Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

10 - 15
طریقِ محبت
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

شیخ العرب وا لعجم عارف باﷲ مرشدنا و مولانا حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب مدظلہم و عمت فیوضہم کا یہ وعظ مسمیٰ بہ طریقِ محبت ۶۲جمادی الثانی ۸۱۴۱ھ مطابق ۰۳ اکتوبر ۷۹۹۱ئ، بروز جمعرات، بعد نماز عصر، یادگار خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، بالمقابل چڑیا گھر لاہور میں ہوا۔( ادارہ )

یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اﷲ وکونوا مع الصادقین

جب میں نے اس آیت کو پڑھا تو میرے دل میں فوراً اس کا ترجمہ یہ آیا کونوا مع العاشقینکہ عاشقوں کے ساتھ رہو۔ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمةاﷲ علیہ نے فرمایاکہ جس گاڑی میں پیٹرول نہ ہو تو کب تک اس کو دھکا دیتے رہوگے، ارے انجن میں پٹرول ڈالو پھر دیکھو کیسا بھاگتی ہے کہ دھکے دینے والے جو پسینہ پسینہ ہورہے تھے وہ بھی اس میں بیٹھ جائیں گے لہٰذا کب تک خوف کے ڈنڈے سے عمل کرو گے، دل میں اﷲ کی محبت کا پٹرول ڈلوالو پھر ایسا بھاگو گے کہ لوگ حیران رہ جائیں گے کہ بھئی یہ تو بہت ہی تیز رفتار جارہا ہے۔ اﷲ کے عاشق دنیاوی رفتار کے لحاظ سے تو بالکل سست اور کاہل معلوم ہوتے ہیں، لیکن آخرت کے کاموں میں وہ انتہائی تیز رفتار ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمة اﷲ علیہ فرماتے ہیں

کارِ دنیا را ز کُل کاہل تر اند

در رہِ عقبیٰ ز مہ گو می برند

جنہوں نے اﷲ کو پہچانا وہ آپ کو ساری دنیا میں سب سے زیادہ کاہل ملیں گے، مگر کس سے؟ دنیا کے کام سے۔ دنیا کے کاموں سے ان کا دل اُچاٹ ہوجاتا ہے لیکن آخرت کے کاموں میں ان کی رفتار چاند سے زیادہ تیز ہوتی ہے، لہٰذا یہ مت سمجھنا کہ وہ ہر لحاظ سے کاہل ہیں، وہ غیر اﷲ سے کاہل ہیں مگر اﷲ پر جان دیتے ہیں، کتنی ہی حسین لڑکی سامنے آجائے مجال ہے کہ وہ نظر اٹھا کر دیکھ لیں، فوراً نظر نیچی کرلیں گے، کوئی حسین لڑکا سامنے ہو تو نظر نیچی کرلیں گے۔ اگر کوئی نظریں نیچی نہیں کرتا تو یہ نیچا آدمی ہے، اﷲو الا نہیں ہے، مولیٰ کی محبت اس پر غالب نہیں ہے، یہ گراونڈ فلور میں گھسنا چاہتا ہے، یہ بیوقوف و احمق ہے، اس کی عادتیں گندی ہیں، اﷲ والے ہمیشہ اپنے مولیٰ پر فدا رہتے ہیں اور ہر وقت اپنی جان خدا پر نثار کرتے رہتے ہیں۔ اور جان کیسے دیتے ہیں؟ خود کشی نہیں کرتے، اپنی آرزو اﷲ پر فدا کرتے ہیں جس خوشی سے مولیٰ ناراض ہوتا ہے کہ اس شکل کو دیکھ لو یہ لڑکا یا لڑکی بہت حسین ہے وہ اپنی اس بری خواہش کو اﷲ کے حکم کی تلوار سے کاٹتے رہتے ہیں۔ آہ! حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! تم کیا جانو اﷲ والوں کے مجاہدات کو

اے ترا خارے بپا نہ شکستہ کے دانی کہ چیست

حال شیرانے کہ شمشیرِ بلا بر سر خورند

تمہارے پیر میں تو کبھی کانٹا بھی نہیں چبھاتم کیا جانو ظالمو! ان اﷲ والے شیروں کو، ان شیروں کا حال تمہیں کیا معلوم جو ہر وقت اﷲ کے حکم کی تلوار کھاتے رہتے ہیں اور ان کے دل میں دریائے خون بہتا ہے۔ حاسدین چاہتے ہیں کہ غیبت کر کے، حسد کر کے اﷲ والوں کے چراغ کو بجھا دیں۔ اس پر میرا شعر ہے

ایک قطرہ وہ اگر ہوتا تو چھپ بھی جاتا

کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا

ایک قطرہ خون تو خاک سے چھپ سکتا ہے لیکن خون کا دریا کیسے پاٹو گے؟ جو ہر وقت اپنی آرزو کا خون کرتے رہتے ہیں، ہر وقت اپنی نظر کو بچا کر اپنی جان کو اﷲ پر فدا کرتے رہتے ہیں اور فدا کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جان میں حرام لذت نہ آنے دو، جان کی بازی لگا دو، دیکھنے کو کتنا ہی دل چاہے ارادہ کرلو کہ اس شکل کو نہیں دیکھنا اور دل سے کہہ دو کہ اے دل تو میرا خدا نہیں ہے، میں بھی بندہ ہوں تو بھی بندہ ہے، بندے کا ہر جز بندہ ہے، تو کیسے اپنے مولیٰ کے حکم کو توڑ کر اپنی خوشی کو پوری کر سکتا ہے، میں تجھ کو توڑ دوں گا مولیٰ کے حکم کو نہیں توڑوں گا۔ دہلی میں مومن نا م کا شاعر تھا، اس کا ایک دوست تھا آرزو، وہ بدعتی تھا اور مومن اﷲ والوں سے بیعت ہوگئے تھے لیکن اس پرانے دوست کی یاد آتی رہتی تھی، تنگ آکر ایک دن اپنے دل سے کہا

لے آرزو کا نام تو دل کو نکال دیں

مومن نہیں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

اے دل اگر تو نے میرے پرانے دوست آرزو کا نام لیا تو تجھ کو سینے سے نکال دوں گا۔ تو جب گندے کام کو دل چاہے، کسی نمکین یا حسین کو دیکھنا چاہے اس وقت دل کو مضبوطی سے یہ کہو کہ اے دل تجھ کو توڑدوں گا اﷲ کے حکم کو نہیں توڑوں گا، توبندہ ہے، وہ میرا مولیٰ، میرا پالنے والا ہے، اس نے ہم کو یہ آنکھیں دی ہیں، تیرے کہنے سے میں اس کو کیسے غلط استعمال کروں؟ جو ہر وقت خونِ آرزو پیتے ہیں ان کا دل لال ہوجاتا ہے۔ جب مشرق لال ہوتا ہے تو سورج نکلتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ کے قرب کا سورج اُنہیں کے دلوں میں طلوع ہوتا ہے جو اپنی ناجائز آرزووں کا خون کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل کے چاروں اُفق مشرق، مغرب، شمال، جنوب لال ہو جاتے ہیں پھر اﷲ تعالیٰ اپنے عاشقوں کے قلوب میں ہر طرف سے اپنے قرب کا سورج طلوع فرماتے ہیں۔

دیکھو دوستو! اگر اﷲ پر فدا نہ ہوئے تو کس پر فدا ہوگے؟ ان مرنے والوں پر؟ فدا ہونے کی دو ہی فیلڈ ہیں یا تو مولیٰ پر فدا ہو جاو یا لیلیٰ پر۔ اگر لیلیٰ پر فدا ہوئے تو کیا حاصل۔ اگر ابھی تمہارے گردے بیکار ہوجائیں تو ہے کوئی لیلیٰ جو تمہارے کام آئے، وہ تمہیں صحت دے سکتی ہے؟ جس کو رات دن دیکھتے تھے۔ کراچی میں ایک دوست میرے پاس آیا، میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا منظور کالونی میں، تو میں نے کہا کہ منظور کالونی میں رہنا ناظر کالونی میں نہ جانایعنی نظر کو خراب نہ کرنا، تو وہ صاحب بہت ہنسے۔ پھر اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے ایک اصلاحی شعر ہوگیا

اختر وہی اﷲ کا منظورِ نظر ہے

دنیا کے حسینوں کا جو ناظر نہیں ہوتا

یہ نہ سمجھو کہ اﷲ والوں کے سینوں میں دل حساس نہیں ہوتا، جو صوفی یہ کہے کہ ہم کو ساری لڑکیاں بجلی کا کھمبا معلوم ہوتی ہیں تو سمجھ لو کہ اس کا کھمبا کمزور ہے، اﷲ والوں کے دل میں حسن وعشق کا سنگم اور دریا بہتا ہے لیکن وہ اﷲ کے نام پر اپنی خواہشات کو ذبح کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہر لمحہ حیات ان کی روح وجان وزندگی پر زندگی برستی رہتی ہے۔ حکیم الامت کے اکثر وعظ میں یہ شعر آپ پائیں گے

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را

ہر زماں از غیب جانِ دیگر است

جو لوگ اپنی خواہش کو کاٹتے رہتے ہیں عالمِ غیب سے ان کی جان پر بے شمار جان برستی ہے، ان کی زندگی پر بے شمار زندگی برستی ہے اور جو مرنے والوں پر مرتے ہیں ان کے اوپر بے شمار موت برستی ہے، ان کے پاس رہ کر دیکھ لو، وہ کروٹیں بدلتے ہیں، بے چین تڑپتے رہتے ہیں، نیند نہیں آتی تو ولیم فائیو کھاتے ہیں۔ اس پر میں کہتا ہوں کہ کیوں دیکھی کسی کی وائف کہ کھانی پڑی ولیم فائیو اور خراب ہوگئی تمہاری لائف اور ہر وقت چبھتا ہے جگر میں اس کا نائف۔ واﷲ! قسم کھا کر اختر کہتا ہے بحیثیت ایک مربی اور ایک مسلمان کے، میں ستر سال کی عمر تک طبیب بھی رہا ہوں، حکمت بھی کی ہے، آج تک میرے پاس جتنے نوجوان بچے آئے سب نے یہی کہا کہ ان لیلاوں نے مجھے مار ڈالا

مار ڈالا تماش بینوں نے

زہر کھلوا دیا حسینوں نے

ہم پریشان ہیں، نیند تک نہیں آرہی۔ جس نے مولیٰ کو چھوڑا اور غیر اﷲ سے دل لگایا تو حکیم الامت تھانوی کے الفاظ ہیں سن لو اے جوانو! آج رومانٹک دنیاکا بہت بڑا سیلاب آرہا ہے، جو اس کا علاج نہیں بیان کرے گا سمجھ لو کہ وہ طریق سے واقف نہیں ہے، رومانٹک دنیا کا سیلاب بہہ رہا ہے، ہر طرف بے پردگی و عریانی ہے لہٰذا آج کل ولی اﷲ بننا بہت آسان ہے، ہر وقت نظر بچاو اور ایمانی حلوہ کھاو۔ حدیث شریف کا وعدہ ہے کہ جو نظر بچاتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے قلب میں حلاوتِ ایمانی عطا کرتا ہے اور محدثِ عظیم ملا علی قاری رحمة اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اﷲ تعالیٰ حلاوتِ ایمانی دیتا ہے تو واپس نہیں لیتا فیہ اشارة الی بشارة حسن الخاتمةتو معلوم ہوا کہ نظر بچانے سے ایمان پر خاتمہ بھی نصیب ہوگا اور جو نظر نہیں بچاتے ان کا خاتمہ بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ علامہ ابن قیم جوزی کا ایک واقعہ حکیم الامت نے اپنے وعظ میں نقل فرمایا ہے کہ ایک شخص نے ایک حسین کو دیکھا، اس کے دل میں اس کی شکل اُتر گئی، جب مرتے وقت اس شخص کو کلمہ پڑھایا گیا تو اس ظالم نے کہا

رضاک اشھی الی فوادی

من رحمة الخالق الجلیل

اے معشوق! اے محبوب! تیرا خوش ہونا مجھے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے زیادہ عزیز ہے اور وہ اِسی کفریہ جملے پر مر گیا۔ اس لیے یاد رکھو کہ غیر اﷲ کو دل سے نکالو ورنہ موت کے وقت کلمہ کے بجائے یہی نکلنے کا اندیشہ ہے کہ کوئی حسین لاو۔ جب ہم ساری زندگی مرنے والوں پر مرتے رہے تو اب زندہ حقیقی کا کلمہ کیسے نکلے گا؟ اس لیے اگر اطمینان سے رہنا ہے، چین سے رہنا ہے، پرسکون رہنا ہے، بالطف رہنا ہے تو اعمالِ صالحہ کی فکر کرواور اگر کبھی گناہ ہوجائے تو جلدی سے توبہ کر کے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرلو، توبہ کی برکت سے اﷲ تعالیٰ بگڑی بنا دیتا ہے۔ جب خطا ہوجائے اﷲ سے خوب روو، اﷲ تعالیٰ کبھی یہ نہیں فرمائیں گے کہ کب تک تمہاری توبہ قبول کروں، میں تمہاری توبہ قبول کرتے کرتے تھک گیا ہوں، اﷲ تھکتا نہیں ہے، ایک کروڑ گناہ کو بھی اﷲ معاف کرنے پر ویسے ہی قادر ہے جیسے کسی کے ایک گناہ کو معاف کردے، کسی کا ایک گناہ ہو یا کسی کے دس کروڑ گناہ اﷲ کو معاف کرنا کچھ مشکل نہیں، اﷲ کی ہر صفت غیر محدود ہے۔

مولیٰ کا راستہ بتلا رہا ہوں، اگر مولیٰ چاہتے ہو تو نظر کی حفاظت کرو اور دل کی حفاظت کرو، دل میں بھی گندے خیالات مت لاو، ایسے دل میں مولیٰ آئے گا جس میں مردے پڑے ہوئے ہیں؟ اگر یہاں کفنائے ہوئے کچھ مردے پڑے ہوں اور خانقاہ کا ناظم آپ کے لیے کباب اور بریانی کی دعوت کا اعلان کردے تو آپ کہیں گے کہ یہاں جو مردے پڑے ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں مجھ سے کھانا نہیں کھایا جائے گا، مجھے قے ہوجائے گی لہٰذا جن کے دل میں مردے لیٹے ہوئے ہیں، غیر اﷲ یعنی حسینوں کی محبت گھسی ہوئی ہے، بتاو! یہ حسین مردے ہیں کہ نہیں؟ یہ کسی دن مریں گے یا نہیں؟ دیکھ لو لیلیٰ کی قبر کھود کر اور مجنوں کی قبر کھود کر، نہ لیلیٰ کا نمک پاو گے نہ مجنوں کی سوکھی ہوئی ہڈیاں ملیں گی جو لیلیٰ کے غم میں رو رو کر لاغر ہوگیا تھا، نہ ساغرِ لیلیٰ ہے نہ لاغرِ مجنوں ہے۔

اس لیے حکیم الامت تھانوی رحمة اﷲ علیہ کا یہ جملہ نوٹ کرلینا کہ غیراﷲ کو دیکھنا اور دل لگانا یعنی عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے۔ یاد رکھو! میں یہ مضمون سارے عالم میں بیان کررہا ہوں اور جو جوان بچے ہیں آج میرا شکریہ ادا کررہے ہیں او رجوبڈھے ریٹائرڈ ہوگئے یا آوٹ آف اسٹاک ہیں وہ بھی اس کو غیر ضروری نہ سمجھیں، اپنی امت کے جوانوں کی حفاظت کو بھی ضروری مضمون سمجھیںمگر حکیم الامت نے فرمایا کہ بڈھوں کو بھی نظر بچانا چاہیے کیونکہ بڈھی کار کی بریک میں لوزنگ آجاتی ہے، بریک مارتا ہے یہاں اور رکتی ہے وہاں دس قدم کے بعد۔ لہٰذا بڈھوں کو بھی نظر بچانا چاہیے کیونکہ نظر میں کچھ خرچہ بھی نہیں ہوتا لیکن یہ آنکھوں کا زِنا ہے، آنکھوں کا زِنا نظربازی ہے، یہ کس کا ارشاد ہے؟ سیدالانبیاءمحمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو نظر نہیں بچاتا آنکھوں کا زِنا کرتا ہے، آنکھوں سے زِنا کرنے والا ولی اﷲ ہو سکتا ہے؟

حکیم الامت فرماتے ہیں کہ بدنظری احمقانہ گناہ ہے، بے وقوفی کا گناہ ہے کیونکہ نظرباز کچھ نہیں پاتا، نہ ملنا، نہ جلنا دیکھ کر تڑپنا، پرایا مال دیکھ کر دل تڑپانا اور اپنے کو جلانا اور کچھ نہ پانا، پائے گا وہی جو اپنی حلال کی ہے اور جس کی حلال کی بیوی بھی نہیں ہے وہ کہاں جائے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ نظر بچاو، ان شاءاﷲ ہائے ہائے ختم ہوجائے گی اور وسوسہ تک نہیں آئے گا، یہ سارا مرض بدنظری سے ہوتا ہے، نہ دیکھو کسی کا نمک، نہ چمک، نہ اس کی دمک، نہ تمہارے ایمان کو کھائے دیمک اور ایک ایک نظر بچانے میں اتنا مزہ آئے گا ان شاءاﷲ واﷲ قسم کھا کے کہتا ہوں کہ ہر نظر بچانے پر حلاوتِ ایمانی کا وعدہ ہے، آپ کے سینے میں نور کا دریا بہے گا اگرچہ خون کا دریا نفس میں بہہ رہا ہے، جب نفس میں خونِ آرزو کا دریا بہتا ہے تو روح میں نور کا دریا بہتا ہے۔

جو لوگ تقویٰ سے رہتے ہیں، حسینوں سے نظر کو بچاتے ہیں، چاہے ہوائی جہاز میں ائیر ہوسٹس ہو یا ریلوے اسٹیشن پر یا مارکیٹنگ کرتے ہوئے انارکلی میں، کسی کلی کونہیں دیکھتے تو وہ بے کلی میں نہیں رہتے، اﷲ تعالیٰ ایسے دلوں کو پُر بہار رکھتا ہے جو اﷲ کے لیے اپنی جان کو فدا کرتے رہتے ہیں۔ مولیٰ سے بڑھ کر کون ہے وہ ذات جس پر ہماری جان فدا ہو، ابھی جوانی سنبھال لو کیونکہ جوانی کی عادتیں اگر خراب ہوجائیں گی تو بڑھاپے تک اصلاح مشکل ہوجائے گی۔ مولانا رومی رحمة اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک محلے میں کسی گھر کے دروازے پر ایک کانٹے دار درخت اُگ گیا، محلے والوں نے گھر والے سے کہا کہ جلدی اُکھاڑو، اس نے کہا کہ کل اُکھاڑوں گا، جب کل آئی تو پھر کہا کہ کل اُکھاڑوں گا، کل کل کرتے ہوئے ایک سال ہوگیا اور درخت کی جڑ مضبوط ہوگئی اور اکھاڑنے والا کمزور %
Flag Counter