Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

12 - 15
شرعی مسائل کے جوابات
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

دارالفتاءجامعہ اشرف المدارس کراچی

سوال: جناب مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں، میرے نام ایک مکان ہے جس کی مالیت ”17لاکھ“ ہے میرے 6بیٹے اور 4بیٹیاں ہیں، میرا سب سے بڑا بیٹا جس کا نام اقبال تھا، اس کا 2سال پہلے انقال ہوچکا ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں جو مکان میں اس کا حصہ بننا تھا وہ اسٹامپ پیپر پر لکھ کر اپنے چھوٹے بھائی پرویز کے نام کردیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اس میں میری بیوی اور بچے جو کہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں وہ اسمیں حصے دار نہیں ہوں گے۔ اس پر منشی نے جب یہ پوچھا کہ تم نے اپنی بیوی اور بچوں کے نام کچھ نہیں کیا تو انہوں نے یعنی مرحوم اقبال نے جواب دیا کہ میں نے ان کے لیے الگ ایک مکان خرید لیا ہے۔ اب میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ میں مکان بیچ کر کس کو کتنا حصہ دوں گی اور جو بیٹا انتقال کرگیا ہے کیا اس کی بیوی بچوں کو اس حصے سے کچھ دوں گی یا نہیں دوں گی برائے مہربانی آپ اس کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر اس مسئلے کو حل کرائیں میں آپ کی شکرگذار رہوں گی۔

جواب: اپنی صحت والی زندگی میں یعنی مرض الوفات میں مبتلا ہونے سے پہلے پہلے آپ اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ اموال (جس میں آپ کا سوال نامے میں مذکور مکان بھی داخل ہے) کی تنہا مالک و مختار ہیں، انہیں جس جائز جگہ آپ استعمال کرنا چاہیں کرسکتی ہیں، اسی طرح اگر آپ خوشی سے اپنی اولاد میں انہیں تقسیم کرنا چاہیں توتقسیم کرسکتی ہیں، اور یہ میراث کی تقسیم نہیں بلکہ آپ کی طرف سے ہبہ یعنی گفٹ شمار ہوگا۔ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی بقیہ زندگی کے اخراجات کے لیے جو کچھ رکھنا چاہیں رکھ لیں تاکہ بعد میں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے، اس کے بعد بہتر یہ ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر حصہ دیں، اور اگر میراث کے اصول کو سامنے رکھ کر بیٹیوں کو بیٹوں کے حصے سے آدھا دینا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے لیکن بغیر کسی معتبر عذر کے بیٹیوں کا حصہ اس سے بھی کم کرنا جائز نہیں، نیز کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اس کے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا جائز نہیں۔ تاہم اگر کسی وارث کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو بلکہ کسی اولاد کو اس کی فرمانبرداری ، یا نیک ہونے یا والدین کی خدمت کے پیش نظر دوسروں سے زیادہ دیاجائے تو یہ درست ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جس کو جو کچھ دیا جائے تقسیم کرکے باقاعدہ مالک اور قابض بناکر دیا جائے، مشترکہ طور پر دے دیا یا قبضہ کرائے بغیر صرف قانونی طور پر نام کردینا کافی نہیں، اس سے شرعاً ہبہ (گفٹ) درست نہیں ہوگا۔ اور چوں کہ آپ کے ہبہ (گفٹ) کرنے سے پہلے آپ کی اولاد میں سے کسی کا کوئی حصہ مذکورہ مکان میں نہیں بنتا، اس لیے آپ کے مرحوم بیٹے کا آئندہ ملنے والے حصے کو اپنے بھائی کے نام کرنا درست نہیں تھا، لہٰذا اس میں نہ اس کے بھای پرویز کا کوئی حق ہے اور نہ اس کی بیوی بچوں کا، ہاں اگر آپ تقسیم کے وقت اپنی مرضی سے مرحوم بیٹے کی بیوی بچوں کو بھی کچھ دینا چاہیں تو دے سکتی ہےں۔

سوال: کیا فرماتے ہیںمفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے ایک لاکھ روپے سے کاروبار شروع کیا تھا تو سال ختم ہونے کے بعد اس کے پاس پچاس ہزار روپے نقد ہے اور باقی پچاس ہزار روپے ان کا قرض ہے لوگوں پر قرضی کی وضاحت یہ ہے ہ وہاں پر لوگ ادھار پر سامان لیتے ہیں اور ادا کارنے کی کوئی مدت معلوم نہیں ہوتی کہ سال بعد ادا کریں یا دو سال بعد یہ وہاں کی عرف ہے۔ اب آیا کہ وہ شخص صرف پچاس ہزار روپے سے زکوٰة ادا کرے گا یا پورے ایک لاکھ روپے سے۔

جواب: صورت مسﺅلہ میں زکوٰة ایک لاکھ روپے میں واجب ہے البتہ ادائیگی کی تفصیل یہ ہے کہ جو پچاس ہزار وپے نقد موجود ہیں ان کی زکوٰة تو فی الفور ادا کردے اور جو پچاس ہزار روپے لوگوں کے پاس بطور قرض ہیں اس کی زکوٰة چاہے تو ابھی دے دیں، یا رقم وصول ہونے کے بعد ادا کریں۔ واضح رہے کہ اگر رقم وصول کرنے میں کئی سال لگ جائیں تو گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰة ادا کرنا واجب ہوگا۔ البتہ اس صورت میں ہر آئندہ سال گذشتہ سال کی واجب شدہ زکوٰة کی رقم کو مجموعی رقم سے منہا کرکے زکوٰة کا حساب لگایا جائے گا۔

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ طلحہ اور زبیر دونوں ایک زمین میں شریک ہیں اور زمین زبیر کے قبضہ میں ہے اور زبیر اس بات کو بھی تسلیم کررہا ہے کہ طلحہ میرے ساتھ زمین میں شریک ہے۔ لیکن طلحہ نے تیس سال سے اپنے حق کے لیے کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ تو زیبر کا کہنا ہے کہ طلحہ نے تیس سال سے دعویٰ نہیں کیا اب ان کو دعویٰ کا حق نہیں۔ اب کیا طلحہ اپنے حق کے لیے دعویٰ کرسکتا ہے یا نہیں۔

جواب: کسی شخص کے تیس سال یا اس سے بھی زائد مدت تک اپنے حق کا دعویٰ نہ کرنے کی وجہ سے شئے اس کی ملکیت سے نہیں نکلتی اور نہ اس کا حق باطل ہوتا ہے، لہٰذا زبیر کی بات شرعاً درست نہیں، طلحہ بدستور زبیر کے ساتھ زمین میں شریک ہے اور اپنے حق کے لیے دعویٰ کرسکتا ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیںمفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں بچہ کی پیدائش کے موقع پر رشتہ دار عورتیں آکر بچے کی ماں کو پیسے دیتی ہیں۔ جن کو بچے کی ماں یا گھر والے لکھ لیتے ہیں جب ان کے گھر میں ولادت ہوتی ہے تو ان لوگوں کو اتنے ہی پیسے یا اس سے زیادہ پیسے دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح شادی کے موقع پر بھی رشتہ دار یا پڑوسی یا دوست احباب پیسے دیتے ہیں وہ بھی لکھا جاتا ہے پھر ان لوگوں کی شادی میں اس سے بڑھا کر دیئے جاتے ہیں پھر ختنہ کے موقع پر خاندان کی عورتیں ختنہ کرنے والے کے لیے پیسے دیتیں ہیں کپڑے کا جوڑا دیتی ہیں۔ یہ سب لکھا جاتا ہے کہ کل ان کے ہاں ولادت ہوگی تو ہمیں یہ سب دینا پڑے گا۔ اکثر اوقات کم دینے پر آپس میں باتیں ہوتی ہیں کہ فلاں کو ہم نے شادی پر یا پیدائش پر اتنے روپے دیئے تھے اور اس نے ہمیں اتنے دیے ہیں۔ان سب صورتوں میں شریعت کا کیا حکم ہے۔

جواب: ہدیہ دینا ایک پسندیدہ اور مستحسن امر ہے لیکن بچے کی پیدائش یا شادی وغیرہ کے موقع پر ہدیہ کے عنوان سے جو کچھ رسماً لیا دیا جاتا ہے وہ ہدیہ نہیں بلکہ قرض ہے اور بلا ضرورت قرض لینا صحیح نہیں، اور وسعت کے باوجود قرض کے ادا نہ کرنے کو حدیث شریف میں ظلم کہا گیا ہے کہ جبکہ یہاں اس قرض کی واپسی کے لیے دینے والے کے ہاں شادی وغیرہ کا انتظار کیا جاتا ہے اور بسا اوقات آدمی اس طرح کے قرض اپنے ذمے لئے انتقال کرجاتا ہے اور پھر اس کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہوتا، احادیث میں اس حوالے سے بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں، نیز ان مواقع پر جو کچھ دیا جاتا ہے وہ اکثر و بیشتر رسم و رواج کی پابندی کی وجہ سے جبراً دیا جاتا ہے اور حدیث میں کسی شخص کا مال اس کے طیب نفس (دلی خوشی) کے بدلہ لینے کو حرام بتلایا گیا ہے اور دینے والا چوں کہ اسے اپنے لیے فخر و مباہات کا باعث سمجھتا ہے جو کہ ناجائز ہے، اس لیے اگر لینے والے کو کوئی خوشی سے دے تب بھی اس کو لینے سے احتراز کرنا چاہیے کیوں کہ یہ تعاون علی الاتم کے زمرے میں آتا ہے۔ الغرض یہ رسم کئی مفاسد کی وجہ سے تاملِ ترک ہے، اور اب تک جو کچھ لیا اس کی واپسی اور آئندہ کے لیے اس سے احتراز ضروری ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں اسماعیلی (آغا خانی) فرقہ آباد ہے جو اپنے کو سچا مومن کہتے ہیں اور اپنے روحانی پیشوا آغا خان کو ناطق قرآن یعنی بولتا ہوا قرآن کہتے ہیں اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سمیت اپنے تمام آئمہ کے الٰہیت کے قائل ہیں اپنے امام حاضر کو حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں اور امام ہی کو قضاءالحاجات مانتے ہیں، ان عقائد کے علاوہ اور بھی دیگر عقائد و نظریات ان کے مختلف کتابوں میں مذکور ہیں: آپ سے مندرجہ ذیل چند امور کی وضاحت طب ہے:

(۱) ہمارے علاقے میں بعض سنی مسلمان ان کے ساتھ ازدواجی رشتے رکھتے ہیں ان کی لڑکیاں سنی مسلمانوں کے نکاح میں ہیں اور مسلمان عورتیں ان آغا خانیوں کے پاس ہیں، اب ان کے بارے میں قرآن و سنت کا کیا حکم ہے؟ نیز اب کیا کرنا چاہیے۔(۲) آغا خانیوں کے ہاتھ کے ذبیحہ کیا ہوا حلال ہے یا حرام؟ (۳) کیا سنی مسلمان اپنی زکوٰة واجبہ آغا خانیوں کو دے سکتے ہیں۔

جواب: آغا خانی فرقہ اپنے باطل عقائد کی بناءپر خارج از اسلام ہے ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاﺅ کرنا جائز نہیں۔ مسلمان مردوں کو آغا خانی عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کو آغا خانی مردوں سے نکاح کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ لہٰذا صورت مسﺅلہ میں مسلمان مرد کا اپنی آغا خانی بیوی کے ساتھ اور جو مسلمان عورت اپنے آغا خانی شوہر کے ساتھ رہ رہے ہیں اس پر اﷲ تعالیٰ سے صدق دل کے ساتھ توبہ ضروری ہے۔ البتہ ایسے جوڑے سے یدا ہونے والی اولاد ثابت النسب شمار ہوگی ان کو حرامی کہنا جائز نہیں۔(۲) آغا خانیوں کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں۔ (۳)آغا خانیوں کو زکوٰة واجبہ دینا جائز نہیں۔
Flag Counter