Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

8 - 12
قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے
قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن


میرے فاضل ذہین دوست حضرت مولانا لطف الله پشاوری نے ہمارے شیخ امام العصر رحمہ الله کے حوالے سے مجھے بتایا کہ انہوں نے فرمایا ”قرآن کریم کی تالیف شدہ تفاسیر کی تعداد دو لاکھ تک پہنچتی ہے “۔ واقعی جب کتاب الله تعالیٰ کی کتاب ہو تو وہ اسی شان کے لائق ہے ،اور جب قرآن کریم کے بارے میں علمائے امت کے علوم کا یہ حال ہے توحضرات صحابہ کرام کے علم کے بارے میں آپ کاکیا گما ن ہے ؟ یہ بات اس روایت سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو امام مالک نے اپنی مؤطا میں حضرت ابن عمر رضی الله عنہما کے بارے میں نقل کی ہے کہ” انہوں نے قرآن کریم کو یاد کرنے (سمجھنے) میں آٹھ سال کا عرصہ لگایا “۔
اور اسی طرح امام سیوطی وغیرہ نے امام مجاہد سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ ”میں نے ابن عباس سے قرآن کریم کو تیس بار پڑھا “۔
(یہ تو صحابہ کی بات ہوئی )پھر ان علوم کے بارے میں آپ کا کیا گمان ہے جن کو الله تعالی نے اس ہستی کے ساتھ خاص کیا ہے جس کو اولین اور آخرین کا علم عطا فرمایا ہے ،جوروئے زمین پر اب تک جتنے لوگ آئے ہیں یا جو آئندہ آئیں گے ان میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں،وہ ذات جن کے ذریعے یہ کتاب نازل ہوئی ۔ یہاں تو یہ بھی ممکن نہیں کہ پوری امت کے قلوب ان علوم کو جمع کرلیں جو الله نے اس امت کے پیغمبر خاتم النبیین سید المرسلین کے سینہ اطہر میں ودیعت فرمائے ہیں ۔ پھر اس سے مزید اور آگے اس کتاب کے نازل کرنے والے کی طرف جائیں ،وہ کتاب جس کی آیات کو محکم بنایا گیا اورجسے حکیم وخبیر ذات کی طرف سے خوب تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ،اس ذات کے علوم کے بارے میں آپ کا کیا گمان ہے؟ وہ علوم جو الله تعالی نے اپنے پاس اپنے غیب کے خزانوں میں رکھے ہیں ، وہ ذات ہی ایسی ہے جس کا ذکر بلند وبالاہے جس کی دلیل بہت عظیم ہے۔ نہایت ہی دور کی بات ہے کہ جاہل مخلوق کی خالق علیم وحکیم کے ساتھ کوئی ادنی نسبت ہو ،حضرت خضرعلیہ السلام کی مثال اس بات کو واضح کردیتی ہے ،وہ پھر بھی ایک مثال ہے ،حقیقت نہیں ہے ،اس لیے کہ قطرہ اور سمندر دونوں متناہی اور ختم ہونے والے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات اس سے بلند وبالا ہے کہ اس کے علم کی طول وعرض میں کوئی حد مقرر کی جائے ،ان کا علم ساتوں آسمانوں اور زمینوں کو محیط ہے اور یہ کیوں نہ ہوجبکہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں :
”اے نبی کہدو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو وہ ختم ہوجائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی بلکہ اتنی ہی روشنائی اور لے آئیں ۔ (سورئہ کہف)
اور فرمایا :
” زمین میں جتنے درخت ہیں ،اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر جیسے سات مزید سمندر ،روشنائی مہیا کریں ،تب بھی الله کی باتیں ختم نہ ہوں گی ،بیشک الله زبردست اور حکیم ہے “۔ (سورئہ لقمان)
پس جس شخص نے بھی قرآن کریم کی تفسیر لکھی ،چاہے وہ سینکڑوں جلدوں میں ہو، بلکہ ہزاروں جلدوں میں ہی کیوں نہ ہو ،اس شخص نے ان تمام علوم کا احاطہ نہیں کیا جو قرآن کریم میں موجود ہیں ،صاحب اتقان ،امام ابن ابی الدنیا سے نقل فرماتے ہیں کہ :
”قرآن کریم کے علوم اور استنباطات (و ہ مسائل جو اس سے استنباط کیے جائیں ) ایک ایسا سمندر ہیں جس کا کوئی کنار ہ نہیں ۔“
ہا ں البتہ وہ شخص اپنے حصہ اور کوشش کی بقدر علم کا احاطہ کرسکتا ہے اور ہر شخص اپنی لمبی رسی میں لکڑیا ں جمع کرتا ہے ۔جیساکہ شاعر نے کہا:
”اور ہر وہ شخض جس نے شعر کا ایک ٹکڑا کہہ دیا وہ شاعر نہیں ہے ،اور ہر وہ شخص جو عشق کی مشقت برداشت کرلے وہ عاشق نہیں ہے “۔
اور کسی نے کہا :
”ہر وہ شخص جس کی انگلیوں کے پورے رنگے ہوئے ہوں وہوموتی نہیں ،اور ہروہ تلوار جس کے لوہے کی قلعی کی گئی ہووہ یمنی تلوار نہیں ہے۔“
حق اور سچ بات یہ ہے کہ حقیر مخلوق ،خالق بزرگ وبرترکے کلام کا حق ادا نہیں کرسکتی ،پس ان کے قدم باز رہ گئے ،اور ان کا حرص پیچھے ہٹ گیا اور ان کی ہمتوں نے کام چھوڑدیا ،اسی وجہ سے علوم قرآن میں سے بہت سے علوم اپنے مرکز ومعدن میں چھپے رہے اور اسی طرح چھپے رہیں گے الا یہ کہ الله تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں پر بہت زیادہ برسانے والے بادل سے بارش برسانے کا ارادہ ازلی فرمالیں اور صبح کے وقت اٹھنے والے بادل امت کو علوم قرآن سے (جب تک الله تعالیٰ چاہیں )سیراب کرتے رہیں ،اور قریب ہے کہ زمین کے بہت سارے بنجر ٹکڑے ان علوم سے سیراب ہوں جب وہ اس کے فیضان کی طرف مشتاق ہوں،اور کبھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ الله تعالیٰ قرآن کریم کے پوشیدہ علوم کو ہر زمانے میں اس وقت ظاہر فرماتے ہیں جب اہل زمانہ اس کا محتاج ہو اور لوگوں کے نفوس اس کا خوب شوق رکھتے ہوں ۔ اور یہ بات ایک حقیقت ہے بشرطیکہ آپ صحابہ کے زمانے سے لے کر ہمارے زمانے تک قرآن کریم کی ہر زمانے کی تفسیر کے مشاہدے کے لیے اپنا سر کھپائیں اور اس طرف ایک اجمالی نظر ڈالیں تو میری ناقص رائے کی حقیقت آپ کو معلوم ہوجائے گی اور قریب ہے کہ بعض دل اس بات کو قبول کرلیں ،اگر مجھے مقصد سے دور ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس موضوع پر تحقیق کا حق ادا کرتا ،البتہ عقلمندوں کے لیے اشارات میں کفایت ہے ۔ اور قریب ہے کہ اسلامی علوم کے خزانے (علماء ) یہ قیمتی جواہر دنیا والوں کے سامنے لانے کی مہربانی کریں گے ،جیسا کہ ان دنوں اس کے آثار نظر آنے لگے ہیں چنانچہ بہت سارے ایسے پوشیدہ اسلامی علوم اورعلمائے امت کے علمی خزانوں سے ،لوگوں کے کتب خانے بھر گئے ہیں ،وہ علمی خزانے جن کو زمانے نے بخل کی بنا پر چھپا رکھا تھا اورگمان تھا کہ حوادث زمانہ نے ان کو نایاب کردیا ہے ،جبکہ لوگ انتہائی بے چینی کے ساتھ اس کی طرف محتاج ومشتاق تھے۔
تفسیر قرآن میں سب سے اہم اور معتبر کونسی تفسیر ؟
پھر میں کہتا ہوں کہ امت کی یہ تمام مبارک کوششیں اس لائق ہیں کہ ان کی قدرومنزلت کو دل وسینہ میں جگہ دی جائے ،اس لیے کہ انہوں نے حسب استطاعت علوم قرآن کی تشریح وتوضیح اور اس کی عظمت کی حفاظت اوردفاع میں اپنی محنتوں کو صرف کیا ،اس امت میں جو ان کے بعد آئے ہیں ان کے کندھوں پر ان کا بڑا احسان ہے۔ علاوہ اس کے قرآن کریم کی سب زیادہ اہم اور معتبر تفسیر وہ ہے جونبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک زندگی اور آپ کے بتائے ہوئے طریقے اور راستے پر غور کرکے اس کی روشنی میں لکھی ہوئی ہو ،خواہ و ہ آپ کا قول وعمل ہویا اشارہ و دلالت،اس لیے کہ آپ کی پاکیزہ زندگی اور آپ کی مبارک ومقدس سیرت الله رب العزت کی کتاب کی بے مثال تشریح ،ہے ایسی تشریح جو آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے اور قرآن کریم کی غرض ومقصد کو ظاہر کرنے کے لیے کئی قسم کی سوچ وبچار سے نجات کاذریعہ ہے ،اس بات کی وضاحت کے لیے حضرت صدیقہ بنت صدیق سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے ،فرماتی ہیں ”کان خلقہ القرآن “(قرآن کریم آپ کی سیرت تھی ) ہمارے شیخ حضر ت امام العصر فرمایا کرتے تھے کہ:
”جب انسان پوری توجہ کے ساتھ حدیث شریف میں غوروفکر کرے تو بہت سی احادیث سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ گویا قرآن کریم بہت زیادہ بہنے والا ایک ایسا چشمہ ہے، جس سے علوم نبوت پھو ٹ رہے ہوں، یہاں تک کہ آپ بہت سی احادیث میں قرآن کریم کے معنی کی وضاحت کے لیے باریک اشارات دیکھیں گے۔اور اس کے لیے امام جلال الدین سیوطی متوفی (۹۱۱ھ) کی تفسیر ”الدر المنثور فی التفسیر الماثور“ جتنی مفید ہے اتنی کوئی اور تفسیر مفید نہیں ۔“
راقم الحروف کہتا ہے کہ اس کی تائید ا س بات سے ہوتی ہے جسے امام سیوطی نے اپنی کتاب ”الاتقان“ میں یہ کہتے ہوئے نقل کیا ہے :
”تحقیق امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو بھی فیصلہ فرمایا ہے وہ حقیقت میں وہی ہے جسے آپ صلی ا لله علیہ وسلم نے قرآن کریم سے سمجھا ہے ۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں :إنا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک الله یعنی ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی حق کے ساتھ تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس چیز سے فیصلہ فرمائیں جو الله نے آپ کو سمجھائی ۔“
ہمارے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ قران کریم کی مراد اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک حدیث کی طرف رجوع نہ کیا جائے اور حدیث شریف کو قرآن کریم کے لیے شرح نہ بنائی جائے اور اسی طرح حدیث شریف کا مفہوم ومقصد معلق رہتا ہے جب تک کہ فقہ کی طرف رجوع نہ کیا جائے اور اس کے ذریعہ بات کی حقیقت کا ادراک نہ کیا جائے ۔ حافظ ولی الدین العراقی اور ابن مرزوق کے شاگردشیخ عبدالرحمن ثعالبی جزائری(متوفی۸۷۵ھ) نے اپنی کتاب ”الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن “ میں نقل کیا ہے کہ حافظ ابوعمروبن عبدالله القرطبی متوفی(۴۶۳ھ) نے اپنی کتاب ”التقصی“ میں فرمایا ہے :
”اولی الامر (علماء) وہ ہیں جو اپنے نفس کی اصلاح کریں اور اسے احادیث کی معرفت کا الہام ہو جو کہ قرآن کریم کے اجمال کی تشریح ہیں، اسی کے ذریعہ الله تعالیٰ کی اس مراد تک رسائی ممکن ہے جو وہ اپنے بندوں سے چاہتا ہے اور ان دینی احکام تک رسائی ہوگی جو لوگوں کے فائدے میں ہے ،جن کے ذریعے (بندوں ) کی آزمائش ہوتی ہے اور جن پر ابدی گھر (جنت) کو حاصل کرنے کا دارومدار ہے جس کے لیے اولیاء علماء ، عقلمندلوگ اور حکماء سب ہی کوشاں ہیں چنانچہ جس پر الله تعالیٰ نے قرآن وسنت کی حفاظت کا احسان کیا گویا اس کے ہاتھ ایمان کا جھنڈا دیا گیا ،اگر اس کو ساتھ ساتھ فہم فقہ عطا ہو اور اپنے علم پر بھی عمل کرے توایسے شخص کو آسمان والوں کے ہاں عظیم (بڑے ہونے )کا لقب مل جا تا ہے اور وہ بڑا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے ۔“
اس کے بعد اس تفسیر کی اہمیت جو صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی حیات مبارکہ کے انوار کی روشنی میں ہو ، اس لیے کہ وہ امت کے ستارے اور دین کے راہنما ہیں اور قران کریم کے اولین مخاطب ہیں اور امت میں سب سے پہلے یہی لوگ ہیں جنہیں بھلائیوں کے کرنے کا حکم دیا گیا اور برائیوں سے روکاگیا ، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن کریم کے متشابھات اور مشکل مقامات کے متعلق پوچھا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے مجمل اور مبہم کو کھول کھول کر بیان کیا ،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے مشکل الفاظ کے معانی ومطالب تک رسائی حاصل کی، جنہوں نے سب سے پہلے (آیات کریمہ) کے شان نزول کا علم حاصل کیا اور ان کے نازل ہونے کے مقاصد پر مطلع ہوئے اور بیشک یہ لوگ ان صفات کے مالک ہیں جو حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ :
”یہ لوگ حصرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ ہیں ،امت میں سب سے افضل ہیں ،سب سے زیادہ پاکیزہ قلوب کے مالک ہیں ،سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور سب سے کم تکلف کرنے والے ہیں ،الله تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی صحبت اور دین قائم رکھنے کے لیے انہیں چنا ہے ،آپ لوگ ان کے مرتبہ (مقام ) کوپہچانیں اور ان کے نقش قدم پر چلیں اور اپنی طاقت کے مطابق انکے اخلاق اور سیرت کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اس لیے کہ وہ صراط مستقیم پر ہیں ۔“
اور جیسا کہ ان کے بارے میں امام ابوداؤد نے اپنی سنن کے باب لزوم السنة میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ الله سے نقل کیا ہے، انہوں نے فرمایا:
” آپ اپنے نفس کے لیے ان چیزوں پر راضی ہوجائیں جس پر صحابہ اپنے نفس کے لیے راضی ہوئے ،اس لیے کہ وہ علم رکھنے والے ہیں اور انہیں گہری نظر وفکر عطا کی گئی اور وہ اموردینیہ کی حقیقت پر مطلع ہونے میں بہت قوی تھے اور وہ اس مرتبہ کے لیے جو ان کا تھا زیادہ موزوں تھے،اور اگر ہدایت کا راستہ وہی ہوتا جس پر تم ہو تو وہ لوگ تم سے پہلے اس تک پہنچ جاتے اور اگر تم کہو کہ ان کے بعد اگر کسی نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو اس نے اس کو ایجاد نہیں کیامگر اس نے حضرات صحابہ کرام کے علاوہ اور وں کی اتباع کی اور اس نے صحابہ سے اعراض کیا ،اس لیے کہ وہی لوگ آگے بڑھنے والے ہیں،پس انہوں نے مسائل میں کافی شافی کلام کیا ،ان سے کم کوئی مختصر عمل کرنے والا نہیں اور ان سے زیادہ عمل کے لیے کوئی تھکنے والا نہیں اور جن لوگوں نے ان سے زیادہ کمی کی کوشش کی تو گویا انہوں نے ظلم کیا اور جن لوگوں نے ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو انہوں نے زیادتی کی اور وہ اس بیچ (اعتدال )میں صراط مستقیم پر ہیں ۔
(جاری ہے )
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اورعلمائے دیوبند کا کردار
Flag Counter