Deobandi Books

ماہنامہ دار العلوم دیوبندشعبان و رمضان 1429 ھ مطابق اگست و ستمبر 2008ء

ہ رسالہ

9 - 9
***
راجستھان، کرناٹک اور گجرات کے بم دھماکے سوچی سمجھی سازش کا حملہ
مہتمم دارالعلوم مولانا مرغوب الرحمن صاحب کا مذمتی بیان
مرنے والوں کو معاوضہ دینے کی اپیل


دبوبند 29/ جولائی:۔
مہتمم دارالعلوم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نے راجستھان، کرناٹک اور گجرات میں سلسلہ وار ہوئے بم دھماکوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ بتایا ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ تینوں وہ ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، ان دھماکوں کے فوراً بعد ایل کے اڈوانی کا یہ بیان آیا کہ ملک میں پوٹا قانون کا دوبارہ سے نفاذ عمل میں لایا جائے، ان سب باتوں سے دھماکوں کی غرض وغایت واضح ہوجاتی ہے۔ آنے والے سال میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان دھماکوں سے یہ واضح ہے کہ آتنک وادی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وزیر امور داخلہ ہمیشہ سے ان کی مذمت کرتے چلے آرہے ہیں، خفیہ ایجنسیوں کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ جہاں کہیں اور جب بھی کوئی بم دھماکہ ہوا تو شک کی سوئی لشکر طیبہ فوجی ہوجی اور نہ معلوم کن کن تنظیموں کی طرف چلی جاتی ہے۔ وزیر اعظم بار بار کہتے آرہے ہیں کہ ”دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں“۔ ان دھماکوں کا ایک خاص انداز سامنے آرہا ہے کہ بم دھماکے بہت زیادہ شدت کے ساتھ نہیں ہوتے اور ان میں سائیکلوں کا استعمال ہورہا ہے، ان واقعات سے بخوبی واضح ہے کہ اس دہشت گردی کی جڑیں اندرون ملک خاص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مضبوط سے مضبوط تر کی جارہی ہیں اور کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ اس سے ہماری داخلی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان قائم ہورہا ہے۔ حالیہ دو بم دھماکوں میں 50/ سے زیادہ افراد کے مرنے کی اطلاع ہے، زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سورت اور احمد آباد میں بموں کو ناکارہ بنایا جارہا ہے، کیرالہ، چنئی اور دلی میں ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ ان حالات میں ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں، اس سلسلے میں مرکزی سرکار اور ریاسی سرکاریں شبہات کے گھیرے میں آرہی ہیں، سلامتی افواج کی ناکامی سے دہشت پسندوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ احمد آباد میں بم دھماکے بنگلور میں ہوئے بم دھماکوں کے ایک روز بعد ہوئے جب کہ ریاستی انتظامیہ کو چوکس کردیا گیا تھا۔ یہ سب ایسے حالات ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں اور رہنماوٴں کو بخوبی سمجھ لینے چاہئیں۔
سردست تو مرنے والوں اور زخمیوں کو بڑی رقومات بطورِ امداد ملنی چاہیے اور اصل مجرموں کا پتہ لگاکر ان کو منظر عام پر لانا چاہیے، نیز یہ سب کام ذمہ داری سے انجام دیئے جانے چاہئیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔
بلاشبہ یہ دھماکے ملک کی قومی یک جہتی کیلئے خطرہ ہیں انکی جس قدر مذمت کی جا ئے کم ہے۔
جاری کردہ: دفتر اہتمام دارالعلوم دیوبند

Flag Counter