Deobandi Books

اسفار

ن مضامی

13 - 27
احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر حاضری ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۱ء)
قندھار جانا ہو اور احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضری نہ ہو، یہ میرے جیسے تاریخ کے طالب علم کے لیے ممکن ہی نہیں۔ گزشتہ دفعہ جب قندھار گیا تو احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر بھی گیا۔ اس وقت مزار کے دروازے کھلے تھے اس لیے نیچے تہہ خانے میں اتر کر قبر کی پائنتی پر کافی دیر کھڑا رہا اور فاتحہ خوانی کے بعد تصور کی دنیا میں احمد شاہ باباؒ سے راز و نیاز میں مصروف رہا۔ مگر اس بار حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ہمراہ حاضری ہوئی تو دروازے بند تھے اس لیے باہر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی اور ’’خلوت‘‘ میسر نہ ہونے کی وجہ سے راز و نیاز کا شوق بھی ادھورا رہ گیا۔
احمد شاہ ابدالیؒ کو افغان عوام محبت و عقیدت سے احمد شاہ باباؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی عقیدت سے اس عظیم افغان فرمانروا کی قبر پر حاضری بھی دیتے ہیں جس نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں قندھار میں افغان سلطنت کی بنیاد رکھی اور صرف ربع صدی کے عرصہ میں اس کی سرحدیں دریائے آمو سے دریائے سندھ تک اور تبت سے خراسان تک وسیع کر کے 51 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔
احمد شاہ ابدالیؒ 1724ء میں ملتان میں پیدا ہوا۔ افغانستان کے ابدالی قبیلہ کے پوپلزئی خاندان کی سدوزئی شاخ سے اس کا تعلق ہے۔ اس کا باپ سردار زمان خان مرحوم ہرات پر ایرانیوں کے قبضہ کی مزاحمت کرتا رہا مگر ناکام رہا اور ایرانی ہرات پر قابض ہوگئے۔ اس کے بعد سردار زمان خان کے بھائی ذوالفقار خان نے ایرانیوں کے خلاف بغاوت کی مگر وہ کامیاب نہ ہوا اور 1731ء میں ہرات پر ایرانی قبضہ مکمل ہوگیا۔ سردار زمان خان کا بیٹا احمد خان ایرانی فرمانروا نادر شاہ کی فوج میں بھرتی ہوا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ایک سپاہی کے منصب سے ترقی کرتے ہوئے صرف تئیس برس کی عمر میں سپہ سالار کے مقام تک جا پہنچا۔ مگر 1747ء میں قزلباشوں کے ہاتھوں نادر شاہ قتل ہوا توا حمد خان نے دیگر افغان فوجیوں کے ہمراہ وطن واپسی کی راہ اختیار کی، قندھار میں افغان سلطنت کی بنیاد رکھی، احمد شاہ کا لقب پایا، اور در دراں (موتیوں کا موتی) کا خطاب حاصل کیا جس کی وجہ سے اسے درانی کہا جاتا ہے۔ احمد شاہ ابدالیؒ نے 1773ء میں وفات پائی مگر اس دوران مسلسل معرکہ آرائی اور فوجی مہمات میں اس نے اپنی سلطنت کو دریائے آمو سے دریائے سندھ تک اور تبت سے خراسان تک وسیع کر لیا جس میں کشمیر، پشاور، ملتان، سندھ، بلوچستان، ایرانی خراسان، ہرات، قندھار، کابل اور بلخ کے علاقے شامل تھے۔
احمد شاہ ابدالیؒ نے ہندوستان پر نو حملے کیے اور ایک مرحلہ پر لاہور اور سرہند پر قبضہ کر کے انہیں بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ مگر اس کا سب سے بڑا معرکہ پانی پت کی تیسری لڑائی ہے جس میں اس نے جنوبی ہند کے جنونی مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کا راستہ روکا اور شمالی ہند کے اس خطہ کو، جسے آج پاکستان کہلانے کا شرف حاصل ہے، ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے نام مخصوص کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مغل بادشاہت زوال کا شکار تھی۔ اسے ایک طرف سمندر پار سے تجارت کے نام پر آنے والی کمپنیوں نے، جن میں برطانیہ اور فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنیاں سر فہرست تھیں، دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔ دوسری طرف سے جنوبی ہند کے انتہا پسند ہندوؤں یعنی مرہٹوں کی فوج دہلی پر قبضہ کے لیے بے چین تھی۔ تیسری طرف پنجاب میں سکھوں نے اپنی قوت اور خودمختاری کے اظہار کا آغاز کر دیا تھا۔ اور اسی فضا میں ایرانی فرمانروا نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور وہ قتل عام کیا تھا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس وقت حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی و دینی قیادت کا علم اٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے دہلی کی طرف ہندو مرہٹوں کی یلغار کو شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے مغل بادشاہت کو اس کے مقابل بے بس پا کر احمد شاہ ابدالیؒ سے مدد کی فریاد کی۔ مرہٹے بھی اپنے مقابلہ میں افغانوں کے وجود کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور 1758ء میں پنجاب کو افغانوں سے خالی کرانے کی مہم میں پشاور تک یلغار کر چکے تھے۔ اس پس منظر میں افغانوں کی یہ ابھرتی ہوئی قوت ہی عالم اسباب میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا سب سے بڑا سہارا بن سکتی تھی۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالیؒ نے 1761ء میں مرہٹوں کے مقابلہ کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی کی اور پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو تاریخی شکست سے دوچار کرنے کے بعد دہلی کی حکومت ایک بار پھر مغل بادشاہ محمد شاہ کے سپرد کر کے اپنے وطن واپس لوٹ گیا۔
’’تاریخ مختصر افغانستان‘‘ کے مصنف عبد الحئی حبیبی مرحوم کا کہنا ہے کہ احمد شاہ ابدالیؒ حنفی المذہب عالم تھا، دینی احکام کا پابند اور متشرع حکمران تھا۔ اور شعر و شاعری اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتا تھا۔ پشتو میں احمد شاہ ابدالیؒ کا دیوان عبد الحئی حبیبی مرحوم نے ہی شائع کیا ہے جو اڑھائی ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے اور اس میں غزل، رباعی، قطعات، اور مخمس وغیرہ کی مختلف شعری اصناف شامل ہیں۔ تصوف و سلوک میں اپنے وقت کے دو بڑے شیوخ حضرت شاہ فقیر اللہ جلال آبادیؒ اور حضرت میاں محمد عمر پشاوریؒ سے اس کا ارادت کا تعلق تھا۔ اور سلوک و معرفت کے مسائل پر بھی اس کا شاعرانہ کلام موجود ہے جس کی شرح پشاور کے قاضی ملا محمد غوثؒ نے ’’شرح الشرح‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔
احمد شاہ ابدالیؒ کی فرمانروائی کا یہ پہلو تاریخ کی نظر میں عجیب اور ناقابل فہم ہے کہ اس نے مسلمان سرداروں اور حکمرانوں پر تسلط حاصل کرنے اور انہیں میدان جنگ میں شکست دینے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا اور ان کے علاقوں پر مسلسل قبضہ برقرار رکھنے کی بجائے انہی کو مناسب شرائط پر ان کے علاقے لوٹا دیے۔ مؤرخ حبیبی مرحوم نے احمد شاہ ابدالیؒ کے اس طرز عمل کو تاریخی طور پر عجیب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دہلی، بخارا، خراسان، سندھ اور بلوچستان کے حکمرانوں کے ساتھ اس نے یہی معاملہ کیا۔ اور پانی پت کا معاملہ تو ہمارے سامنے ہے کہ مرہٹوں کی خوفناک شکست کے بعد اگر احمد شاہ ابدالیؒ دہلی میں بیٹھ جاتا اور ہندوستان پر اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے اس اقدام سے نہیں روک سکتی تھی۔ بلکہ تاریخ کے میرے جیسے طالب علم کی نظر میں اس وقت احمد شاہ ابدالیؒ کے دہلی میں بیٹھ جانے کی صورت میں نہ صرف فرنگیوں کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے بلکہ سکھوں کی روز افزوں سرکشی بھی کنٹرول میں رہتی۔ لیکن احمد شاہ ابدالیؒ نے اپنی افتاد طبع اور اس کے ساتھ اپنے پیچھے قندھار میں بغاوت کے آثار دیکھ کر واپس لوٹ جانے کو ترجیح دی۔
مؤرخ حبیبی مرحوم نے احمد شاہ ابدالیؒ کے اس طرز عمل پر بحث کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے کہ ابدالیؒ کا یہ رویہ اس دنیا کے معاملات کے حساب سے نہ تھا۔ گویا حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک احمد شاہ ابدالیؒ کا معاملہ تکوینیات اور عالم غیب سے تھا کہ وہ اپنے ذمہ عائد کی گئی ذمہ داری ادا کر کے اسی طرح واپس چلا گیا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۹ مارچ ۲۰۰۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 امریکہ میں قادیانیت اور یہودیت کا نفوذ 1 1
3 صومالیہ، مشرقی افریقہ کا افغانستان 2 1
4 لاہور سے ہیتھرو ۔ (برطانیہ کا سفر ۱۹۹۹ء) 3 1
5 دو دن کابل میں ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۰ء) 4 1
6 افغان نائب صدر ملا محمد حسن سے ملاقات ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۰ء) 5 1
7 افغانستان کا عدالتی اور تعلیمی نظام ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۰ء) 6 1
8 افغانستان میں این جی اوز کا کردار ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۰ء) 7 1
9 افغانستان کے اخبارات پر ایک نظر ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۰ء) 8 1
10 مصر کے قومی اخبار الاہرام پر ایک نظر ۔ (برطانیہ کا سفر ۲۰۰۰ء) 9 1
11 قندھار کا سفر اور ملا محمد عمر سے ملاقات ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۱ء) 10 1
12 افغانستان پر اقتصادی پابندیوں کے اثرات ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۱ء) 11 1
13 افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۱ء) 12 1
14 احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر حاضری ۔ (دورۂ افغانستان ۲۰۰۱ء) 13 1
15 امریکہ کا سفر ۔ (مئی ۲۰۰۳ء) 14 1
16 امریکہ کا سفر (مئی ۲۰۰۳ء) 15 1
17 امریکہ کا سفر۔ ( ستمبر ۲۰۰۳ء) 16 1
18 بنگلہ دیش کا سفر۔ (۲۰۰۴ء) 17 1
19 برطانیہ اور امریکہ کا سفر (۲۰۰۵ء) 18 1
20 امریکہ کا سفر (۲۰۰۸ء) 19 1
21 ہانگ کانگ کا سفر (۲۰۰۹ء) 20 1
22 کویت ایئرویز کا تجربہ ۔ (امریکہ کا سفر ۲٠۱۱ء) 21 1
23 ساؤتھ افریقہ کا سفر (۲۰۱۳ء) 22 1
24 دیوبند کا سفر ۔ (دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء) 23 1
25 لدھیانہ اور چندی گڑھ میں ۔ (دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء) 24 1
26 سرہند شریف، سہارنپور، دیوبند ۔ (دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء) 25 1
27 دہلی میں تین روزہ قیام ۔ (دورۂ بھارت ۲۰۱۳ء) 26 1
28 حج ۲۰۱۵ء کا شاہی مہمان 27 1
Flag Counter