Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ - ستمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 10
اختیارات کے استعمال کا معاوضہ لینا !
اختیارات کے استعمال کا معاوضہ لینا!

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میرا ایک مکان ۲۰۰ گز کا فیڈرل بی ایریا میں ہے، جس پر ایک موبائل کمپنی کاٹاور لگا ہوا ہے، میں نے اس ٹاور کی آمدنی کو فی سبیل اللہ وقف کرنے کی نیت کی ہے (لوگوں کے حج وعمرے کے سلسلے میں) تو اس کے ٹیکس کے سلسلے میں مناسب کروانے کے لئے میں رشوت دینا نہیں چاہتا۔ میں نے ٹیکس دفتر والوں کو اپنا مقصد بتایا اور کہا کہ اگر رشوت کا معاملہ آتا ہے تو میں پورا ٹیکس دینے کو تیار ہوں، بس میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کر سکتے ہیں تو کردیں، کیونکہ سعودی عرب میں بھی کھانا، کرایہ مہنگاہوگیا ہے، اگر ٹیکس میں کچھ بچت ہوجائے تو وہاں سہولت ہوجائے گی تو دفتر والوں نے کہا کہ چونکہ آپ کا مقصد نیک ہے، اس لئے ہمیں جو اختیارات ہیں ہم ان کا استعمال کرکے ٹیکس کم کرسکتے ہیں، مگر اس کے لئے ہم جو آپ کے لئے اپنے اختیارات کو اس حد تک استعمال کریں گے اس اختیار کو استعمال کرنے کا معاوضہ لیں گے، ورنہ گورنمنٹ نے تو ہمیں اس لئے بٹھایا ہے کہ ہم گورنمنٹ کے لئے کھرج کر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائیں، ہمیں اختیار ہے کہ ہم ٹیکس کو ۱۰/ روپے لگائیں یا ۱۰۰۰۰/روپے لگائیں، اختیار کے استعمال کے معاوضہ والی بات میں نے کم از کم ۱۰ یا ۱۲ مرتبہ تکرار کی اور یہ بات ان کے بڑے آفیسر کو بھی ان کے ذریعہ کہلوائی اور آخر تک میں نے کہا کہ دیکھو: اگر رشوت ہورہی ہے تو میں پورا ٹیکس دینے کو بھی تیار ہوں، لیکن رشوت نہیں دوں گا، صرف اختیار استعمال کرنے کا معاوضہ اگر لے رہے ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ سوچ لو: اگر صرف مجھے سمجھا رہے ہو تو تمہارا گناہ تم سمجھو، میں بری الذمہ رہوں گا، بلکہ اس نے جو کاغذ بناکر دیا ہے اس میں بھی جتنا اختیار استعمال کیا ہے وہ بھی ظاہر کیا ہے، جس نے اس سلسلے میں کام کیا حتی کے بڑے آفیسر بھی سب اس بات پر راضی ہوئے کہ ٹھیک ہے، یہ رشوت نہیں لے رہے ہیں، بلکہ ذاتی اختیار کو اس حد تک استعمال کرنے کا معاوضہ لے رہے ہیں یعنی ان لوگوں نے اس لئے ذہن استعمال کیا کہ ٹیکس کاپیسہ کس ممکن حد تک کم کرنے کی کیا ممکن صورت ہوسکتی ہے۔ میں نے ساری صورت حال لکھ دی ہے، اب آپ مجھے مشورہ دیں کہ میرا یہ کام صحیح ہے؟ میں آپ کا مشکور رہوں گا۔

مستفتی:محمد حیات مکان نمبر ۱۰/۱۸ لیاقت آباد نمبر ۱۰

الجواب بعون الوہاب
صورت مسئولہ میں سائل کا ٹیکس کی رقم میں کمی کروا کر اختیارات کے استعمال کے نام پر معاوضہ دینا شرعاً درست نہیں،کیونکہ یہ معاوضہ کے نام پر رشوت دینا ہے۔جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”وفی المصباح: الرشوة بالکسر، مایعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید“۔ (۸/۳۴ بیروت)
نیز رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا از روے شریعت گنہگار ہے اور احادیث مبارکہ میں ان کے متعلق بڑی سخت وعید آئی ہے۔
جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
”لعن رسول الله ا الراشی والمرتشی“۔ (ابوداؤد:۲/۱۴۸ رقم الحدیث ۳۵۸)
باقی یہ کہنا کہ ہمیں اختیار ہے کہ ہم دس روپے ٹیکس لگائیں یا دس ہزار، یہ بات سراسر غلط ہے کہ حکومت اپنے ملازم کو اس قسم کا اختیار دے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ملازم رشوت لے کر جھوٹ اور دھوکہ دہی کرکے غلط بیانی کرے اور افسران بالا بھی اس کے ساتھ ساتھ ملے ہوئے ہوں، اگر بالفرض حکومت کی طرف سے کسی قسم کا صوابدیدی اختیار دیا بھی گیا ہو تو اس کے استعمال کے لئے مالی معاوضہ لینا بھی رشوت ہے۔ لہذا اگر ٹیکس کی رپورٹ بناتے وقت، حقیقت واقعہ کو تحریر کرتے وقت حکومت کے قواعد وضوابط کے مطابق اصل ٹیکس بیان کیا گیا ہو اور صوابدیدی اختیارات کے قواعد وضوابط کے مطابق وضاحت کردی گئی ہو کہ ان اختیارات کی بناء پر اتنا ٹیکس کم کیا گیا ہے تو اس صورت میں اگر رشوت دی گئی تو دینے والا گنہگار نہیں ہوگا، البتہ لینے والے کے لئے وہ حرام رہے گی، لیکن اگر رشوت لے کر غلط بیانی اور دھوکہ دہی کی گئی ہو اور قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرکے رشوت کی وجہ سے ٹیکس کم کیا جائے تو رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف

کتبہ

عبد الرحمن منیر

متخصص فی فقہ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۱ھ - ستمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: رمضان اورروزہ کے فضائل !
Flag Counter