Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

5 - 11
ارشادات سید السادات !
ارشادات سید السادات ا
مساجد کی تعمیر میں مقابلہ اور فخر
سنن ابوداؤد میں حضرت انس  کی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:
”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک لوگ مساجد کی تعمیر میں ایک دوسرے پر فخر نہ کرنے لگیں“۔
فائدہ: جیساکہ آج کل مساجد کی تعمیر اور زیب وزینت اور مختلف نقش ونگار اور مینار اونچے ہونے کو فخر سمجھا جاتا ہے اور اس میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ حالانکہ سب مساجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں‘ ان کی تعمیر اور زیب وزینت سے ایک دوسرے پر فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔آج کل مساجد کی ظاہری آبادی یعنی زیب وزینت اور شکل وصورت میں رونق پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ ترقی پر ہے‘ مگر اس کی اصل آبادی جو اخلاص‘ نماز اور عبادت پر موقوف ہے‘ اس میں بہت کمی ہے‘ یہ بھی قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔
بظاہر دوستی اور دل میں دشمنی
مسند احمد میں حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ
:”آخر زمانہ میں ایسے لوگ آئیں گے جو ظاہر میں بھائی اور دوست ہوں گے اور باطن میں دشمن ہوں گے۔ سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں ہوگا؟ آپ  نے ارشاد فرمایا : ایک دوسرے سے لالچ اور ایک دوسرے سے خوف ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا اس لئے ظاہری طور پر دوست اور خفیہ وپوشیدہ طور پر دشمن ہوں گے“۔
فائدہ: آج کل اکثر وبیشتر یہی حالت ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے تو تعلق اور دوستی ظاہر کی جاتی ہے‘ لیکن پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کی جاتی ہے‘ متعدد بار دیکھنے میں آیا ہے کہ دو شخص ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے تعلق اور دوستی کا اظہار کررہے ہوں گے جوں ہی ایک شخص مجلس سے علیحدہ ہوگا‘ دوسرا فوراً اس کی برائی شروع کردے گا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے سے تعلق اور دوستی اخلاص پر قائم نہیں ہے‘ بلکہ دنیوی اغراض ومقاصد کی بناء پر ایک دوسرے کا ظاہری احترام کیا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کی حفاظت فرمائے‘ آمین․
عمر میں بے برکتی
ترمذی شریف میں حضرت انس  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا :
”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ وقت جلدی جلدی نہ گذرنے لگے کہ ایک سال ایک مہینے کے برابر ہوگا اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر ہوگا اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر ہوگا اور ایک دن ایک گھڑی کے برابر ہوگا اور ایک گھڑی اس طرح گذر جائے گی جس طرح آگ کا شعلہ یکایک بھڑک کر ختم ہوجاتا ہے“۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ بداعمالیوں کی نحوست کی وجہ سے عمر میں برکت ختم ہوجائے گی‘ انسان اپنی عمر سے دنیا وآخرت کے وہ فائدے نہیں اٹھا سکے گا جو اسے اپنی عمر کے لحاظ سے اٹھانا چاہئے تھا‘اس بے برکتی کا نظارہ ہرایک اپنی آنکھوں سے کررہا ہے۔ معلوم نہیں آگے چل کر کیا کچھ بے برکتی ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو بداعمالیوں سے محفوظ فرمائیں۔ آمین․
ہرامت کے لئے ایک فتنہ ہوتاہے اور اس امت کا فتنہ مال ہے
مسند احمد میں حضرت کعب بن عیاض سے روایت ہے کہ میں نے حضور ا کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
”ہر امت کے لئے ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے“۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ ہر امت کی آزمائش وامتحان یا گمراہی وگناہ کے لئے کوئی خاص چیز ہوا کرتی ہے اور حضور ا کی امت کے امتحان وآزمائش یا گمراہی میں مبتلا کرانے والی چیز مال ہے جس میں دل کے مشغول ہونے کی وجہ سے نیک کام سے محرومی اور آخرت سے غفلت پیدا ہوجاتی ہے۔
آمر اور جابر لوگوں کی حکمرانی اور ان کی حالت
سنن کبریٰ‘ بیہقی اور معجم کبیر طبرانی میں حضرت ابو ثعلبہ خشنی‘ حضرت ابوعبیدہ بن جراح  اور حضرت معاذ بن جبل  سے روایت ہے کہ حضور ا نے ارشاد فرمایا کہ:
” اللہ تعالیٰ نے اس دین کی ابتدا نبوت ورحمت سے فرمائی پھر یعنی دور نبوت کے بعد خلافت ورحمت کا دور ہوگا‘ اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی‘ اس کے بعد خالص آمریت‘ جبر واستبداد اور امت کے عمومی بگاڑ کا دور آئے گا‘ یہ لوگ زناکاری‘ شراب نوشی اور ریشمی لباس پہننے کو حلال کر لیں گے اور اس کے باوجود ان کی مدد بھی ہوتی رہے گی اور انہیں رزق بھی ملتا رہے گا‘ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حضور پیش ہوں گے“۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جس میں ظالم وجابر ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے اندر کتربیونت کرنے والے حکمران اور سیاست دان ہوں گے جو حرام وناجائز چیزوں کو حلال کر لیں گے‘ حالانکہ کسی حرام چیز کو حلال سمجھ لینے سے وہ چیز حلال نہیں ہوجاتی‘ مگر ان کو ڈھیل دینے اور لوگوں کے امتحان کے لئے ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہری طور پر مدد ہوتی رہے گی اور ان کے رزق میں ظاہری تنگی نہیں ہوگی‘ تاکہ وہ اپنی گمراہی میں خوب مست رہیں پھر ان کے رخصت ہونے کے بعد ان کے ساتھ بہت سخت اور کڑا معاملہ ہوگا۔
جب حاکم شریر‘ مال دار بخیل اور عورتیں حاکم ہوں تو کیا ہوگا
تہذیب الآثار طبری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:
”جب تمہارے حکمران نیک اور پسندیدہ ہوں‘ تمہارے مال دار کشادہ دل اور سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی خیر خواہانہ مشورے سے طے ہوں تمہارے لئے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہے یعنی مرنے سے جینا بہتر ہے اور جب تمہارے حکمران شریر یعنی ظالم وفاسق ہوں تمہارے مال دار بخیل ہوں یعنی غربیوں اور دین کے کاموں میں خرچ کرنے سے گریز کرتے ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں یعنی ان کے فیصلے تم اپنے گھروں اور ملک میں نافذ کرنے لگو تو تمہارے لئے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے بہتر ہے یعنی ایسی زندگی سے مرجا نا بہتر ہے۔ “
اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے لوگوں کے حق میں نیک شخص کی دعا قبول نہ ہوگی
کتاب الزہد ابن مبارک میں حضرت انس سے روایت ہے کہ:” لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مؤمن مسلمانوں کی جماعت کے لئے دعا کرے گا مگر قبول نہیں کی جائے گی‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو اپنی ذات کے لئے اور اپنی پیش آنے والی ضروریات کے لئے دعا کر‘ میں قبول کرتا ہوں لیکن دوسرے لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروں گا اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے مجھے ناراض کردیا ہے“۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں کی حالت ایمان وعمل کے اعتبار سے اتنی کمزور اور خراب ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوں گے اور ان کے حق میں دعا بھی قبول نہیں فرمائیں گے اور اگر اللہ کا کوئی نیک بندہ ان لوگوں کے لئے دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہوگا کہ جو دعا خاص تیری ذات ضروریات کے متعلق ہوگی وہ تو میں قبول کروں گا اور جو اللہ تعالیٰ کے غضب یافتہ لوگوں کے بارے میں ہوگی وہ قبول نہیں کروں گا۔
اہم مقصد پیٹ پالنا بن جائے گا
کتاب الزہد ابن مبارک میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ:
” لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا“۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ قیامت سے پہلے ایک زمانہ ایسا ہوگا کہ لوگوں کا بڑا مقصد اپنے پیٹ کی خواہش پوری کرنا ہوگا اور ان کی دنیا کی زندگی کی بھاگ دوڑ اور نقل وحرکت سب کچھ پیٹ کے لئے ہوگی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ ہرقسم کے فتنے اور فسادات میں مبتلا ہوں گے‘ انہیں دین اسلام کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی‘ ان کی خواہش جس چیز کی ہوگی خواہ وہ چیز حرام وناجائز ہی کیوں نہ ہو‘ وہ اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے اس کو حاصل کرکے ہی رہیں گے۔
دنیا سے اچھے لوگوں کا رخصت اور برے لوگوں کا باقی رہ جانا
مستدرک حاکم میں حضرت جابر بن عبد اللہ  سے روایت ہے کہ:
”تمہیں اس طرح چھانٹ دیا جائے گا جس طرح اچھی کھجور چھانٹ لی جاتی ہے‘ چنانچہ تمہارے اچھے لوگ اٹھتے چلے جائیں گے اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے‘ یہاں تک کہ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہوگی‘ اس وقت اگر تم مرسکتے ہو تو مرجانا“
فائدہ:خود کشی کرنا تو کسی صورت میں بھی جائز نہیں‘ مطلب یہ ہے کہ ایسے وقت میں زندگی کوئی خیر والی نہیں ہوگی‘ بلکہ اس وقت موت آجانے میں خیر ہوگی۔
اچھے لوگ کون ہیں اور برے لوگ کون؟
مستدرک حاکم میں حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ:
”حضور ا نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں تمہارے برے لوگوں کے مقابلے میں اچھے لوگوں کے بارے میں خبر نہ دیدوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیوں نہیں‘ اے اللہ کے رسول ا ! حضور انے ارشاد فرمایا جو تم میں عمر کے اعتبار سے بڑے اور عمل کے اعتبار سے اچھے ہوں“۔
آخری زمانہ کے حجاج کرام
ام القریٰ حافظ طبری میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا:
” لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ میری امت کے مالدار لوگ سیر وتفریح کی نیت سے حج کریں گے اور درمیانہ درجہ کے لوگ تجارت کے لئے اور قاری ریا وشہرت کے لئے اور فقیر بھیک مانگنے کے لئے حج کیا کریں گے“۔
فائدہ: یعنی حج جیسی مقدس عبادت کی ادائیگی کے لئے دنیاوی اغراض ومقاصد کو پیش نظر رکھنا تقویٰ کے خلاف ضرور ہے‘ فتویٰ کے خلاف ہو یا نہ ہو۔
پانچ گناہوں کی پانچ سزائیں دنیا میں
مؤطا امام مالک میں حضور اکرم اکا ارشاد گرامی ہے کہ آپ ا نے فرمایا :
۱- جو قوم اپنے عہد وپیمان توڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ ان کے اوپر ان کے دشمن کو مسلط فرمادیتے ہیں۔
۲- اور جب لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے خلاف احکام جاری کرنے لگتے ہیں تو ان میں فقر وفاقہ پھیل جاتا ہے۔
۳- جب ان میں بے حیائی وبدکاری ظاہر ہونے لگتی ہے تو کثرت سے ان میں اموات ہونے لگتی ہیں۔
۴- اور جب ناپ تول میں خیانت کرنے لگتے ہیں تو پیدا وار کم ہونے لگتی ہے اور قحط میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
۵- اور جب زکوٰة دینا چھوڑدیں تو خشک سالی میں مبتلا کردئیے جاتے ہیں۔
فائدہ: مذکورہ پانچ گناہوں کی پانچ سزائیں تو دنیا میں مل جاتی ہیں اور آخرت والی سزا الگ ہے‘ اس حدیث کے مطابق ہرشخص اپنا محاسبہ کرے اور اپنے اعمال درست کرنے کی کوشش کرے۔
ایک زمانہ میں تین چیزوں سے مشکل کوئی چیز نہیں ہوگی
طبرانی نے حضرت حذیفہ  سے روایت کیا ہے کہ: ’
’حضور کریم ا نے فرمایا: عنقریب تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ تین چیزوں سے زیادہ کوئی چیز مشکل نہیں ہوگی۔ ۱:- حلال کا پیسہ‘ ۲:- غمخواردوست‘ ۳:-سنت نبوی ا پر عمل کا شوق۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف حضرت مولانا رشید احمد کا فتویٰ کفر
Flag Counter