مؤرخین نے ایجاد کرڈالے ہیں۔ کہیں یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ ان کا تانا بانا اندلس سے جڑا ہوا ہے اور کہیں اس کی تاریخ یونان سے جوڑی جارہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر استشراقیت کے اساسی نکتہ ٴ نظر کی معرفت ہوجائے تو یہ تمام اندازے دھول اور غبار سے زیادہ بے وقعت معلوم ہوں گے۔
استشراقیت آزادانہ تحقیق کی بنیاد پر قائم ہے، جس کے نتائج آخر کار دین اسلام کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کی صورت میں منظر عام پر ظاہر ہورہے ہیں اور بے دین فکر وتحقیق، اس خوشنما پردہ کے پیچھے سے جھانک جھانک کر اعلان کررہی ہے کہ دراصل یہ اہل اسلام کو اصولی نظریات اسلام سے برگشتہ کرنے کی ایک گہری مگر سست رفتار کوشش ہے۔ مستشرقینِ مغرب، مشرق اور مشرقی علوم کی تاریخ ، مأخذ اصلیہ سے مطالعہ کرنے کے دعویدار ہیں لیکن لادینی سوچ پر مبنی ان کے نتائج آخر کار کہاں تک پہنچے؟ یہ انتہائی دردناک داستان ہے۔
ثمرات ونتائج کو پرکھنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ درحقیقت اسلام پر نشتر زنی کرنے کے لئے مغرب کے دانشور جراحوں نے استشراقی مکتب فکر سے وابستگی اختیارکی ہے، استشراقی فکر کا آغاز ومشأ اسی وقت سے ہوگیا تھا جب ”یوحنا دمشقی“ نے ”حیات محمد“ اور ”حوارت مسلم ومسیحی“ لکھی تھی اور بنوامیہ ہی کے زمانہ میں ان کو خوب رواج حاصل ہوا تھا، اس اساسی غرض ومقصد کے تحت آج بھی ”مطالعہ مشرق“ کے جھنڈے تلے مغرب کی جانب سے اہل اسلام کے خلاف بیانات اور اعلامیے شائع ہوتے رہتے ہیں اور اظہار رائے کی آزادی (Freedom of speech)کا نظریہ ان پیدا کردہ تمام آراء وافکار کو سند جوازفراہم کرتا ہے۔
اس وقت بلاشبہ مدارس اسلامیہ اہل اسلام کی دینی معنویت کی حفاظت کی خاطر قائم شدہ وہ محفوظ قلعے ہیں، جس تک پہنچنے والا مغرب کا ہر زہریلا تیر ناکارہ ہوجاتا ہے اور مغربی دنیا میں جس قدر اہل مغرب کو ان مدارس کے نام سے ہراساں کیا جاتا ہے، آئے دن اخبارات کی شہ سرخیاں اس کی واضح شواہد ہیں، اسی کاوش کے تحت ایک مغربی مفکر نے مدارس کے متعلق ”انصاف پسندی“ اور ”غیر متأثر“ نگاہ تحقیق ڈالنے کی کوشش کی اوربظاہر یہ دکھلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ مدارس کے بڑے حامی اور ان کی معاشرتی خدمات کے معترف ہیں۔
ریچارڈ بالبروک کے سابق مشیر الیگزنڈر ایواش (Alexander Evans) اس مضمون کے نامہ نگار ہیں، انہوں نے مدارس کی داخلی اور خارجی بنیادوں کے متعلق آزادانہ تحقیق کو راہ دی اور اپنی تحقیق وتفتیش کا حاصل ایک مضمون تحریر کیا،جس کا عنوان Understanding Madrassahsرکھا، ہم اس کاوش کا خیر مقدم اس جہت سے ضرور کرتے ہیں کہ اپنے چند نظریاتی مخالفین ومعاندین کی زبانوں کو لگام دینے کے لئے ، ”والفضل ما شہدت بہ الاعداء“ کا سہارا لیتے ہوئے ایک کار آمد ہتھیار ہم کو میسر آیا، تاہم ہم اس قدر کوتاہ فکر ونظر اور احساس کمتری کا شکار نہیں کہ ان کے اس مضمون کو بطور سند استعمال کریں اور مغرب کو اپنی حقانیت کا احساس ان کے مضمون سے دلانے کی کوشش کریں۔ ہم آزاد اور خود مختار ہیں اور منشور پاکستان کے تحت ہم پر اقتدار اعلیٰ خدا تعالیٰ کی ذات کی لئے مختص ہے۔ ایک انصاف پسند اور انصاف بین کی نگاہ ”اہل اسلام“ کے اساسی نظریات پر طعن زنی نہیں کر سکتی ہے اور نہ مدارس وارباب مدارس کو متہم کر سکتی ہے، یہ اتہام طرازی اور بہتان تراشی تنگ نظر اور نا انصاف دانشوران مغرب کا وطیرہ ہے، جو لمحہ بہ لمحہ اہل اسلام اور اربابِ مدارس کے متعلق زبانِ طعن دراز کرتے رہتے ہیں۔
ہم ان کی اس ”نام نہاد انصاف پسند“ تحقیق کے ممنون تو ضرور ہیں، لیکن چونکہ یہ مضمون اہل مدارس کے مختلف طبقات کے تعارف اور مضمون نگار کے اپنے خیال کے مطابق مختلف اصلاحی وتجدیدی کوششوں کو مدارس کی تعلیمی سطح پر بروئے کار لانے کے متعلق ”مفت مشوروں“ پر مشتمل تھا، اس لئے ہم ”اظہار رائے کی آزادی“ کے مغربی نعرہ کے تحت اس مضمون کے متعلق اپنے تحفظات کے اظہار کا قانونی حق ضرور رکھتے ہیں، چند نمایاں تحفظات ذیل کی سطور میں واضح کئے جاتے ہیں:
۱…تعلیمی ادارے یا یتیم خانے:
The Majority of Madrassahs actually Present an opportunity, not a threat For Young village Kids, it may be the only path of Literacy for many orphans and rural poor, madrasahs provide essential social Services education and Lodging For Children who otherwise Could well find themselves the victims of forced labours, Sex trafficking, or other abuse. اسلامی بھائی چارے کے بنیادی عقیدہ وفکر کے تحت مدارس ان نادار طلباء کی امداد ومعاونت ضرور کرتے ہیں، جن کے لئے معاشی ناہمواری علم کے زیور سے آراستگی میں رکاوٹ بن رہی ہو، تاہم مدارس بنیادی طور پر یتیم خانہ سے یکسر مختلف وہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں نہ صرف اسلامی تعلیم جس کا حصول اہل اسلام کا فریضہ اور ان کا حق ہے، دی جاتی ہے بلکہ ایک پرامن اسلامی معاشرہ کی عملی تشکیل کے لئے ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے، اس ذہن سازی کو فریب کار،دانشورانِ مغرب دماغی صفائی (Brain washing)کہتے ہیں، لیکن اس بات کا گلہ ہم ان سے ہرگز نہیں کرسکتے، اس لئے کہ جن عقول کو فطرت سلیمہ کی روشنی عطا نہ ہو، وہ اسی طرح بے راہ روی کے میدان میں حیران وپریشان پھرتی رہتی ہیں اور آخرکار گڑھے کا شکار ہوجاتی ہیں، ہاں! ان نام نہاد اہل اسلام سے شکوہ ضرور ہے جو اسلامی تعلیمات پر اس طرح کے نامناسب حملے کرتے ہیں اور اسلام کو ایک تنگ نظر مذہب گردانتے ہیں، فالی اللہ المشتکی۔
دینی مدارس کی حقیقی معاشرتی وسماجی خدمات کا نکتہٴ مرکزی پرامن اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور ملت اسلامیہ کی راہنمائی کے لئے ایک باصلاحیت اور نیک خصلت وکردار نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ فراہم کرنا ہے، مدارس کی اس بنیادی خدمت کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کو اولین درجہ میں یتیم خانے اور کفالت گھر اور ثانوی درجے میں تعلیمی ادارے قرار دینا مدارس کی درست تشریح نہیں ہے، جس پر ہم صاحب مضمون سے نالاں ہیں۔ اگر تحقیق وتفتیش میں واقعی انصاف کو راہ دیجاتی تو بعید نہیں تھا کہ ان ہزاروں طلباء کی معلومات بھی دستیاب ہوجاتیں جو انتہائی اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان مدارس میں خاک نشین ہوکر دین اسلام کی پاکیزہ تعلیم سے مزین ہورہے ہیں۔
۲…انتہاء پسندی یا انصاف پسندی:
From this transition, the Darul Uloom madrasah emerged in Deoband, India. Established entirely, with Private support in 1865, it became the center for a new found spritual conservation in Islam. Deobandis (as those associated with Darul Uloom became Known) worked hard to spread their message across northern India, and the social composition of madrasahs began to change, becoming Iess affuent and more rural. اہل مغرب اور مغرب پرست طبقہ کی جانب سے بنیاد پرستی اور انتہاء پسندی کی تشریح وتفصیل ہم اہل اسلام کے لئے عرصہ سے مشکوک رہی ہے، اس بنیادی عنوان کی کلیات وجزئیات کو مغرب نے اسلامی دہشتگردی کے بھیانک مضمون سے باندھا ہے، لیکن ہم تاحال ”اسلامی دہشتگردی“ کی اس ردی تعبیر کو تسلیم نہیں کرسکے ہیں۔ اہل مغرب نے ساری دنیا کو تولنے کے لئے جو دو پیمانے رکھے ہیں، وہ ان کی اخلاقی پستی کی ظاہر دلیل ہے، وہ اپنے مذموم افعال کی توضیح ملمع ومزین قوانین سے کرتے ہیں، جبکہ اسلام کے خالص عالمی وہمہ گیر قوانین واحکام کو بنیاد پرستی کی اساس اور ان کی نشر واشاعت کرنے والوں کو بنیاد پرست طبقہ شمار کیا جاتا ہے۔ اسلام کے منشأ ومقصدکی پاسداری کرتے ہوئے اسلامی معاشرتی ڈھانچہ کی تشکیل کو اگر مغرب بنیادپرستی قرار دیتا ہے تو ہم کو ”میکاولی“ کے پرستار پیروکارانِ مسیحیت سے اسی کی امید رکھنی چاہتے تھی، جس طرح میکاولی اپنی سیاسیات میں عیسائیت سے بیزاری کے فلسفے کا پرچار کرتا تھا اور اس کے خالص احکام دینیہ کو قابل اعتراض سمجھتا تھا، اسی طرح یہ روش موجودہ اہل مغرب نے اہل اسلام کے ساتھ برقرار رکھی ہے، لیکن اگر مسلم معاشرہ میں افراد امت اسلامیہ کی طرف سے یہ صدائیں بلند ہونے لگیں کہ دینی احکام کی عملداری بنیاد پرستی اور انتہاء پسندی کو فروغ دینا ہے تو ہم ان سے شکوہ ضرور کریں گے کہ ہمارے لئے میکاولی سے کہیں بڑھ کر ہمارے اسلاف کی اتباع تھی، جنہوں نے بے کم وکاست اسلامی شعائر واحکام کو ہم تک پہنچایا ہے اور دین اسلام کو تاقیامت ہونے والے تغیرات وحوادث کی نیرنگیوں میں ایک واضح منہج اور لچکدار عملی وانتظامی بناکر پیش کیا ہے۔
لہذا صاحب مضمون سے ہم اس بات کا شکوہ تو نہیں کرتے کہ انہوں نے اہل اسلام کو بنیاد پرست کہا ہے، البتہ جس طرح انہوں نے مدارس کے اندرونی معاملات کی ”آزاد تحقیق“ اور ”انصاف پسند ریسرچ“ کی روش اختیار کی ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس انتہاء پسندی کے الزام کی محققانہ تشریح سے ہمیں ضرور بہرہ ور فرمائیں تاکہ اس نظریہ کے متعلق بھی اصلاح وتجدید کو فروغ ملے، اس نظریہ کی باہمی گفت وشنید سے طے پانے والی تشریح سے وہ سارے پردے گرجائیں گے جو اس لفظ کے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر اہل اسلام کے پیغام کو سمجھنے میں حائل ہوچکے ہیں۔
۳…نظام مدارس کی حقائق پر مبنی واقعاتی تاریخ:
The madrasah system is a thousand years old It originated in eleventh century in Baghdad, and the earliest recorded South Asian madrasah was established in Ajmer (now a city in India) in 1191. in medieval times, madrasahs were instruments of the state funded by rulers and steadfastly Ioyal- and focused on Islamic Jurisprudence (fiqh) Over time with the advent of the Mughal empire in South Asia, their curriculum expanded, first to include philosophy, Iogic, and the rational disciplines (maqalat) and then to include the study of reports of the words and deeds of the prophet Mohammad(hadith) as well. ”مدارس کے نظام“ کی تاریخ کو مضمون نگارنے گیارھویں صدی سے جوڑا ہے، یہ مضمون نگار کی مقصد اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے، مدارس کی بنیاد عالمگیر اسلامی تعلیمات کی نشر وشاعت پر ہے، اور اس مقصد کا حصول اسی وقت سے شروع ہوچکا تھا، جب حضور ا اس دنیا میں معلم کائنات بن کر مبعوث ہوئے اور فطرت صحیحہ کے مطابق زندگی گذارنے کا قرینہ وسلیقہ بتلایا۔یہ مدارس چند گز بھر زمین پر محیط تعمیرات کا نام ہر گز نہیں،معلمین اسلام نے اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کے لئے صرف طالب علم کی ضرورت محسوس کی ہے، پھر خواہ ان کا اجتماع کسی گلشن میں ہو یا ریگزار میں! سفر میں ہو یا حضر میں، جہاں ایک شخص نے علمی پیاس بجھائی اور کچھ سیکھا ،وہیں ایک مدرسہ قائم ہوگیا۔
کوفہ وبصرہ کی گلیوں میں علمی مراکز کا قیام ساتویں صدی عیسوی ہی میں ہوچکا تھا اور وہاں علم اس طرح بہتا تھا جیساکہ مصر میں نیل بہہ رہا تھا۔ اگر مدارس کو انہی تعمیرات کا محتاج سمجھ کراس صاحبِ قلم نے تاریخ رقم کی ہے، تب بھی یہ محل نظر ہے لیکن ان تعمیرات کے ساتھ مدارس کی تاریخ جوڑنا تاریخی تنگ نظری ہے، تاہم اس تشریح میں ہم ان کو معذور سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں ”تعلیم وتعلم“ کا سلسلہ صرف تعمیرات ہی میں قائم اور برقرار رہ سکتا ہے، محمد بن قاسم، اسلام کے علم کو جب ہندوستان لے کر آئے تھے تب ہی اسلامی تعلیم ہندوستان میں رواج پانا شروع ہوگئی تھی۔ اہل اسلام کو تعلیمی نشر واشاعت کے لئے کبھی گارے، اینٹ سے مرکب عمارت کی ضرورت نہیں پڑی، جس طرح خدا تعالیٰ نے اہل اسلام کے لئے اس کی عبادت کرنے میں اس قدر وسعت فرمارکھی ہے کہ زمین کے ہرگوشہ میں خدا کے روبرو سجدہ ریز ہوکر فریضہ ٴ صلوٰة کی ادائیگی کی جاسکتی ہے، اسی طرح زمین کے چپے چپے پر ایک مدرسہ قائم ہوسکتا ہے، جہاں ایک سکھانے والا ہو اور ایک سیکھنے والا ہو۔ اس لئے کہ نظریہ ٴ اسلام کے تحت انسانی تربیت عمارت پر نہیں، علم پر موقوف ہے، لہذا مضمون نگار کو اپنی اس تاریخ نگاری پر نظرثانی کی انتہائی ضرورت ہے۔
معتدل تواریخ کے مأخذ سے استفادہ کیا جائے تواس صاحب قلم کی یہ تحقیق بھی پرکاہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ فلسفہ ومنطق کے فنون عرصہ بعد مدارس میں پڑھائے جانے لگے، مدارس اسلامیہ میں منطق وفلسفہ اس وقت سے راہ پاگیا تھا جب مامون الرشید کے عہد (۸۱۳ء ۔۸۳۳ء) میں سلطنت عباسیہ کے بڑے کتب خانوں میں کتب فنون منتقل ہونا شروع ہوگئی تھیں۔
تیسری صدی ہجری یعنی نویں صدی عیسوی میں ہی منطق وفلسفہ اسلامی علوم کے ساتھ مخلوط ہوکر پڑھائے جانے لگے تھے بلکہ چند قدم مزید بڑھایئے تو صرف منطق وفلسفہ ہی کیا، دیگر علوم وفنون مثلاً طب وحکمت وغیرہ جنہیں سائنسی علوم کا عنوان دیا جاتا ہے، خلافت عباسیہ ہی میں مسلمانوں میں پھیلنا شروع ہوچکے تھے، خلیفہ منصور سے شروع ہونے والا سائنسی ترقی کے عروج کا دور کالم نگار سے پوشیدہ رہنا یہ وہی تنگ نظری ہے جہاں مخالفین کی ترقیات بلکہ ان کے قابل قدر کارناموں سے تغافل برت کر ان کے بارے میں خودساختہ نظریات وافکار ترتیب دیئے جائیں اور تنگ نظری کی مہر ان کے سر کردی جائے۔
ابن سینا ، عمر خیام اور قطب الدین شیرازی کی ریاضیات میں اختراع وایجاد جسکو جارج سارٹن فن ریاضیات کے ارتقاء میں اندھیرے سے روشنی کا سفر قرار دیتا ہے کیونکر پوشیدہ رہ سکتی ہے علم ہندسہ میں فرزندان موسیٰ بن شاکر ، محمد، احمد اور الحسن اور ابو الولاد البوزجانی کی خدمات، علم مثلثات میں البنانی اور ابو الوفا کی کلیات، علم فلکیات میں الماہانی اور النیریزی کی تحقیقات، علم طبعیات میں یعقوب بن یوسف الکندی اور البیرونی کی ایجادات ، علم طب میں ابو المنصور صاعد بن بشر بن عبدوس اور منصور بن محمد کی اضافات۔ آج علمائے یورپ وانگلستان تعلیمی نصاب کا حصہ قرار دے چکے ہیں۔ ارضیات، معدنیات، حیوانیات، جغرافیہ غرض وہ تمام جدید فنون جن کا اہل یورپ، اسلام اور اہل اسلام سے سر رشتہ توڑنا چاہتے ہیں، آخر کار ان مسلمان سائنسدانوں کی تحقیقات کے رہین منت ہیں، جنہوں نے اسلام کے زریں عہد میں نشونما پائی، اہل اسلام کی تاریخ کے باب میں جہاں دینی علوم میں اوج کمال تک پہنچنے والے افراد کی کمی نہیں ہے، وہیں ان فنی ترقیات کے ارتقاء میں معاون افراد کی فہرست بھی مسلمان مفکرین کے نام سے بھری پڑی ہیں ۔ راقم السطور کو فی الوقت ان فنون کی شرعی حیثیت سے ہرگزبحث نہیں اور نہ ان فنون کے ماہرین کے ذاتی ونجی معاملات کی چھانٹ پرکھ مقصود ہے، راقم صرف یہ بات باور کروانا چاہ رہا ہے کہ اہل اسلام کی علمی وفنی سرگرمیوں کو محض چند گوشوں میں بند کرنا مغرب کی بے نظیر ناانصافی ہے۔
روشن خیالی کا درست مفہوم:
To be sure, madrasahs are naturally narrowminded institutions. علوم وفنون میں مسلمانوں کی سچی روئیداد سننے کے بعد قارئین فیصلہ کریں، کیا ہمارا اہل مغرب سے یہ سوال درست نہیں کہ وہ کس بنیاد پر ہمیں تاریک خیال یا تنگ نظر گردانتے اور باور کراتے ہیں؟ اگر روشن خیالی اور وسیع الظرفی اس ہمہ گیر سوچ کے علاوہ کوئی شئ ہے تو اہل مغرب اس کو واضح کریں، کیا روشن خیالی صرف انگریزی زبان کے حصول میں مضمر ہے؟جس کے حصول کے بغیر ہم اہل مدارس کو روشن خیالی کی سند لندن وامریکہ سے امپورٹڈ مہر کے ساتھ دستیاب نہ ہوسکے گی؟ اگر تنگ نظری کی تشریح یہ ہے کہ اسلامی احکام میں کسی قسم کی مداہنت ومنافقت کو راہ نہ دی جائے اور جس دین کو عالم کی خوشحالی اور بھلائی کے واسطے حضرت محمد ا بتلاکر گئے اور اہل اسلام کی قابل فخر جماعت ان کو بحفاظت پہنچا کر گئی، اس کو بے کم وکاست پوری دنیا کے سامنے آشکارا کردیا جائے تو نہ صرف ہم کو ایسی تنگ نظری قبول ہے بلکہ ہم واقعی انتہاء پسند اور بنیاد پرست ہیں، جو اپنی ٹھوس بنیاد کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے ،یہی وہ حبل اللہ ہے جسے تھامے رکھنے کی ہمیں خدا تعالیٰ نے ہدایت فرما رکھی ہے۔
خاموش حملہ:
In fact, across South Asia, extremists-as distinct from ultra conservatives- actually control only a tiny Portion of the madrasahs. To be sure, there are Problem madrasahs, led by extremists who preach venom. These madrasahs, many of which are in Pakistan, tend to trigger provocate media coverage. But they do not dominate Go to the Iargest neighboring madrasah of a problem madrasah, and you will usually find a group of tut tilling wama saying, gently but instently, that their madrasah isht politicat like that one. زیر بحث مضمون میں پاک وہند میں موجودہ سرفہرست نظریات کے حامل مختلف جامعات کی تعلیمی کیفیت کا جائزہ جس خوش اسلوبی سے مضمون نگار نے لیا ہے، ہم اس سے فی الحال صرف نظر کرتے ہیں، تاہم مضمون نگار جابجا اپنی ”آزادانہ تحقیق اور انصاف سے بھر پور رپورٹ“ میں جس کا کچھ حال گذرا ،دینی مدارس پر ایک خاموش حملہ کرنا چاہ رہے ہیں اور وہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ”چند مدارس“ مسائل پیدا کررہے ہیں ۔
راقم اس نکتہ کا بغور وخوض مطالعہ کرنے کے باوجود کسی قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا اور مسلسل یہ تردد رہا کہ مغرب کے وطیرہ ٴ اظہار رائے کی آزادی کے سامنے ہوتے ہوئے یہ اجمال وابہام کیوں رکھا گیا ہے، کھل کر وضاحت کیوں نہیں کی جارہی ہے کہ وہ کون سے مدارس ہیں جو مسائل پیدا کررہے ہیں؟ جن کا سد باب ضروری ہے؟ اگر عددی شمار کچھ مشکل ہے تو ہم اس قدر اظہار ضرور چاہیں گے کہ پاک وہند کے جن فرقوں کی روئیداداس صاحب قلم نے قلمبند کی ہے، ان میں سے کسی فرقہ یا جماعت کی نشاندہی کردی جائے اور ببانگ دہل یہ باور کروا دیا جائے کہ کسی کارخانے سے مسائل پیدا ہوکر مشرق ومغرب کی طرف برآمد ہورہے ہیں، اگر اس اجمال وابہام سے ایک عمومی بے چینی کا پیدا ہونا بدیہی اور واقعی ہے تو ہم مقالہ نگار سے یہ عرض کرتے ہیں کہ آپ کا مضمون جس کا مقصد اہل مغرب اور اہل اسلام میں فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مثبت اقدام کے تحت منظر عام پر جلوہ گر ہوا ہے، اپنے مقصد کے حصول کے بجائے مکمل متضاد راہ پررواں ہے ،جس سے بجائے اطمینان کے بے چینی کی فضاء ہموار ہور ہی ہے۔ یہ مغرب کا خود ساختہ ایسا میزائل ہے جو کسی وقت، کسی مدرسہ یا مسجد کی بنیاد کو اپنی سیسہ کاری کا شکار کرکے زلزلہ زدہ کر سکتا ہے۔ اگر اس اجمال کی قابل قبول توضیح وتفصیل ہوجائے تو ان مسائل کی ”اصلاح“ کیلئے بھی کوئی لائحہ عمل تیار کرلیا جائے گا جو اہل مغرب کی نگاہ میں ہمہ وقت کھٹک رہے ہیں اور یہ وضاحت بخوبی تفصیل سے سامنے آجائے گی کہ ان مسائل کی مدارس پر الزام تراشی اپنی ساخت وصنعت میں کس دماغی پرواز کا نتیجہ ہے۔
اصلاح وتجدید اور افہام وتفہیم:
”اصلاح وتجدید“ ایک ذو معنیٰ وذوحیثیت الفاظ ہیں جو معانی ومفاہیم کا ایک ذخیرہ اپنے ان مختصر حروف میں جذب کئے ہوئے ہیں۔ اصلاح وتجدیدکی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں خرابی اور قباحت کی وجہ سے کسی شئ کے ناکارہ ہونے کا خطرہ لاحق ہو، مدارس کے لئے اصلاح وتجدید کا نعرہ اس تناظر میں بخوبی سمجھاجاسکتا ہے کہ اس آوازہ کو فروغ دینے والے مدارس کو موجودہ صورت حال کے پیش نظر خرابی اور بیکار گی کا نشانہ بنانا چاہ رہے ہیں، ان کی نظر میں مدارس کی یہ خرابیاں دور ہونی چاہئیں، اور وہ اپنے زعم میں یہ بے جا قیاس گڑھتے ہیں کہ ”قدامت پسندی“ کی وجہ سے ان مدارس کی قوت عمل جس کے معیار جانچنے کا پیمانہ خود ان کے ہاتھ میں ہے، ناکارہ ہورہی ہے، اگر اصلاح وتجدید کا فروغ اس طور پر ہوسکتا ہے کہ مختلف فنون کو مدارس کے نصاب میں شامل کیا جائے تو فنون کی تحصیل وترقی میں اہل اسلام کی وسیع النظر تاریخ کا حال سننے کے بعد ہماری درخواست پر ذرا غور فرمایئے! ہم عرض کناں ہیں کہ فطرت انسانی اور قوت بشری کے واقف کار کو زیبا نہیں کہ وہ اس نکتہ کی تردید کردے کہ اس عرصہ زندگی میں ایک شخص تمام فنون میں بالبصیرت اور دوررس نگاہ بیک وقت حاصل نہیں کرسکتا۔ ایک فن اور ایک علم میں عرصہ تک محنت کرنے والا جس قدر قابل فخر اور قابل امتیاز مرتبہ حاصل کرسکتا ہے وہ بیک وقت مختلف فنون میں اختصاص کا خواہشمند شخص ہرگز نہیں پاسکتا۔ اہل اسلام کو جس طرح دیگر فنون میں باکمال افراد کی ضرورت ہے جس کے تحت عصری تعلیم گاہیں قائم کی گئی ہیں۔ اسی طرح دنیوی واخروی فلاح وبہبود کے حصول کے لئے مذہب اسلام سے متعلق معلومات کے حامل باصلاحیت اشخاص کی بھی اشد ضرورت ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے کا بیڑہ ارباب مدارس نے اٹھا رکھا ہے، اگر ان مادی فنون میں اختصاص کے حامل افراد کی پیدائش مقصود ہے تو بجائے مدارس کے عصری تعلیم گاہوں کی طرف توجہ کی جائے اور وہاں یہ ”اصلاحی پیکج“ متعارف کروایا جائے، مادی فنون میں اختصاصی تعلیم ان کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ ان فنون میں باکمال اشخاص کی صحیح نشونما نہیں کرپا رہے ہیں جیساکہ ایک ظاہر بین کی نگاہ سے مخفی نہیں تو ان کی گرفت حکومت پاکستان کا سب سے اولین فریضہ ہے۔نیز اگر پھر بھی کسی خاص وجہ کی بناء پر مدارس کی اصلاح وتجدید کے لئے افہام وتفہیم کا سلسلہ جاری کرنا مقصود ہو تو ارباب مدارس اہل مغرب دانشوران سمیت مغرب پرست دانشورانِ اسلام وحقیقی انصاف پسندی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ آزادانہ مباحثہ کے ساتھ اس بات کو طے کر لیا جائے کہ اگر مدارس کی اصلاح وتجدید کی خواہش مغرب کی انسان دوستی کا نتیجہ ہے تو ہم ان کو وہ راہ بتلادیں جہاں اس کاوش خیر کی واقعی ضرورت ہے۔
اس اصلاحی کوشش کے لئے Change from withinکا جملہ خود مشکوک ہے اور ارباب مدارس کو کھلی تنبیہ ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول پرکڑی نظر رکھیں کہ بظاہر یہ جملہ اندرونی بغاوت کے بھیانک خطرے کی نشاندہی کررہا ہے، اس جملہ کے سیاق وسباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بظاہر یہی مفہوم نکلتا ہے کہ ارباب مدارس کی آزاد مغربی روش کے مطابق ذہن سازی کی جائے اور ان کو احساس کمتری وکہتری کا شکار کردیا جائے۔ پھر اس کوتاہ نظر واحساس جماعت کے ذریعے ”تجدید واصلاح“ کی لائق قدر خدمات لی جائیں، اگر جملہ کا وہ مقصد نہیں جو ہم سمجھے ہیں تو اس ”فہم“ کی اصلاح کی جائے اور اس جملہ کی واضح تفسیر کردی جائے کہ آخر اس اندرونی تبدیلی سے کن کیفیات پر مبنی تبدیلی مضمون نگار کی حقیقی مراد ہے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۱ھ - اگست: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: اہل علم وضرورت صحبت اہل اللہ !
Flag Counter