Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

2 - 12
حرام کمائی کی وجہ سے عبادات چھوڑنا
حرام کمائی کی وجہ سے عبادات چھوڑنا! کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میں ایک سرکاری محکمے میں کام کرتا ہوں جہاں تقریباً نوے فیصد لوگ رشوت لیتے ہیں‘ یہ معاملہ پولیس کی طرح جبراً نہیں ہوتا‘ بلکہ خوشی اور افہام وتفہیم سے ہوتا ہے‘ کاروباری لوگ اپنا ٹیکس کم کرانے کے لئے متعلقہ سرکاری افسر کو رشوت کی آفر کرتا ہے‘ متعلقہ افسر رشوت قبول کرکے اس کا ٹیکس کم کرتا ہے اور حکومت کا نقصان کرتا ہے۔ ہر سرکاری شخص جو اس کام میں ملوث ہے‘ جانتا ہے کہ یہ کام دینی ودنیاوی دونوں طرح غلط ہے‘ لیکن ساتھ ساتھ مجبوریاں بیان کرتا ہے‘ مثلاً: تنخواہ کم ہے‘ خرچے زیادہ ہیں‘ ماحول سارا خراب ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی ماحول میں دیکھتا ہوں کہ بعض سرکاری لوگ جو رشوت لینے میں پوری طرح ملوث ہوتے ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ پورے خشوع وخضوع سے نماز بھی پڑھتے ہیں‘ روزہ بھی رکھتے ہیں‘ انہیں پیسوں سے زکوٰة دیتے اورخیرات بھی کرتے ہیں ‘ حج بھی کرتے ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک شخص جانتے بوجھتے حرام کی کمائی میں ملوث ہے اور ساتھ فرائض بھی ادا کرتا ہے تو کیا یہ عبادات اللہ تعالیٰ کی نظر میں قابل قبول ہیں ؟ کیا یہ منافقت کے زمرے میں نہیں آتا کہ ایک شخص سارا دن حرام کی کمائی میں ملوث ہو اور ساتھ ساتھ نمازیں بھی پڑھتا ہو اور میں بھی اسی محکمے میں کام کرتا ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جو رشوت لیتے ہیں‘ میرا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے لیکن میں نماز‘ روزہ‘ زکوٰة جیسے فرائض ادا نہیں کرتا‘ کیونکہ مجھے یقین نہیں آتا کہ ایسی صورت حال میں یہ عبادات قبول ہوں گی‘ جبکہ ہمارے پیٹ میں حرام کا پیسہ ہو؟ براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر میری اس الجھن کو دور فرمائیں۔
المستفتی‘ محمد عبد اللہ
الجواب باسمہ تعالیٰ
واضح رہے کہ شرعی احکام بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہیں: ۱:․․․ اوامر:جن کی بجا آوری کا حکم ہے۔۲:- نواہی :جن سے بچنے اور اجتناب کرنے کا حکم ہے۔ شرعاً دونوں قسم کے احکام ماننا لازم ہے‘ کوئی بھی مکلف مسلمان اس وقت تک کا مل مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اوامر بجانہ لائے اور نواہی سے اجتناب نہ کرے۔ اگر کوئی مسلمان صرف اوامر بجا تولاتا ہے،لیکن نواہی سے پرہیز نہیں کرتا تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا نافرمان‘ باغی‘ مجرم اور دنیا وآخرت میں شدید مواخذہ کا حقدار ہے۔ قابل مواخذہ جرائم کے ارتکاب اور احکامِ الٰہی پر ادھورا عمل کرنے سے یہ قطعاً لازم نہیں آتا کہ ایسے مجرم وگناہ گار مسلمان کے دوسرے ادا شدہ اعمال بھی کالعدم ہوجائیں‘ یا یہ کہ دوسرے اعمال بجالانا سرے سے بے فائدہ ہوجائیں، ایسا ہرگز نہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ نواہی کو ترک کرتے ہوئے اوامر کو بجالانے والا چھوٹا مجرم ہے اور اوامر ونواہی دونوں کی پرواہ نہ کرنے والا بڑا مجرم ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بعض نافرمانیوں اور بدعملیوں کا منفی اثر نیک اعمال اور عبادات پر پڑتا ہے‘ لیکن یہ اثر عبادات کی ظاہری صورت پر نہیں پڑتا۔مطلب یہ کہ اگر ایک مسلمان نماز‘ روزہ اور حج جیسی عبادات بجالاتاہے تواس پر جواز کے ظاہری احکام لاگو ہوں گے، ایسا شخص شریعت اور معاشرہ کی نظر میں ان فرائض کا بجا لانے والا شمار ہوگا،کیونکہ فقہاء امت کے بقول اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہوچکا ہے ۔ حرام کاموں سے بچتے ہوئے عبادات کرنے والے کو جو روحانیت ‘ خیر وبرکت اور اجر وثواب ملتا ہے ‘ حرام مال کھانے والا اس سے محروم رہے گا۔جیسا کہ ر د المحتار علی الدر المختارمیں ہے:
”ولذا قال فی البحر: ویجتہد فی تحصیل نفقة حلال‘ فانہ لایقبل بالنفقة الحرام‘ کما ورد فی الحدیث مع انہ یسقط الفرض عنہ معہا‘ ولاتنافی بین سقوط وعدم قبولہ‘ فلایثاب لعدم القبول‘ ولایعاقب عقاب تارک الحج‘ الخ‘ ای لأن عدم الترک یبتنی علی الصحة: وہی الاتیان بالشرائط و الارکان‘ والقبول المترتب علیہ الثواب یبتنی علی اشیاء کحل المال والاخلاص کما لو صلی مرائیا اوصام واغتاب فان الفعل صحیح لکنہ بلاثواب“۔ (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۴۵۶ ط:سعید)
بنابریں سائل کا یہ نظریہ کہ ”حرام کمائی والے کی عبادت قبول نہیں ہوتی، اس لئے فرائض کی ادائیگی کا کوئی فائدہ نہیں“ سراسر غلط اور شیطانی دھوکہ ہے۔ یہ نظریہ بھی درحقیقت مالِ حرام کی نحوست کا اثر ہے۔ سائل پر لازم ہے کہ وہ اس باطل نظریہ سے تائب ہو ،اور حرام مال سے کلی طور پر اجتناب کرے۔ نیز آئندہ زندگی میں عبادات کا بھر پور اہتمام کرے‘ شیطان کے دھوکے اور نفس کے بہکاوے میں نہ آئے، ورنہ ایسا شخص عند اللہ اور عند الناس ان لوگوں سے بڑا مجرم شمار ہوگا جو حرام مال استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ عبادات بھی ادا کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات ذہن نشین رہے کہ جن لوگوں کے ذرائع آمدن مکمل طور پر ناجائز اور حرام ہوں ،اگر وہ اپنے حرام اموال سے زکوٰة بھی دیں تو ان کے زکوٰة دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘ کیونکہ زکوٰة خالص مالی فرض ہے‘ جس کی ادائیگی اور قبولیت کے لئے خالص اور حلال مال ہونا ضروری ہے۔ مالِ حرام میں زکوٰة نہیں۔ بلکہ اس سارے مال کو بلانیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے:
قولہ ا: ان اللہ طیب لایقبل الا طیبا۔ (مشکوٰة:۱/۲۴۱‘ط:قدیمی کراچی)
ردالمختار علی الدرالمختارمیں ہے:
قولہ: کما لو کان الکل خبیثاً‘ فی القنیة‘ لوکان الخبیث نصاباً لایلزمہ الزکوٰة‘ لان الکل واجب التصدق علیہ‘ فلایفید ایجاب التصدق ببعضہ۔ ومثلہ فی البزازیة۔ (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۲۹۱‘ط:سعید کراچی)
پس سائل کے لئے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ اپنی باطل سوچ اور گذشتہ گناہوں پر توبہ واستغفار کرے‘ فوت کردہ نمازوں کی قضا کرے اور خوفِ خدا کو پیش نظر رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل فرمادیں گے اور کفایت کی نعمت سے نوازدیں گے۔
۱:قولہ تعالی: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً‘ ویرزقہ من حیث لایحتسب‘ ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ․․الآیة (الطلاق:۲-۳)

الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ

محمد عبد المجید دین پوری
صالح محمد
محمد حذیفہ رحمانی

دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: اسلامی نظریاتی کونسل کے چیَرمین ڈاکٹرخالد مسعودکا تعارف
Flag Counter