Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

4 - 12
ستر اورھماری نمازیں
ستر اور ہماری نمازیں

بالغ مرد حضرات کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ یعنی ستر میں ابتدائی مقام ناف اور انتہائی حد پورے گھٹنے شامل ہیں‘ یہ حد بندی عموماً کسی قسم کی وضاحت اور احاطہ بندی کی محتاج نہیں‘ ستر اس خاص جسمانی ہیئت کے چاروں اطراف کے مستور ہونے کا متقاضی وطالب ہے۔ اگر ستر کی حد میں سے کچھ حصہ ننگا یا برہنہ رہ گیا‘ نماز تو صحیح ہوجائے گی لیکن ستر کے کسی حصہ کا ننگا اور برہنہ ہونا بے حیائی اور بے شرمی ہے․․․ حج کے قیام کے دوران بندہ وقتاً فوقتاً اخبارات کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ عرب نیوز‘ ریاض کا تمام تر حاصل مطالعہ زیر بحث لانے سے بندہ نہ صرف قاصر ہے بلکہ قاری کے لئے چنداں مفید بھی نہیں ہے۔ اواخر نومبر ۲۰۰۷ء کا عرب نیوز‘ ریاض بندہ نے دیکھا تو اس میں ایک مختصر مضمون نماز میں ستر کے نہ ہونے کے بارے میں تھا۔اس مختصر مضمون کا خلاصہ حاضرِ خدمت ہے: ”جدہ‘ مملکت سعوی عربیہ میں بنام ملک عبد العزیز یونیورسٹی ہے‘ اس میں زیادہ سے زیادہ جدید مضامین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم بالخصوص اسلامی اقتصادیات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے‘ اسلامی اقتصادیات کی تعلیم سعودی عرب کی دیگر جامعات میں بھی خاصی مقبول ومروج ہے اور طلباء اس پر ڈاکٹریٹ کے مقالے پیش کررہے ہیں اور وہ مقالے طبع ہورہے ہیں جیسے جامعة ام القریٰ بمکة المکرمة کا طبع شدہ مقالہ ”الفقہ الاقتصادی الأمیر المؤمنین عمر بن الخطاب‘ تالیف الدکتور جریبة بن احمد بن سنیان الحارثی‘ دار الأندلس الخضراء‘ جدہ‘ سعودی عربیہ‘ الطبعة الأولیٰ‘ ۱۴۲۴ھ-۲۰۰۳ء‘ صفحات ۷۳۷“۔ ملک عبد العزیز یونیورسٹی کے اجنبی اور مقامی طلباء عموماً پتلون‘ انڈرویئر اور چھوٹی شرٹ پہنتے ہیں‘ وہ باقاعدہ نماز کی بھی پابندی کرتے ہیں‘ فرنگی لباس پہن کر نماز کی ادائیگی کی صورت میں پشت کا کچھ زیریں حصہ سجدہ کی حالت میں ننگا اور برہنہ ہوتاہے کبھی کبھار کے انتباہ کے باوجود طلباء فرنگی لباس پہنتے ہیں‘ ملک عبد العزیز یونیورسٹی کی انتظامیہ اس سوچ بچار میں مبتلا ہے کہ کس طرح اس قسم کی برہنگی اور عریانی سے نجات حاصل کی جائے‘ انضباطی وتادیبی کارروائی کے ساتھ ساتھ ترغیب وتربیت سے کام لے کر اس قسم کی عریانیت کی اصلاح کی جائے‘ملک عبد العزیز یونیورسٹی کی انتظامیہ اس کے حل کے سلسلہ میں غور وخوض کے مراحل سے گذررہی ہے‘ قوی امید ہے کہ وہ اس کا لازماً حل تلاش کرکے اس عریانیت اور بے حیائی کا مکمل سدباب کردیں گے۔ آمدم برسر مطلب! اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں بھی اسکولوں‘ کالجوں‘ جامعات‘ پیشہ وارانہ اداروں‘ وکلاء برادری‘نجی وسرکاری ہسپتالوں‘ نجی وسرکاری دفاتر کے تقریباً تمام ملازمین وافسران کا مروجہ لباس پتلون‘ انڈرویئر اور شرٹ ہے‘ ادائیگی نماز میں شاذ ونادر کے ماسواء ایسے نمازیوں کی زیریں پشتیں ننگی اور برہنہ ہوتی ہیں‘ درست اور صحیح ادائے صلوٰة (نماز) صرف انفرادی مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ اس صورت میں اجتماعی لمحہٴ فکریہ ہے‘ بالفاظ دیگرایسے لباس میں مساجد میں قصداً اس بے حیائی اور بے شرعی کا ارتکاب کرتے ہیں‘ اس ضمن میں جزاء وسزا کی بات کرنا بندہ کے بس میں نہیں ہے‘ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات پر صحیح اور درست انداز میں عمل پیرا ہونا ہی شرعی تعمیل اور دینی متابعت ہے‘ ورنہ برہنگی شریعت کی موافقت نہیں رکھتی اور یہ ڈھکی ہوئی مخالفت کی حامل ہے۔ اس ضمن میں علماء کرام‘ مفتیان عظام‘ خطباء وائمہ حضرات‘ اساتذہ ومشائخ‘ دینداران قوم وملت‘ سیاسی ومذہبی حضرات‘ دعوت وتبلیغ کے سرگرم اراکین‘راہنمائے شریعت وطریقت اور دیگر حضرات سے دل جمعی سے التجاء ہے کہ وہ سب ملکر اور متفق ہوکر اس ننگے پن اور عریانیت کے خاتمہ کے لئے محنت کریں‘ خطباء اور مقررین صاحبان سے گذارش ہے کہ وہ اس کے سدباب کی کوشش کریں‘ نیز اسلامی تعلیمات کی تعمیل کے ضمن میں عوام الناس کی مایوسی اور بے بسی‘ بے اختیاری وبے اعتباری‘ بے چینی وبے یقینی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بس اللہ تعالیٰ ہی توفیق وہدایت نصیب فرمائے۔ سیاسی بصیرت کے حامل افراد‘ مستشرقین‘ مغرب زدہ ہستیاں‘ سول سوسائٹی کے چوٹی کے سرپرست‘ آزاد منش حضرات اور غیر جانبدار تبصرہ نگار ان عمومی گذارشات کو پڑھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملکی سیاسی ومعاشی حالات اس قسم کی فقہی ندرت پر عملداری کی اجازت نہیں دیتے‘ اس نازک وسنگین دور میں صرف اور صرف تحمل‘ برداشت اور بردباری کی شدید ضرورت ہے‘ ان سب حضرات سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ ہم ماضی میں اجتماعی طور پر ہر فقہی ندرت کو کسی حیلے وحربے کے ذریعے رد کرتے رہے‘ اس لئے آج ان خراب حالات کے پیش نظر ہماری سیاسی بصیرت طرح طرح کی سلجھی ہوئی اصطلاحات اور ذو معنیٰ الفاظ کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے‘ لہذا ذراسی فراخ دلی اور مفاہمت کو اپناتے ہوئے ہمیں اس قسم کی فقہی ندرتوں سے دہشت زدہ نہیں ہونا چاہئے‘ستر اور ہماری نمازوں کے حوالہ سے وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے اور اصلاح صلوٰةکی خاطر مندرجہ بالا گذارشات پیش کی گئی ہیں‘ کیونکہ صلوٰة ہمارے دین کا دوسرا اور بنیادی رکن ہے۔لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ادائے صلاة کی صحت اور درستگی میں ذرہ بھر بھی تأمل سے کام نہ لیں‘ کیونکہ نماز کی صحت ودرستگی ہماری دنیوی اور اخروی نجات کا باعث ہے‘ بلاشبہ نماز کی صحت اور درستگی کی ضمانت فراہم کرنا ہمارا اولین اسلامی فریضہ ہے۔ قارئین کرام سے استدعا ہے کہ ان مختصر گذارشات میں اگر کوئی تقصیر وغلطی سرزد ہوگئی ہو تو اس کو از راہ کرم درخور اعتناء فرمادیں‘ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو ہم سب کے لئے توشہٴ آخرت بنادے‘ آمین․
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: تعلیم و تربیت میںشدت نہیں شفقت کی ضرورت
Flag Counter