Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

10 - 12
برکاتِ رمضان
برکاتِ رمضان


اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی عنایت و احسان ہے کہ ایک بار پھر ماہ مقدس ہم پر سایہ فگن ہے‘ اور اس کی برکات ہماری طرف متوجہ ہیں‘ ہم کس زبان اور کن الفاظ سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمارے دلوں کی بنجر زمین اور غیر آباد فضا کو سرسبز و شاداب کرنے کے لئے ایک بار پھر رحمت و برکت کی گھٹائیں بھیج دیں‘ جو بلاامتیاز ہر ایک پر چھم چھم برس رہی ہیں اور ہر شخص اپنی ہمت و استعداد کے مطابق ان سے مستفید ہورہا ہے‘ اگر کچھ خوش نصیب اس آبِ زُلال سے بھر پور نفع اٹھا رہے ہوں گے تو کچھ کوتاہ نصیب ایسے بھی ہوں گے جو ”بہتے دریا کے کنارے پیاسے“ کے مصداق اس شاہی عطا سے محروم ہوں۔ جن خوش نصیبوں نے رمضان المبارک اور اس کی مقدس ساعتوں کی قدر کی‘ ان کو کارآمد بنایا‘ سابقہ غلطیوں پر توبہ‘ تلافی کی‘ آئندہ کے لئے گناہوں سے اجتناب کا عزم کیا اور نیکیوں پر کمربستہ ہوگئے‘ بلاشبہ یہ ایسے لوگوں کے لئے‘ رحمت و مغفرت کا وسیلہ ‘ جہنم سے نجات اور مغفرت کا ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے اپنی روش بدلی‘ نہ گناہ چھوڑے‘ نہ سابقہ گناہوں پر پشیماں ہوئے‘ نہ توبہ کی اور نہ ہی ان لمحات کی قدر کی‘ وہ محروم رہے اور محروم ہی رہیں گے۔
الا من تاب وعمل عملاً صالحاً۔
اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص برستی بارش میں سائبان میں کھڑا برستی بارش کا سارا منظر دیکھتا رہے‘ بلاشبہ جس قوت سے بھی بارش برستی رہے سائبان کے نیچے کھڑے شخص پر ایک قطرہ بھی نہیں آئے گا‘ ٹھیک اسی طرح جن لوگوں نے توبہ‘ انابت‘ ندامت کے بعد ان لمحات کی قدر کرلی وہ رحمت و مغفرت کی برستی بارش میں کود گئے اور اس کی برکات سے مستفید ہوگئے اور جنہوں نے اپنے سروں پر گناہوں‘ بدکاریوں کا سائبان تانے رکھا اور عصیان و طغیان کے حصار میں گھرے رہے‘ ان پر رحمت و مغفرت الٰہی کی ایک بوند بھی نہیں ٹپکے گی۔ بلاشبہ جو لوگ دل و جان سے اس ماہ مقدس کی پذیرائی اور اس کی قدردانی کی کوشش کریں گے‘ اللہ تعالیٰ ان کو محروم نہیں رکھیں گے‘ بلکہ ان کی ہمت و قوت سے بڑھ کر ان کی نیت‘ خلوص اور اخلاص کے مطابق انہیں ایسا نوازا جائے گا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ اس کے برعکس جو لوگ اس کی ناقدری کریں گے یا اس سے بے اعتنائی برتیں گے اور توبہ‘ انابت اور ندامت کی بجائے عصیان و طغیان میں مبتلا رہیں گے‘ وہ محروم رہیں گے۔ چاہے ظاہری اعتبار سے وہ دن کو روزے رکھیں اور رات بھر جاگا کریں۔ چنانچہ حدیث میں ایسے ہی لوگوں کے بارہ میں فرمایا گیا ہے:
”رب صائم لیس لہ من صیامہ الاالجوع ورب قائم لیس لہ من قیامہ الا السہر۔“ (ابن ماجہ‘ ص:۱۲۱)
ترجمہ: ”بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو رات بھر جاگنے کی مشقت کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔“
اس لئے اگر کوئی شخص صدق دل سے سابقہ کوتاہیوں پر توبہ ‘ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرلے‘ اور عملاً اس کی قدردانی کرے‘ تو انشاء اللہ! وہ رمضان المبارک‘ روزہ‘ تراویح‘ لیلة القدر اور اعتکاف کی پوری پوری برکات سے مستفید ہوگا‘ بے شک وہ اپنی فطری کمزوری‘ ضعف‘ عذر اور بیماری کی وجہ سے کچھ زیادہ محنت و مجاہدہ نہ کرسکے‘ مگر انشاء اللہ محروم نہ رہے گا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے رب سے عبدیت کا تعلق استوار کرے‘ لیکن اگر کسی نے گناہ و عصیان اور بغاوت و طغیان نہ چھوڑا تو چاہے رات رات بھر جاگ کر گزارا کرے‘ اس کامقدر کھوٹے کا کھوٹا ہی رہے گا اور اس کا بخت کبھی بھی نہیں جاگے گا۔ چنانچہ ”وقائع حضرت سیّد احمد شہید “ میں اس سلسلہ کا حضرت سیّد احمد شہید قدس سرہ کا ایک قصہ درج ہے‘ پڑھئے اور لطف اٹھایئے:
”… ماہ رمضان المبارک کی اکیسویں تاریخ حضرت سید المجاہدین …حضرت سیّد احمد شہید نے… اپنے شیخ اور پیر و مرشد …امام المحدثین… حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی… کی خدمت میں مشرف ہوکر عرض کیا کہ: اس عشرے کی کس رات میں لیلة القدر ہوگی؟ کہ اس رات کو جاگوں؟ امام المحدثین نے کہا کہ جس طور سے اور راتوں میں عبادت کرتے ہو‘ ان راتوں کو بھی کرو‘ راتوں کو جاگنے سے کیا ہوتا ہے؟ اکثر پاپیاں چوکیدار راتوں کو جگا کرتے ہیں‘ مگر نصیب ان کے سوتے اور اس نعمت سے محروم رہتے ہیں اور جس کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت دیتا ہے جگا لیتا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت امیر المومنین چپ رہے اور اپنے مکان پر جاکر‘ جہاں اترے تھے‘ تشریف لائے‘ پھر اسی ماہ مبارک کی ستائیسویں شب کو آپ نے بعد نماز عشاء کے چاہا کہ کچھ دیر بیدار رہیں‘ مگر یکبارگی خواب نے اس طور غلبہ کیا کہ حواس برجانہ رہے‘ زمام طاقت قبضہ اختیار سے جاتی رہی کچھ کوشش و تدبیر اپنی کام نہ آئی‘ بیتاب ہوکر ہمتیں خدا تعالیٰ کو سونپ کر سو رہے‘ پچھلی رات کو دو شخصوں نے آپ کو آکر جگایا‘ آپ آنکھوں کو کھول کر کیا دیکھتے ہیں کہ جناب رسالتمآب سیّدالمرسلین رحمت للعالمین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داہنے اور بائیں بیٹھے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اٹھ کر غسل کر کہ تو جنب ہے ‘ حضرت سیّدالمجاہدین نے اسی دم جاکر غسل کیا‘ بعد فراغ غسل کے نزدیک ان دونوں بزرگواروں کے آئے‘ ایک صاحب نے ان میں سے فرمایا کہ اے فرزند! آج لیلة القدر ہے‘ دعا اور مناجات کرنے سے جناب قاضی الحاجات میں کسی طور قصور نہ کرنا‘ پھر وہ دونوں بزرگوار وہاں سے تشریف لے گئے‘ حضرت سیّدالمجاہدین فرماتے تھے کہ اس رات کو مجھ پر نہایت فضل الٰہی ہوا کہ واردات عجیبہ اور واقعات غریبہ مشاہدہ ہوئے کہ بصارت ظاہری سے ہر شئے کو جس طور سے ہے‘ نظر کرتا تھا میں اور پھر اسی حالت میں دیدئہ دل سے‘ جس کو بصیرت باطنی کہتے ہیں‘ تمام شجر و حجر اور دیوار و در کو سجدے میں تسبیح و تہلیل کرتے ہوئے دیکھا…“ (وقائع سیّد احمد شہید ص:۱۶‘۱۷ مطبوعہ سیّد احمد شہید اکیڈمی لاہور)
بہرحال ہمیں چاہئے کہ ہم ماہ مقدس کے قیمتی دنوں‘ راتوں ‘گھنٹوں‘ منٹوں اور لمحوں سے زیادہ سے زیادہ نفع اٹھائیں‘ اس کی برکات سمیٹیں اور شریعت مطہرہ نے اس ماہ میں جو جو معمولات مقرر فرمائے ہیں ا ن کو بجالائیں‘ چنانچہ اس ماہ میں ہماری نیکی کا جذبہ بڑھ جانا چاہئے۔ گناہوں سے یکسر کنارہ کشی کرنا چاہئے۔ ہاتھ‘ زبان‘ کان اور آنکھ پر بلکہ دل و دماغ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور بغاوت کی سوچ و فکر سے پاک کرکے انہیں نیکی اور طاعت میں مصروف کردینا چاہئے‘ جس طرح ہم دن بھر کھانے پینے اور میاں بیوی کے تعلق سے روزہ رکھتے ہیں‘ اسی طرح ہمارا رات دن بلکہ ہر وقت تمام گناہوں سے روزہ ہونا چاہئے۔ باجماعت نماز‘ تراویح‘ تہجد‘ نوافل اور تلاوت قرآن کا اہتمام کرنا چاہئے اور کثرت سے درود شریف‘ استغفار ذکر و اذکار‘ اللہ تعالیٰ سے جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ مانگنے کا التزام کرنا چاہئے‘ اس ماہ میں صدقہ خیرات اور غریبوں‘ مسکینوں‘ ماتحتوں سے حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہئے۔بلاشبہ ہم اگر زمین والوں کے ساتھ شفقت و نرمی کریں گے تو آسمان والا بھی ہم سے رحمت و مغفرت کا معاملہ کرے گا۔ اسراف و تبذیر‘ نام و نمود اور دکھلاوے کی دعوتوں‘ اور روزہ کشائیوں سے احتراز کریں۔بلاشبہ روزہ داروں کے روزہ کھلوانے کا بڑا ثواب ہے‘ مگر بہتر یہ ہے کہ خاموشی سے غریبوں‘ مسکینوں‘ بیواؤں اور مدارس کے طلبہ اور ایسے لوگ جو دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں‘ ان کی مدد کریں اور ان کا روزہ کھلوائیں۔ اس مہینہ میں ہماری نیکیوں کا میزانیہ بڑھ جانا چاہئے‘ اس لئے کہ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے‘ لہٰذا روزانہ ایک بار صلوٰة التسبیح کا اہتمام کرنا چاہئے‘ ناظرہ خواں حضرات کو تین پارہ اور حفاظ کو کم از کم چھ پارہ تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے‘ معمولات کی تسبیحات میں بھی اسی طرح اضافہ ہوجانا چاہئے ‘ چنانچہ صبح شام استغفار‘ درود شریف اور تیسرے کلمہ کی تین تین تسبیح پڑھنا چاہئے‘ روزانہ عصر سے افطار تک دعا کا اہتمام کرنا چاہئے‘ کیونکہ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے‘ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم عین افطار کے وقت تو دعا کا التزام کرنا ہی چاہئے‘ یوں تو ہر مسلمان کو اوابین‘ تہجد‘ اشراق‘ چاشت کی سعادت و برکت سے محروم نہیں رہنا چاہئے‘ مگر رمضان المبارک میں ان نوافل کا بطور خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ اس ماہ میں اپنے علاوہ اپنے مرحوم والدین‘ رشتہ داروں‘ اکابر‘ بزرگان دین‘ اساتذہ‘ مشائخ اور دوست احباب کے حقوق کا بطور خاص خیال رکھنا چاہئے‘ ان کے لئے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب اور صدقات کا اہتمام کرنا چاہئے۔ جس طرح اپنے والدین‘ اساتذہ اور مشائخ کی زندگی میں ان کے لئے جوتے کپڑے بناتے تھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے‘ ہمیں اب بھی ان کا خیال رکھنا چاہئے‘ لہٰذا ان کے لئے کم از کم اتنا ایصال ثواب کرنا چاہئے ‘ جتنا ان کی زندگی میں ان کی ضروریات اور خوشنودی کے لئے خرچ کیا کرتے تھے‘ اس لئے کہ یہ ان کا ہم پر حق ہے اور ان کے حقوق کی بجا آوری ہمارے اخلاقی فرائض میں شامل ہے۔ جو شخص رمضان المبارک میں گناہوں سے بچنے کا اہتمام و التزام کرے گا‘ انشاء اللہ! اس کے لئے پورا سال گناہوں سے بچنا آسان ہوگا‘ اسی طرح جو شخص رمضان المبارک میں اعمال صالحہ کی عادت ڈال لے گا‘ انشاء اللہ! پورا سال اس کو ان معمولات کی توفیق میسر آئے گی‘ اس لئے اہتمام کرنا چاہئے کہ پورے رمضان المبارک میں ہماری کوئی نماز بغیر جماعت کے نہ ہونے پائے‘ بلکہ اگر تھوڑا سا مزید اہتمام کرلیا جائے تو بہت آسانی سے تکبیر اولیٰ کا چلہ پورا کیا جاسکتا ہے‘ چنانچہ پہلی رمضان المبارک سے شروع کرکے دس گیارہ شوال تک تکبیر اولیٰ کا چلہ پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ عموماً ہر مسلمان رمضان میں باجماعت اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتا ہے‘ اگر عید کے بعد مزید دس گیارہ دن کا اہتمام کرلیا گیا تو چالیس روز تک باجماعت اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی برکت سے ہمیں جہنم اور نفاق سے برأت کے دو پروانے بھی میسر آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ مقدس اور اس کے قیمتی لمحات کی قدر دانی کی توفیق ارزانی فرمائے اور اس میں ہماری اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۸ھ اکتوبر۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث
Flag Counter